ایران کے وزیر خارجہ محترم جواد ظریف گزشتہ روز اسلام آباد تشریف لائے اور وزیر اعظم پاکستان کے امور خارجہ کے مشیر جناب سرتاج عزیز سے یمن کے بحران پر گفتگو کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایران امت مسلمہ کی وحدت کا خواہاں ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ مل کر یمن کے تنازعہ کے سیاسی حل کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس سے قبل ایران کے صدر محترم جناب حسن روحانی نے ترکی کا دورہ کیا ہے اور ترک حکمرانوں کے ساتھ ملاقات کے موقع پر وہ اسی قسم کے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔
یہ بات ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر یمن کے تنازعہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کے کچھ ضروری تقاضوں کی طرف ایران، ترکی اور پاکستان کے حکمرانوں کو توجہ دلانا اس موقع پر ضروری سمجھتے ہیں۔
اس وقت مشرق وسطیٰ کی جو صورت حال ہے وہ صرف یمن کے داخلی ماحول تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس خطہ کے نصف درجن کے لگ بھگ ممالک میں تیزی کے ساتھ پھیلنے والی اس علاقائی کشمکش کا حصہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پھیلاؤ میں خود ایران کا بھی حصہ ہے۔ اس لیے اسے صرف یمن کا داخلی مسئلہ قرار دے کر اسی دائرہ میں اسے نمٹانے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف یہ کہ غیر منطقی ہوگی بلکہ اس کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں کوئی امید رکھنا بھی مشکل ہوگا۔ چنانچہ جہاں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ یمن کے تنازعہ کو مشرق وسطیٰ کے عمومی تناظر میں دیکھا جائے اور اسی دائرہ میں اس کا حل تلاش کیا جائے، وہاں یہ بات بھی ناگزیر ہو چکی ہے کہ ایران کے کردار کے بارے میں مختلف اطراف سے جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے ایرانی قیادت ان کے حوالہ سے اپنے موقف اور پوزیشن کی وضاحت کرے۔ کیونکہ صلح و امن کا ایجنڈا تمام تر خلوص و سعی کے باوجود شکوک و شبہات کی فضا میں آگے نہیں بڑھا کرتا۔
مثلاً ۸ اپریل کی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے کابینہ کے اجلاس کے موقع پر عالمی قوتوں کے ساتھ ایٹمی معاملات میں ایران کے معاہدہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدہ میں عربوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ معاہدہ کے بعد عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت بھی بند ہو جائے گی۔
سوال یہ ہے کہ معاہدہ تو ایران کا عالمی قوتوں کے ساتھ ایٹمی مسئلہ پر ہو رہا ہے، اس میں عرب ممالک کے تحفظ اور ان کے معاملات میں مداخلت کی شکایت کہاں سے پیدا ہوگئی؟ یہ سوال سنجیدہ توجہ کا طالب ہے اور اس کا صحیح جواب تلاش کرنے کے لیے شاید گزشتہ چار عشروں کی صورت حال کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی اسی روز بی بی سی پر نشر ہونے والی اس خبر کو بھی پڑھ لیا جائے کہ جہاد افغانستان کے ممتاز کمانڈر اور حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ ایران نے افغانستان، عراق، شام اور بحرین کے بعد یمن کے معاملات میں بھی مداخلت شروع کر رکھی ہے۔ اس لیے وہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے گروہ سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کو یمن میں جا کر حوثی باغیوں کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس کے بعد سعودی عرب کے فوجی ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد عسیری کی طرف سے لگایا جانے والا یہ الزام بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یمن میں حوثی باغیوں کو لڑائی کی ٹریننگ ایران اور حزب اللہ نے دی ہے جس کے ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
ہم ان الزامات کی تصدیق یا توثیق نہیں کر رہے اور نہ ہی ہم اس پوزیشن میں ہیں لیکن یہ ضرور عرض کریں گے کہ ان الزامات کے ماحول میں ایرانی حکومت کا یمن کے تنازعہ کے حوالہ سے صرف سفارتی کردار کافی نہیں ہوگا بلکہ اسے اس سے آگے بڑھنا بلکہ بہت آگے جانا ہوگا تاکہ وہ عالم اسلام کو یہ باور کرا سکے کہ وہ فی الواقع یمن کے تنازعہ کے سیاسی حل کے لیے کوشاں ہے اور امت مسلمہ کی وحدت اس کا مطمح نظر ہے۔
ایرانی انقلاب کے بعد وہاں جب مذہبی قیادت برسر اقتدار آئی تو ہم نے اس حوالہ سے خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس کا خیر مقدم کیا تھا کہ آج کے دور میں ایک کامیاب مذہبی انقلاب دنیا بھر میں دینی حوالہ سے جدوجہد کرنے والے حلقوں کے لیے تقویت کا باعث ہوگا اور انہیں اس سے حوصلہ ملے گا۔ جبکہ ایران کی انقلابی قیادت اگر اپنے استحکام کے بعد اردگرد کے مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کے لیے مسلسل جاری دینی قوتوں کے لیے معاون اور مددگار کا کردار ادا کرتی اور ان کے مقابلہ میں اپنی ترجیحات کے مطابق نئی تحریکات کھڑی کرنے اور انہیں سپورٹ کرنے سے گریز کرتی تو ہماری یہ خوشی یقیناً دوچند ہو جاتی۔ لیکن خود ہمارے ہاں پاکستان میں نفاذ فقہ جعفریہ کے نام سے ایک نئی تحریک نے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو مضبوط کرنے کی بجائے نقصان پہنچایا اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی جمہوری ریاست بنانے کی جدوجہد متنازعہ ہو کر رہ گئی۔
اس پس منظر میں ہم ایران کے صدر محترم اور زیر خارجہ محترم کے حالیہ بیانات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے وحدت امت اور مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کے سیاسی حل کے لیے ان کوششوں کو بہت مفید سمجھتے ہیں بشرطیکہ زمینی حقائق اور مشرق وسطیٰ کے عمومی تناظر کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید الجھ جائے گا اور سفارتی سرگرمیاں رسمی کاروائیوں سے آگے نہیں بڑھ سکیں گی۔