۱۲ دسمبر ۲۰۲۳ء کو گورنمنٹ اسلامیہ گریجویٹ کالج گوجرانوالہ میں ’’عصرِ حاضر میں نسلِ نو کی معاشرتی ذمہ داریاں، سیرۃ النبیؐ کے تناظر میں“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب نظرثانی اور اصلاح و ترمیم کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محترم ڈاکٹر محمد زمان چیمہ صاحب پرنسپل کالج، اساتذہ کرام، عزیز طلباء و طالبات! میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے منعقد ہونے والے اس اجتماع میں اپنے شہر کی قدیم درسگاہ اور تعلیمی مرکز اسلامیہ کالج میں ایک مرتبہ پھر حاضری کا موقع ملا ہے، اور اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اپنے مستقبل کی قیادت سے مخاطب ہوں، اس قیادت نے ہی آئندہ نظام سنبھالنا ہے، مجھے کہا گیا ہے کہ انہی کے بارے میں بات کرنی ہے ، اس لیے آج میرا جی چاہ رہا ہے کہ عام معمول سے ہٹ کر ذرا کھلے کھلے ماحول میں آپ سے کچھ باتیں ہو جائیں کیونکہ آج سے کچھ عرصہ بعد قیادت آپ کے ہاتھ میں ہوگی، اس وقت ملک اور قوم کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، جب قیادت آپ کے ہاتھ میں آئے گی تو آپ نے ملک کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ اس پر میں اپنے وژن کی کچھ باتیں آپ کے ذہنوں میں ڈالنا چاہتا ہوں، اللہ رب العزت ہمیں مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری اور سب سے افضل پیغمبر ہیں۔ آپؐ کی نبوت کا دائرہ کیا ہے؟ حضور نبی کریمؐ نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر جو پہلی بات کی تھی وہ ’’یا ایھا الناس‘‘ تھا، حالانکہ اس وقت آپ کے سامنے چند قریشی تھے جو مکی اور عربی تھے لیکن حضورؐ نے نسل انسانی کو خطاب کیا تھا۔ یعنی جو گلوبل سوسائٹی حضور نبی کریمؐ کی تشریف آوری کے بعد عملاً آج منظم ہو رہی ہے اور گلوبلائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ سوسائٹی حضورؐ کی اولین مخاطب تھی۔ وہ زمانہ بھی حضور نبی کریمؐ کی نبوت کا تھا اور آج کا زمانہ بھی حضور نبی کریمؐ کی نبوت کا ہے جو کہ قیامت تک ہے۔ لیکن میں آج کے زمانے کو سامنے رکھ کر بات کروں گا کہ حضور نبی کریمؐ کے ارشادات اور احکام، آپ کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ آج کے لیے بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے عالمی تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کیا کہتی ہیں، اور آج جو معاشرتی، سیاسی، فکری، علمی اور تہذیبی چیلنجز درپیش ہیں، ان کا حل سیرت طیبہؐ میں کس نے تلاش کرنا ہے؟ ان چیلنجز کا حل حضور نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ میں موجود ہے۔ انسانی زندگی کے بیسیوں دائروں میں کوئی ایسا دائرہ نہیں ہے جس میں انسانیت کسی دلدل میں نہیں پھنسی ہوئی۔ اس دلدل کو پہچاننا، اس کی مشکلات کو سمجھنا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ سے اس کا حل تلاش کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ میرا آپ سے پہلا سوال ہے کہ اگر میں اور آپ خود کو اس ذمہ داری سے مستثنی ٰسمجھ لیں گے تو یہ ذمہ داری کون پوری کرے گا؟ اس کام کے لیے فرشتے تو نہیں آئیں گے، یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے۔
