بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہماری آج کی نشست کا عنوان ہے ”اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کا کردار“۔ اسلامی نظریاتی کونسل کیا ہے، اس کے فرائض کیا ہیں، اس کا کردار کیا ہے اور اثرات کیا ہیں؟ تعارفی انداز میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
پاکستان جب بنا تو ’’قرارداد مقاصد‘‘ میں یہ طے کیا گیا کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی، حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں گے، اور وہ قرآن و سنت کے پابند ہوں گے۔ اس سے پارلیمنٹ پابند ہو گئی کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرے گی۔ اس وقت یہ مسئلہ پیش آیا کہ پارلیمنٹ تو قرآن و سنت کے علماء پر مشتمل نہیں ہوگی تو یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ کوئی پالیسی یا قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں ہے؟ اس میں اتھارٹی کون ہو گا؟ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس وقت ایک بورڈ بنا ”تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ“ کے نام سے۔ اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ قرآن و سنت کے دائرے میں پالیسی سازی اور قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی رہنمائی کریں گے، اور حکومت اس سے پوچھے گی کہ ہم جو کام کر رہے ہیں یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں ہے۔ تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ میں جید علماء اور ممتاز ماہرینِ قانون دونوں شامل تھے۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ اس درجے کے علماء اس کے ممبر رہے ہیں۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ کے اکابر علماء اس میں تھے، اور دوسری طرف جدید اور قدیم قوانین کے ماہرین بھی اس میں شامل تھے۔ اس میں دو اصول تھے:
(۱) ایک یہ کہ قرآن و سنت پر عبور رکھنے والے قومی سطح کے جید علماء اس میں تھے، اور چونکہ قانون سازی کرنی ہے تو جدید ماہرینِ قانون بھی اس بورڈ میں تھے، تو یہ اہتمام تھا کہ دونوں کی نمائندگی صحیح ہونی چاہیے۔
(۲) دوسری طرف یہ تھا کہ چونکہ ملک میں موجود بڑے مکاتب فکر چار ہیں: دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ، تو ان کی نمائندگی بھی اسی سطح کی ہونی چاہیے۔
چنانچہ تعلیمات اسلامیہ بورڈ ان دو اصولوں پر جدید اور قدیم ماہرینِ قانون اور چاروں مکاتب فکر کے سرکردہ علماء پر مشتمل تھا۔ تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ قائم ہوا اور رسمی طور پر کافی عرصہ چلتا رہا، لیکن اس کا انداز یہ تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اپنی یادداشتوں میں ایک جگہ لکھا ہے کہ دو چار میٹنگوں میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ کام وام کوئی نہیں ہونا۔ اس دوران مفتی صاحب مرحوم نے بورڈ کے سربراہ کو، جو غالباً سپریم کورٹ کے جسٹس تھے، کسی مسئلے پر بحث کے موقع یہ کہا کہ مجھے بات سمجھ آ گئی ہے کہ ملک کے عمومی آئینی قانونی ڈھانچے کو آپ جس طرف لے جانا چاہ رہے ہیں ادھر میں نہیں جانے دوں گا، اور جدھر میں لے جانا چاہ رہا ہوں ادھر آپ نہیں جانے دیں گے، اور گاڑی یہیں کھڑی رہے گی۔ یعنی قانون سازی کے کام کو اسلام کے رخ پر آپ نہیں چلنے دیں، اور غلط سمت پر میں نہیں چلنے دوں گا، نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ معاملہ درمیان میں ہی رہے گا۔ مفتی صاحبؒ کے یہ جملے ابھی تک ویسے ہی ہیں کہ گاڑی وہیں کھڑی ہے اور مسئلہ جوں کا توں ہے۔