چنانچہ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ ہم خود واقف ہوں۔ اساتذہ کرام اور طلباء سے پہلی گزارش یہ ہے کہ ہم آج کے چیلنجز ، ان کے تقاضوں اور جناب نبی کریمؐ کی سیرت مبارکہ اور اسوہ حسنہ سے خود واقف ہوں گے تو اس کے بعد کچھ کر سکیں گے۔ اگر میں نہ ان چیلنجز سے واقف ہوں اور نہ سیرت طیبہ سے واقف ہوں تو میں کیا کروں گا؟ اس لیے میں نے پہلا نکتہ یہ عرض کیا ہے کہ ہم آج کے چیلنجز سے واقف نہیں ہیں۔ آج کے جتنے ابلاغ کے ذرائع ہیں مثلاً میڈیا، تعلیم اور لابنگ وغیرہ جو ذرائع کام کر رہے ہیں یہ ہمیں اصل زمینی حقائق کا منظر نہیں دکھا رہے، اصل صورتحال سے واقف نہیں کروا رہے۔ عربی ادب کی کہاوت ہے کہ ایک مصور شیر کی تصویر ایسی بنا رہا تھا کہ شیر کے گلے میں رسی ہے جو آدمی نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے۔ پاس سے کوئی شیر گزرا تو مصور نے شیر سے پوچھا کہ تصویر کیسی لگی؟ شیر نے کہا کہ جیسی بھی لگ رہی ہے، اصل بات یہ ہے کہ برش آپ کے ہاتھ میں ہے، اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو آپ دیکھتے کہ رسی کس کے ہاتھ میں ہے؟ آج ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے کہ ہمیں جو تصاویر اور مناظر دکھائے جا رہے ہیں وہ حقیقی نہیں ہیں، ہمیں ان تصویروں میں الجھا کر پس پردہ ایجنڈے مکمل کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے پہلا مرحلہ اوریجنل سورسز سے واقفیت حاصل کرنے کا ہے، اس پر ایک واقعہ ذکر کر دیتا ہوں۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب بوسنیا اور سربیا کے مسائل تھے اور مشرقی یورپ میں مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہا تھا، جیسا کہ آج غزہ میں ہو رہا ہے، یہی صورتحال وہاں تھی۔ برطانیہ کا ایک شہر لیسٹر ہے جہاں ہمارے ملک کے معروف دانشور پروفیسر خورشید احمد کا ادارہ اسلامک فاؤنڈیشن ہے۔ میں وہاں کافی دفعہ گیا ہوں۔ انہوں نے اس زمانے میں بوسنیا کے مسائل پر اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ایک سیمینار رکھا تو اس علاقے کے پارلیمنٹ ممبر جم مارشل نے اس میں بطور مہمان خصوصی تقریر کی۔ اتفاق کی بات ہے کہ میں بھی برطانیہ میں تھا اور سیمینار میں شریک تھا۔ جم مارشل کی تقریر کے دو تین جملے نقل کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسلام کو دیکھنا چاہتے ہیں، اسلام کی بات سننا اور اسلام سے واقف ہونا چاہتے ہیں، لیکن ایک گیپ ہے جو دور نہیں ہو رہا۔ وہ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ایک تصویر وہ ہے جو ہمیں ہمارے بڑے نسل در نسل بتاتے چلے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم پڑھے لکھے لوگ خود اسٹڈی کرتے ہیں ، ہم نے تاریخ اور تہذیبوں کی اسٹڈی میں اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر دیکھی ہے وہ اس پہلی تصویر سے مختلف ہے۔ لیکن جب ہم آج کی مسلم سوسائٹی کو عملاً دیکھتے ہیں تو ایک تیسری تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے جو ان پہلی دونوں تصویروں سے مختلف ہے۔ ممبر پارلیمنٹ نے سیمینار میں بھرے اجلاس میں یہ بات کہی کہ آپ ہماری یہ کنفیوژن دور کر دیں تو ہم اسلام کی بات سننے کو تیار ہیں۔
چنانچہ یہ کنفیوژن آج موجود ہے جسے خود سمجھنا اور پھر دوسروں کو سمجھانا ہمارا کام ہے۔ ہمارے بعد مستقبل کی قیادت آپ نے سنبھالنی ہے اور اس سے اگلی نسل کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالے سے یہ ویژن آپ نے منتقل کرنا ہے۔ چونکہ سیمینار کا عنوان ”عصرِ حاضر میں نسلِ نو کی ذمہ داریاں“ ہے اس لیے آپ کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی معلومات اور تعلیم کا خلا جہاں سے بھی پُر ہوتا ہو پُر کریں، اس کے بغیر آپ مستقبل کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ اگر ہمارے روایتی سسٹم اور ماحول سے یہ خلا پر نہیں ہوگا تو ہمیں اس کے لیے ایمرجنسی میں کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا اور اساتذہ کا پیچھا کرنا ہوگا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آج کے مسائل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کیا ہیں، آج کے چیلنجز پر حضرات خلفاء راشدینؓ کی تعلیمات کیا ہیں، اور ہماری آج کی الجھنوں اور کنفیوژن پر ہمارا قدیم ماضی کیا کہتا ہے؟
اس تمہید کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج امت مسلمہ کو بیسیوں مسائل درپیش ہیں، ان میں سے آج کی گفتگو کے لیے دو تین کا انتخاب کر رہا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ سوسائٹی آج گلوبل ہو گئی ہے۔ سب سے پہلے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر عالمگیر معاشرہ سے ’’یا ایھا الناس‘‘ کہہ کر خطاب کیا تھا اور پھر اس کے حدود اور دائرے صفا پہاڑی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر منیٰ میں حجۃ الوداع کے خطبے میں بیان کیے تھے۔ آج سوسائٹیز عملاً خلط ملط ہو رہی ہیں، اور جب معاشرے اور تہذیبیں آپس میں مکس ہوتے ہیں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ آج ’’سولائزیشن وار‘‘ کا نعرہ ہے، میں اس کو تھوڑا سا تبدیل کر کے ’’سولائزیشن مکس اپ‘‘ کہتا ہوں ۔ یورپی تہذیب، افریقی تہذیب، ایشیائی تہذیب، ہندو تہذیب، چینی تہذیب اور مسلم تہذیب سب مکس ہو رہی ہیں۔ آپ اس اختلاط کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات پر غور کریں کہ ہم نے ایک ہزار سال تک ہندو تہذیب کے ساتھ مقابلہ بھی کیا اور اس کے ساتھ گزارا بھی کیا ہے، ان کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے تشخص کی حفاظت بھی کی ہے اور ان کے اندر مکس ہونے سے اپنے آپ کو بچایا بھی ہے۔ اس کے بعد دو سو سال ہمیں مغربی تہذیب کا سامنا رہا جسے ہم قبول بھی کرتے جا رہے ہیں اور بعض باتیں رد بھی کرتے جا رہے ہیں۔ جبکہ ایک تیسری تہذیب بھی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور چند سالوں میں اس کا منظر واضح ہو جائے گا کہ چائنہ صرف روڈ نہیں بنائے گا بلکہ ساتھ اس کی تہذیب بھی آئے گی، صرف معاشی امداد نہیں دے گا بلکہ اس کی روایات بھی ساتھ آئیں گی۔ چنانچہ ہم ایک تہذیب بھگت چکے ہیں، دوسری تہذیب بھگت رہے ہیں اور تیسری تہذیب کا آئندہ سامنا ہے۔
اس تناظر میں کہ دنیا بھر کی تہذیبیں خلط ملط ہو رہی ہیں، میں ایک چھوٹا سا سوال عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا ہم نے ہر تہذیب کی ہر بات کو قبول کرنا ہے، یا ہر تہذیب کی ہر بات کو رد کرنا ہے؟ ہمارے لیے نہ یہ ضروری ہے کہ ہر تہذیب کی ہر بات کو قبول کریں اور نہ یہ ضروری ہے کہ ہر تہذیب کی ہر بات کو رد کر دیں۔ تو اس کو پرکھنے کی ہمارے پاس اتھارٹی کون ہے اور معیار کیا ہے ؟ وہ اتھارٹی اور معیار جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور اسوہ حسنہ ہے۔ ہم اس معیار پر پرکھیں گے کہ کونسی بات قبول کرنی ہے اور کونسی بات رد کرنی ہے۔ اس ساری کشمکش میں ہمارے پاس معیار یہی ہے اور اسی بنیاد پر ہم نے دوسری تہذیبوں کی باتیں قبول کرنی ہیں، رد کرنی ہیں، یا ان کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے۔