ایک اور واقعہ آپ کے سامنے عرض کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال جو کہ علامہ محمد اقبالؒ کے بیٹے ہیں، ان کا نقطہ نظر اپنا تھا، ہمیں ان سے بہت سے معاملات میں اختلاف رہا ہے، لیکن اتنی بات ہے کہ وہ ملک میں اسلامائزیشن اپنے نقطہ نظر سے کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کافی عرصہ یورپ میں رہے ہیں، انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جب میں ملک میں رہنے کے لیے واپس آیا تو وہ سکندر مرزا کا دور تھا، ایوب خان سے پہلے سکندر مرزا ملک کے صدر تھے، میں اقبالؒ کا بیٹا تھا اور اقبالؒ کے بیٹے کا بہرحال ملک میں ایک مقام اور حیثیت ہے، تو مجھے صدر سکندر مرزا نے بلایا اور کہا کہ آپ بڑے آدمی کے بیٹے ہیں اور ہمارے لیے قابل احترام ہیں، اقبالؒ ہمارے قومی مفکر ہیں، شاعر ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ملک میں آپ کی حیثیت کے مطابق نمایاں جگہ دی جائے۔ اس زمانے میں پاکستان، ترکی اور ایران کی ایک علاقائی کونسل بنی تھی جو کہ آر سی ڈی کہلاتی تھی، ریجنل علاقائی تعاون کی کونسل تھی۔ سکندر مرزا نے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ اس کے سیکرٹری جنرل بن جائیں اور اس وحدت کے لیے کام کریں۔
جاوید اقبال کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ سیٹ بڑی ہے لیکن میری دلچسپی نہیں ہے، میری دلچسپی اسلامائزیشن میں ہے اس لیے آپ اسلامک کونسل میں مجھے کوئی جگہ دلا دیں، جیسے تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ۔ میرے والد کا بھی یہ نقطہ نظر تھا، میرا بھی ہے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ آپ آر سی ڈی کی بجائے وہ کام میرے حوالے کر دیں۔ جسٹس جاوید اقبال صاحب لکھتے ہیں کہ سکندر مرزا نے قہقہہ لگایا اور میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بے تکلفی کے انداز میں کہا کہ یار! وہ ہم نے کام کرنے کے لیے تھوڑی بنائی ہے، چھوڑو، کوئی کام کی بات کرو۔
مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اس کے بارے میں یہ فرمایا ہے، اور جاوید اقبال صاحب نے یہ لکھا ہے، یعنی اس کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کا اور حکمران طبقات کا ذہن یہ تھا۔ بہرحال یہ میں ابتدائی تعارف کروایا کہ تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ کے نام سے ایک بورڈ تھا۔
۱۹۶۲ء کے آئین میں ایوب خان کے زمانے میں اسے ”اسلامی مشاورتی کونسل“ کا درجہ دیا گیا جو کہ باقاعدہ ایک دستوری ادارہ تھا۔ یہ ایڈوائزری کونسل بنی اور چلتی رہی، مقصد اس کا بھی یہی تھا کہ پارلیمنٹ اور حکومت کی قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی میں رہنمائی کرے، اور جہاں ضرورت محسوس ہو وہ کونسل سے پوچھیں کہ یہ مسئلہ کیسا ہے؟ لیکن الجھن یہ پیدا ہو گئی کہ ایوب خان اسلامی مشاورتی کونسل میں ڈاکٹر فضل الرحمان کو لے آئے، انہوں نے ایسے ایسے جدید اجتہادات پیش کیے کہ ملک میں نیا جھگڑا کھڑا ہو گیا، جیسے متجددین کے اجتہادات ہوتے ہیں، اور یہ لمبا قصہ چلتا رہا۔
۱۹۷۳ء کے آئین میں اس کو اسلامی نظریاتی کونسل (اسلامک آئیڈیالوجی کونسل) کا نام دیا گیا۔ مقصد وہی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء اور جدید و قدیم علوم کے ماہرین اس میں شریک ہیں۔ اس کونسل میں بھی تمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے علماء ممبر رہے ہیں۔ مولانا مفتی محمود صاحبؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور مولانا احمد سعید کاظمیؒ اس کے ممبر رہے ہیں اور انہوں نے خاصا کام کیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ذمہ ایک کام یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے عمل کی نگرانی کرے گی۔ خود بھی نگرانی کرے گی، اور کوئی مسئلہ نوٹس کے طور اس کے سامنے لایا جائے، یا حکومت کو کسی مسئلے پر اگر ضرورت ہو یہ معلوم کرنے کی کہ شریعت کی منشا کیا ہے، تو اسلامی نظریاتی کونسل اس کی رہنمائی کرے گی کہ کیا درست ہے اور کیا درست نہیں ہے۔ دوسرا کام اس سے زیادہ اہم تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل ملک کے تمام قوانین، جو کسی بھی سطح پر رائج ہیں، ان کا جائزہ لے کر سات سال کے اندر رپورٹ مرتب کرے گی کہ کون سا قانون اسلام کے مطابق ہے اور کون سا اسلام کے مطابق نہیں ہے، کس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور کس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ہدف یہ دیا گیا۔ اور یہ طے ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل وفاقی معاملات کے بارے میں قومی اسمبلی کو رپورٹ دے گی اور صوبائی معاملات میں صوبائی اسمبلی کو رپورٹ دے گی۔ پھر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں اس کو زیر بحث لا کر اس پر قانون سازی کریں گی۔
جب بھٹو مرحوم کے خلاف تحریک چلی تو ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ چھ سال گزر گئے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل نے کچھ بھی نہیں کیا۔ تو انہوں نے کہا کہ ابھی کر لیتے ہیں، فوراً مولانا مفتی محمودؒ، مولانا یوسف بنوریؒ، مولانا شمس الحق افغانیؒ کو ممبر بنایا اور کہا جلدی سے کر دو، جیسے حکومتوں کا کام ہوتا ہے انہوں نے کیا، مگر وہ حکومت ختم ہو گئی۔
اسلامی نظریاتی کونسل بنتی رہی اور چلتی رہی۔ اسلامی کونسل نے اپنے طور پر کام کیا ہے، میں اس کی کچھ تفصیل عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جب ضیاء الحق مرحوم کا دور آیا تو ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمٰن اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہوئے، سنجیدہ آدمی تھے، انہوں نے اس کو تھوڑا سا متحرک کیا کہ ہمیں کچھ کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ قوانین کا جائزہ لینا شروع کر دیا اور رپورٹیں مرتب کرنا شروع کر دیں، لیکن دو مسئلے تھے: ایک یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات جو مرتب ہوں وہ قانوناً قابل اشاعت نہیں ہوتیں۔ دوسرا یہ کہ اس کی حیثیت محض سفارش کی ہے، اسمبلی کی مرضی ہے کہ منظور کرے یا نہ کرے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک اہم سفارش جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں سودی نظام اور قوانین کے بارے میں کی۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد انہوں نے ملک میں موجود معاشی قوانین کی نشاندہی کی کہ فلاں فلاں قانون اور فلاں فلاں شق کی بنیاد سود پر ہے، یہ قرآن و سنت کے منافی ہیں، لہٰذا ان کو تبدیل کرنا چاہیے۔ بڑی جامع رپورٹ مرتب ہوئی، چار پانچ سو صفحے کی کتاب ہے، وہ صرف ارکان اسمبلی کو ملتی تھی۔ میں اس وقت ہفت روزہ ترجمانِ اسلام لاہور کا ایڈیٹر تھا جو جمعیۃ علماء اسلام کا آرگن ہے، میری خواہش تھی کہ کسی نہ کسی بہانے سے وہ رپورٹ شائع کر دیں۔ ایک دن ایم این اے ہاسٹل میں ہمارے ایک دوست جو کہ جامعہ نصرۃ العلوم کے فضلاء میں سے تھے، ایم این اے تھے، ان کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، مجھے وہاں ایک کتاب نظر آئی، میں نے اٹھائی تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ تھی۔ ان سے پوچھا تو کہنے لگے کوئی رکھ گیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو میں لے کر جا رہا ہوں۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ ’’چور کو پڑ گئے مور‘‘، ہوا یہ کہ میں وہ کتاب لندن لے گیا کہ کوئی طریقہ نکالوں گا کہ کہیں چھپ جائے تاکہ اہل علم کے ہاتھ میں آئے۔ ورلڈ اسلامک فورم کی میٹنگ تھی، انڈیا سے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ، جو کہ برصغیر جنوبی ایشیا کی بڑی علمی شخصیات میں ہیں، میٹنگ میں آئے ہوئے تھے۔ ہم اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے، میں نے بیگ کھولا تو ان کی نظر کتاب پر پڑ گئی، کہنے لگے خدا کے بندے! یہ کہاں سے لائے ہو؟ میں نے کہا پاکستان سے لایا ہوں۔ فرمانے لگے یہ تو میں لے جا رہا ہوں، تم اور تلاش کر لینا، اور انہوں نے اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈال لی۔ بہرحال اس کے بعد مجھے اس رپورٹ کا اردو میں خلاصہ پینتیس چالیس صفحے کا مل گیا تو میں نے ترجمانِ اسلام کی ایک خصوصی اشاعت میں چھاپ دیا۔
اس دور کی بات ہے کہ اقبال احمد خان مرحوم مسلم لیگی رہنما تھے، میرے اچھے دوست تھے، ہم نے جیل بھی اکٹھے کاٹی ہے، وہ وزیر قانون رہے ہیں اور وزیر مذہبی امور بھی، پھر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بنے، نظریاتی آدمی تھے۔ ان کا ایک لطیفہ آپ کو سناتا ہوں، جب وہ وزیر قانون تھے، چونکہ میرے بے تکلف ساتھی تھے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ یار! آپ کو یہ کرنا چاہیے، وہ کرنا چاہیے، میں اپنا رونا روتا رہا، وہ سنتے رہے۔ جب میں نے اپنا سارا غبار نکال لیا تو انہوں نے ایک جملہ کہا کہ یار! تم نے تو اپنا رونا میرے سامنے رو لیا ہے، میں کس کے سامنے روؤں؟ انہوں نے کہا کہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین ہوں، ہمارے ذمے کام ہے کہ ہم نے ملک کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر اس کے مطابق رپورٹ وزارتِ قانون کو دینی ہے۔ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ یہ کام تو میں مکمل کراؤں گا، آگے جو ہو گا سو ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے لگاتار کام کر کے یہ کام مکمل کر دیا۔ اس وقت اس اعتبار سے اسلامی نظریاتی کونسل کا کام بالکل مکمل ہے۔ اول سے آخر تک تمام قوانین کا جائزہ لے کر اس کی سفارشات، متبادل قوانین اور تجاویز پر مشتمل مکمل رپورٹ موجود ہے۔ وہ رپورٹ اقبال احمد خان نے وزارت قانون کے حوالے کر دی کہ یہ کام ہمارے ذمے تھا ہم نے کر دیا ہے۔
گذشتہ کونسلوں سے اسلامی نظریاتی کونسل کا فرق میں نے آپ کو بتایا کہ اس نے اپنے حصے کا یہ کام کیا ہے اور ٹھیک ٹھاک کیا ہے۔ چنانچہ دینی حلقے جب بھی مطالبات کرتے ہیں تو ان میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو اسمبلیوں میں لایا جائے اور قانون سازی کی جائے، اس لیے کہ ان کام مکمل ہے۔ اس پر ایک واقعہ ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کراچی میں ایک میڈیا چینل نے اپنے پروگرام میں تین چار علماء حضرات بٹھائے، میں اتفاق سے کراچی گیا ہوا تھا تو مجھے بھی بلا لیا۔ جیسے ہمارے اینکر حضرات کا طرزِ گفتگو ہوتا ہے، اینکر کہنے لگا کہ علماء کرام! آپ کا کوئی ہوم ورک اور پیپر ورک بھی ہے یا ویسے اسلام اسلام کے نعرے لگا رہے ہیں؟ اسلام ویسے ہی تو نافذ نہیں ہو جائے گا۔ اس مذاکرہ کا موضوع یہ تھا کہ کیا نفاذِ اسلام کے لیے کسی ہوم ورک کا وجود ہے؟ لیکن تکنیک یہ تھی کہ انہوں نے یہ سوال ایسے صاحب سے مخاطب ہو کر کیا جو اس کی ابجد بھی نہیں جانتے تھے۔ میں نے کہا بھئی! اس سوال کا جواب میں دوں گا۔ اینکر نے کہا کہ حضرت، آپ سے اور سوال کریں گے۔ میں نے کہا نہیں، میں اس کا جواب دوں گا۔ میں جانتا تھا کہ ان صاحب سے کوئی بات نہیں بنے گی اور مجھ سے کوئی رسمی سا سوال کر کے یہ تاثر دیں گے کہ یہ بھی وہاں موجود تھا اور اس کا جواب نہیں دے سکا۔ چنانچہ میں نے اس کی وضاحت کی کہ اسلاملائزیشن کے حوالے سے ہمارا ہوم ورک اتنا مکمل ہے کہ دنیا کا کوئی اور ملک بھی چاہے تو ہم اس کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔
حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ پنجاب اسمبلی کے رکن رہے ہیں، ایک دفعہ وہ گھیرے میں آ گئے کہ آپ منسٹر بنیں۔ میری رائے تھی کہ نہ بنیں۔ وہ بات سنتے بھی تھے مانتے بھی تھے۔ میں نے ان سے کہا مولانا، اللہ پاک نے آپ کو بہت عزت دی ہے، وزیر بن کر آپ کچھ نہیں کر سکیں گے، خواہ مخواہ اپنی موجودہ پوزیشن خراب مت کریں۔ انہوں نے میری بات مان لی اور کہنے لگے کہ اچھا پھر کوئی بہانہ بتاؤ۔ میں نے کہا کہ دو شرطیں لگا دیں۔ ایک شرط یہ لگائیں کہ چنیوٹ کو ضلع بنائیں، اس سے آپ کی علاقے میں سیاسی پوزیشن ٹھیک ہو جائے گی۔ بعد میں چنیوٹ کو ضلع بنایا گیا۔ اور دوسری شرط یہ رکھیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جو سفارشات صوبے سے متعلق ہیں وہ اسمبلی میں لائیں اور قانون سازی کے لیے پیش کریں۔ میں نے کہا کہ یہ دو شرطیں لگا دیں ان شاء اللہ آپ کا کام ہو جائے گا اور ان کا بھی ہو جائے گا۔
مولانا چنیوٹیؒ اس وقت ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ کہنے لگے کہ میاں صاحب پرسوں تشریف لا رہے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف اس وقت وزیر اعلیٰ تھے۔ میں اس وقت جمعیۃ علماء اسلام کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھا، مولانا چنیوٹیؒ سیکرٹری اطلاعات تھے، مجھے کہا کہ پھر یہ بات پارٹی کی طرف سے کرتے ہیں۔ چنانچہ میاں صاحب سے بات کی کہ ہم مولانا چنیوٹی آپ کو دینے کو تیار ہیں اس درخواست پر کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات جو صوبے سے متعلق ہے انہیں صوبائی اسمبلی میں پیش کر کے قانون سازی کر دیں۔ کہنے لگے، کریں گے۔ ہم نے کہا اس کی مدت طے کریں اور ضمانت دیں، مجھے معلوم تھا کہ سفارشات کون کون سی ہیں اور پھر کیا ہوگا، تو وہ گارنٹی دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
یہ میں نے صرف اسلامی نظریاتی کونسل کا تعارف کروایا ہے کہ یہ ایک دستوری ادارہ ہے اور اس کے کام سے ہم مطمئن ہیں کہ اس نے ملک کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر قانون سازی کی سفارشات مرتب کر کے مکمل رپورٹ وزارت قانون کے حوالے کر رکھی ہے، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، وجہ وہی ہے جو سکندر مرزا مرحوم نے کہی تھی کہ ہم نے یہ کوئی کام کرنے کی تھوڑی بنائی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل میں اتار چڑھاؤ بھی آتا رہا ہے، کچھ سفارشات سے ہمیں اختلاف بھی رہا ہے، لیکن ہمارا موقف اس وقت یہ ہے کہ یہ ایک دستوری ادارہ ہے اور دستور نے اس کے ذمہ جو کام لگا رکھا ہے اس کا نتیجہ کیوں نہیں سامنے آ رہا؟ اس ناکامی کو دور کرنے کے لیے ایک اور اقدام ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ہوا۔ ضیاء الحق مرحوم نے اسلامی نظریاتی کونسل کو متحرک کیا، جسٹس تنزیل الرحمٰن صاحب کو چیئرمین بنایا اور انہوں نے کام شروع کیا۔ ایک اور متبادل راستہ بھی جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اختیار کیا تھا جس کے لیے مولانا مفتی محمود صاحبؒ کی جدوجہد اور ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ مذاکرات چلتے رہے۔ ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ بھی وزارتوں میں شامل ہوا تھا تو اس دور میں مطالبہ کیا گیا کہ ایک بااختیار ادارہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس کے لیے وفاقی شرعی عدالت تشکیل پائی۔ دونوں کا اداروں کام ایک جیسا ہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام یہ ہے کہ ملک کے قانون کا جائزہ لے اور حکومت کو بتا دے کہ ہماری سفارش یہ ہے، اور حکومت اس بات کی پابند ہے کہ اسے اسمبلی میں پیش کرے اور قانون سازی کرے۔ لیکن یہ سفارش ہی رہے گی، منظوری کا اختیار اسمبلی کے پاس ہے۔ اس لیے ضرورت پیش آئی کہ اس کو بااختیار اتھارٹی کی کوئی شکل دی جائے، تو اس کے لیے وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی۔
وفاقی شرعی عدالت کا طریق کار بھی وہی ہے کہ جدید ماہرین قانون اور قدیم ماہرین قانون پر مشتمل ہو گی۔ چنانچہ وفاقی شرعی عدالت میں جسٹس تنزیل الرحمٰن، مولانا عبد القدوس، مولانا تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ صاحبؒ رہے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت دستور کا حصہ ہے اور چیف جسٹس ریاض احمد خان صاحب نے پچھلے دنوں اس کے نئے چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا ہے۔ اس کا دائرہ اسلامی نظریاتی کونسل سے تھوڑا سا آگے ہے۔ اس کا پہلا دائرہ کار یہی ہے کہ حکومت کوئی قانون بھیج دے، عوام کی طرف سے کوئی درخوست آ جائے، یا وفاقی شرعی عدالت ازخود کسی قانون کا جائزہ لے کر یہ کہے کہ فلاں قانون، فلاں شق قرآن و سنت سے متصادم ہے لہٰذا اس کو ختم کیا جائے۔ وہی کام جو اسلامی نظریاتی کونسل کا ہے، اس کا بھی ہے، لیکن وفاقی شرعی عدالت کو یہ پیش قدمی حاصل ہے کہ یہ حکم جاری کر سکتی ہے کہ یہ قانون قرآن و سنت سے متصادم ہے، لہٰذا اس کو اتنے عرصے میں ختم کیا جائے اور متبادل قانون نافذ کیا جائے۔ نوے دن، چار مہینے، چھ مہینے، جتنی میعاد مقرر کر دے، اگر مقررہ وقت تک ختم نہیں کیا تو وہ قانون خودبخود ختم ہو جائے گا۔ یہ ایک عملی شکل تھی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی سود پر جو سفارشات تھیں وہ لائی گئیں اور وفاقی شرعی عدالت نے ان کا جائزہ لیا، مولانا تقی عثمانی، پیر کرم شاہ صاحبؒ کے ساتھ دیگر حضرات تھے، جسٹس صاحبان بھی تھے۔ انہوں نے تفصیلی فیصلہ لکھا کہ سودی قوانین قرآن و سنت سے متصادم ہیں اور دستور سے متصادم ہیں، لہٰذا ان کو ختم ہونا چاہیے اور متبادل قوانین لانے چاہئیں، اس کے لیے ایک سال کی تاریخ دے دی اس کے اندر ختم کر دیں ورنہ خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ آخری وقت کا انتظار ہوتا رہا اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کر دی گئی اور حکمِ امتناعی لے لیا گیا۔ سپریم کورٹ میں شریعت ایپلٹ بینچ بن چکا تھا۔ کیس کے آغاز سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے تک اٹھارہ سال لگے۔ سپریم کورٹ نے بالآخر فیصلہ دے دیا کہ یہ قوانین غیر اسلامی ہیں اور غیر دستوری ہیں، لہٰذا ان کو ختم کیا جائے، اور متبادل قوانین کا خاکہ بھی دے دیا کہ ان کی جگہ یہ نافذ کیا جائے۔ یہ خواہ مخواہ پروپیگنڈا ہے کہ متبادل نظام نہیں ہے، پورا متبادل نظام اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت نے تشکیل کر دیا تھا اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں مکمل متبادل نظام موجود ہے کہ یہ قانون ختم کیا جائے اور یہ لایا جائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل تو نہیں ہوتی لیکن نظر ثانی کی اپیل کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ دیکھیں کہ ہمارے ہاں کیا کیا ہوتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جس بنچ نے فیصلہ کیا ہے، نظرثانی کی اپیل بھی وہی سنے گا۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اور دوسری عدالتوں میں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج مستقل ہوتے ہیں اور ان کو تحفظ حاصل ہے، جبکہ وفاقی شرعی عدالت میں جج معاہدہ کی بنیاد پر معینہ مدت کے لیے آتے ہیں، وہ مستقل نہیں ہوتے۔ ہوا یہ کہ اگلی میعاد ختم ہونے سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر ہو گئی۔ اس دوران جو پرانے جج چلے آ رہے تھے مولانا تقی عثمانی سمیت، ان کے کنٹریکٹ کی مدت ختم ہو گئی اور اگلا کنٹریکٹ گورنمنٹ نے ان سے نہیں کیا۔ نکالا تو نہیں لیکن اگلی مدت کے لیے ان سے معاہدہ نہیں کیا اور دوسروں سے معاہدہ کر لیا جس سے بنچ تبدیل ہو گیا۔ نئے جج آ گئے اور نظرثانی کی اپیل ان کے سامنے رکھی گئی۔ بیوروکریسی کے حربے اس طرح ہوتے ہیں، ان سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔
نئے بنچ نے نظر ثانی کی اپیل سن کر یہ نہیں کہا کہ فیصلہ غلط ہوا ہے، اور یہ بھی نہیں کہا کہ ہم اسے مسترد کرتے ہیں، بلکہ یہ کہا کہ فیصلے کی سماعت میں کچھ فنی سقم رہ گئے ہیں لہٰذا ازسرنو سماعت کی جائے۔ اس سے معاملہ اٹھارہ سال پہلے کے زیرو پوائنٹ پر چلا گیا۔ میں نے اس پر کالم میں لکھا کہ ہمارے ساتھ وہ ہوا ہے جو لڈو میں سانپ ڈسنے سے ہوتا ہے کہ اوپر سے سانپ نے ڈسا اور ہم زیرو پوائنٹ پر آ گئے۔
میں نے یہ فیصلہ کرنے والے ایک جسٹس صاحب سے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ سیدھا کہتے کہ فیصلہ غلط ہوا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہم نے یہ کہہ کر کافر ہونا تھا؟ فیصلہ تو صحیح تھا، ہم نے ایمان بھی بچانا تھا تو کیسے اس کو منسوخ کرتے؟ اس لیے ہم نے ٹیکنیکل راستہ اختیار کیا کہ کچھ سقم رہ گئے ہیں، ازسرنو سماعت کی جائے۔
اب اس فیصلے کو بھی آٹھ سال ہو گئے ہیں۔ پچھلے سال وفاقی شرعی عدالت نے ازسرنو سماعت کے لیے کیس فریزر سے نکال لیا اور اعلان کر دیا کہ ہم سماعت کر رہے ہیں۔ وہی سارا پرانا پروسیجر کھڑا کر دیا کہ سوالات اور جوابات، اور ایک سوالنامہ جاری کر دیا۔ چنانچہ ہم نے تھوڑی سی پیشرفت کی۔ ”ملی مجلس شرعی“ کے نام سے ہمارا ایک فورم ہے جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ چاروں مکاتب فکر کے سنجیدہ علماء شامل ہیں۔ کوئی ایسا مسئلہ ہوتا ہے تو ہم مل کر رائے دیتے ہیں کہ ہماری رائے یہ ہے۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ انہوں نے جو سوال نامہ جاری کیا ہے، اس کا جواب اگر الگ الگ دیا گیا تو کہیں تو اختلاف ہو جائے گا، اور بہانہ بنے گا کہ ان کا تو اتفاق ہی نہیں ہے، اس لیے جواب مشترکہ جانا چاہیے۔ ہم نے محنت کی، چاروں مکاتب فکر بلکہ پانچوں کہ جماعت اسلامی بھی ہمارے ساتھ ہے، ہم نے سب کے مفتیان کرام کو جمع کر کے سوالنامے کا مشترکہ متفقہ جواب تیار کیا اور وفاقی شرعی عدالت کو جمع کروا دیا کہ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے، ہم سب اس جواب پر متفق ہیں لہٰذا اس کو بہانہ نہ بنایا جائے۔
ہماری اس تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ کیس پھر فریزر میں چلا گیا۔ ہم سے یہ جو ’’ غلطی‘‘ ہوئی اس کا پتہ نہیں ہمیں ثواب ملے گا یا کیا ملے گا کہ کیس پھر فریزر میں چلا گیا، اب پتہ نہیں آٹھ سال بعد نکلتا ہے یا دس سال بعد نکلتا ہے۔ یہ میں نے آپ کو اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کا تھوڑا سا تعارف کروایا ہے کہ یہ ہمارے دستوری ادارے ہیں، اسلام کے لیے ہیں، اسلام کے نام پر ہیں، اور ساری چیزیں موجود ہیں، لیکن جو ریڈ لائن ہے، نہ یہ کراس کر پا رہے ہیں اور نہ وہ کراس کر پا رہے ہیں۔