اسی طرح معیشت کے باب میں دیکھ لیں کہ ہم کہاں تک پھنسے ہوئے ہیں، بلکہ جکڑے ہوئے ہیں اور اس جکڑ بندی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے، یہ شکنجہ ڈھیلا نہیں پڑ رہا بلکہ سخت ہو رہا ہے، اس کا حل بھی ہمیں سیرت طیبہ سے تلاش کرنا ہے۔ جبکہ آج ہماری سیاسی صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے مسلم ممالک اکٹھے بیٹھ کر بھی اپنے غزہ کے ذبح ہوتے ہوئے مسلمان بھائیوں کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کر سکے۔ یہ ہمارے جکڑے ہوئے ہونے کی علامت اور ہماری بے بسی کی انتہا ہے کہ مسلم حکمران اکٹھے ہوئے اور مل بیٹھ کر مذمت کی لیکن کسی عملی کام کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہم معاشی اور سیاسی میدان میں جکڑے ہوئے ہیں اور تہذیبی طور پر نبرد آزما ہیں، اس لیے دوسری بات میں نے یہ عرض کی ہے کہ آج کے حالات و ضروریات کے تناظر میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور تعلیمات مبارکہ میں اس کی رہنمائی تلاش کرنا اور اسے واضح کر کے اگلی نسل کو پیش کرنے کی عملی شکل سامنے لانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اساتذہ اور طلباء چاہے وہ کالجز کے ہوں یا مدارس کے، یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے، جو ہم پوری نہیں کریں گے تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تو اپنے وقت پر پوچھیں گے ہی، لیکن تاریخ قیامت کا انتظار نہیں کرے گی بلکہ وہ اس سے پہلے ہی ہم سے پوچھے گی کہ تم فورم پر کھڑے تھے تو اپنی ذمہ داری کہاں تک نبھائی تھی؟
اس کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن مجید اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج کے مسائل پر بات کی ہے۔ آج کی دنیا کے چیلنجز کے دو بڑے دائرے ہیں: ایک عملی اور دوسرا علمی۔
عملی دائرے میں آج کی دنیا کا سب سے بڑا سوشل ایشو ’’ہیومن رائٹس‘‘ ہے۔ پرسوں اس کا عالمی دن منایا گیا، میں نے بھی دو سیمینارز میں شرکت کی۔ ہیومن رائٹس باقی دنیا کے لیے تو معاشرتی چیلنج ہے جبکہ ہمارے خلاف بہت بڑا ہتھیار بھی ہے کہ جہاں کہیں ہمارا راستہ روکنا ہو تو ہیومن رائٹس کی لاٹھی ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں بھی مذہب اور دین کا راستہ روکنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار ہیومن رائٹس سامنے آتا ہے۔ میں اس ساری بحث کو چھوڑتے ہوئے صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ ہیومن رائٹس کے حوالے سے جناب نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ میں کیا رہنمائی ملتی ہے۔ بیسیوں حوالوں میں سے مثال کے طور پر دو حوالے عرض کرنا چاہوں گا۔
میں نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بھی ایک سیمینار میں یہ بات کہی کہ اسلام میں حقوق کا تصور ’’حقوق اللہ‘‘ اور ’’حقوق العباد‘‘ دونوں حوالوں سے ہے۔ قرآن مجید نے حقوق العباد کی بات کی ہے لیکن پہلے حقوق اللہ کی بات کی ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کی ہے، اور میں پورے شرح صدر اور اعتماد کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ حقوق الناس کی وضاحت جناب نبی کریمؐ نے جس تفصیل اور درجہ بندی کے ساتھ بیان فرمائی ہے، آج کا فلسفہ اس کی گرد تک نہیں پہنچتا۔ آج کے ہیومن رائٹس کی جو بڑی بنیاد ہے اس کا متن اقوام متحدہ کا ”انسانی حقوق کا چارٹر“ ہے، میرا حقوق کی بات کرنے والوں سے سوال ہے کہ اس میں حقوق اللہ کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ حالانکہ سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا نے کیا ہے، سارے معاملات اس کے کنٹرول میں ہیں، تو اسے آپ نے کیسے نکال دیا؟ وہ کونسی اتھارٹی ہے جس نے حقوق اللہ کو حقوق کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی بیسیوں آیات میں سے ایک آیت اور جناب نبی کریمؐ کے سینکڑوں ارشادات میں سے ایک بطور مثال عرض کروں گا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حقوق کے دس دائرے بیان کیے ہیں۔ جن میں پہلا حق اپنا بیان کیا ہے اور نو حق بندوں کے بیان کیے ہیں۔ والدین کا حق، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسیوں، اجنبی پڑوسیوں، ساتھیوں، مسافروں اور ماتحت نوکروں اور غلاموں کے حقوق درجہ بدرجہ بیان فرمائے۔ چنانچہ حقوق بیان کرنے کی ترتیب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو حقوق العباد پر مقدم کیا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق کا تصور اور شعور دینے کے ساتھ اپنا حق حاصل کرنے کا حوصلہ بھی دیا کہ یہ میرا حق ہے اسے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس پر ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرتا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے۔ جناب نبی کریمؐ تشریف فرما تھے، مجلس جمی ہوئی تھی، آپؐ کے دائیں جانب حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیٹھے ہوئے تھے جو اس وقت تیرہ چودہ سال کے لڑکے تھے، اور آپؐ کے بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیقؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور نبی کریمؐ کو کسی نے پیالے میں مشروب پیش کیا ، آپؐ نے کچھ نوش فرمایا اور کچھ بچا لیا ۔ حضورؐ کے اپنے بتائے ہوئے اصول کے مطابق دائیں والے کا حق مقدم ہے اور اس طرف حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیٹھے ہوئے ہیں، لیکن آپؐ کا جی وہ بچا ہوا مشروب حضرت صدیق اکبرؓ کو دینے کو چاہ رہا ہے، جو ساتھی بھی ہیں اور خسر بزرگوار بھی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا عبداللہ! حق تو تمہارا بنتا ہے لیکن تمہاری اجازت ہو تو اُدھر دے دوں؟ غور کریں کہ کون کس سے اجازت مانگ رہا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بھی آنحضرتؐ کے تربیت یافتہ تھے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ آپ کا تبرک ہے، میں اس تبرک میں کسی کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دیتا۔ بخاری شریف کا جملہ ہے ’’ فتلہ فی یدہ‘‘ کہ حضور نبی کریمؐ نے ان کے ہاتھ میں زور سے پیالہ تھمایا ۔ یعنی حضور نبی کریمؐ کو اجازت نہ ملنے پر تو غصہ آیا لیکن پیالہ اسی کو دیا جس کا وہ حق تھا۔ جبکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے یہ واضح کر دیا کہ مجھے اپنے حق کا شعور بھی ہے اور حق حاصل کرنے کا حوصلہ بھی ہے۔ یہ میں نے بیسیوں واقعات میں سے ایک عرض کیا ہے۔
میں نے عرض کیا ہے کہ ہیومن رائٹس کے حوالے سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور خلفاء راشدینؓ کے دور میں اپنے موجودہ مسائل کا حل تلاش کریں گے تو میں پوری تسلی کے ساتھ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوگا جس کا بہترین حل نہ ملے۔
دوسرا علمی اور فکری میدان ہے۔ آج ہم الجھے ہوئے ہیں کہ سائنس ترقی تو کر رہی ہے مگر مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ آج سے چند سال پہلے لاہور میں ”سائنس اور مذہب میں مفاہمت “ کے عنوان سے ایک سہ روزہ سیمینار ہوا ، آخری گفتگو کے لیے مجھے دعوت دی گئی۔ میں نے کہا کہ مفاہمت وہاں ہوتی ہے جہاں لڑائی ہو، سائنس اور مذہب میں لڑائی ہے ہی نہیں تو کس بات میں مصالحت کروانی ہے؟ میں یہ بات بطور خاص طلباء کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ عیسائی مذہب نے آج سے تین سو سال پہلے سائنس کی مخالفت کی تھی ،جبکہ اسلام تو سائنس کا بانی ہے۔ اس لیے میں مغرب سے کہا کرتا ہوں کہ تم ہمیں اپنے اوپر کیوں قیاس کرتے ہو؟ یہ پس منظر تم لوگوں کا ہے کہ آپ کے مذہب نے سائنس کی مخالفت کی تھی، جبکہ ’’ یتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا‘‘ قرآن مجید تو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ سوچو آسمان کیسے پیدا ہوا اور زمین کیسے پیدا ہوئی۔ سائنس ہماری مؤید ہے، ہمارے ہاں سائنس اور مذہب میں کوئی لڑائی نہیں ہے۔ بیسیوں آیات میں سے ایک آیت کا حوالہ دیا ہے ۔
اس کا دوسرا پہلو عرض کر دیتا ہوں۔ فیصل آباد میں ایک یونیورسٹی میں اسی موضوع پر سیمینار تھا، میں نے اس میں کہا کہ مذہب اور سائنس میں کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ تقسیم کار ہے، کیونکہ کسی چیز کے تعارف میں چار سوال ہوتے ہیں: (۱) یہ چیز کیا ہے یعنی کن چیزوں سے مل کر بنی ہے؟ (۲) اس کا مقصد کیا ہے؟
(۳) اسے کس نے بنایا ہے (۴) اور اس بنانے والے کا ایجنڈا کیا تھا؟ میں نے کہا ان میں سے دو سوال سائنس ڈسکس کرتی ہے اور دو سوال مذہب ڈسکس کرتا ہے۔ سائنس موجود چیزوں کو دریافت کرتی ہے اور ان کا اچھا یا برا استعمال سکھاتی ہے۔ سائنس چیزوں کو پیدا نہیں کرتی کہ وہ آج تک کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لائی۔ اور سائنس نے کبھی یہ ڈسکس نہیں کیا کہ ان چیزوں کو بنایا کس نے ہے؟ یہ سوال میں نے امریکہ کی ایک بڑی یونیورسٹی کے اساتذہ کے سامنے بھی کیا تھا کہ آپ لوگ چیزوں کو دریافت کر کے ان کا استعمال سکھاتے ہیں، مگر کبھی اس پر بھی غور کیا ہے کہ اسے بنانے والا کون ہے؟ بلکہ یہ سوال مذہب کا موضوع ہیں کہ یہ کس نے بنایا ہے اور بنانے والے کا اپنا ایجنڈا کیا ہے۔ قرآن مجید ان دونوں سوالوں کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس لیے جب دو سوال سائنس حل کرتی ہے اور دو سوال مذہب حل کرتا ہے تو لڑائی کس بات کی ہے؟
بہرحال دوسرا میدان علمی ، فکری اور مشاہدات کی دنیا ہے، اس میں اگر آپ تلاش کریں گے تو مسائل کا حل قرآن و سنت سے مل جائے گا، بلکہ مل رہا ہے، میں اس پر دو چھوٹی سی باتیں مثال کے طور پر عرض کروں گا۔ آج ایک بڑا مسئلہ کلوننگ کا ہے، بخاری شریف کی روایت میں اس کی بنیاد کا ذکر ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے جسم کی ہر چیز مٹی میں مل جاتی ہے ’’الاعجب الذنب منہ خلق و فیہ یرکب‘‘ مگر دمچی کا مہرہ فنا نہیں ہوتا، اسی سے دوبارہ تشکیل ہوتی ہے، یہ بات جناب نبی کریمؐ نے آج سے چودہ سو سال پہلے فرمائی تھی۔ آج کا دوسرا بڑا مسئلہ جین ہے، جینیاتی سائنس۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں بچے کو روح ملنے والی ہوتی ہے تو جناب نبی کریمؐ نے اس کے مختلف مراحل میں یہ بھی ذکر فرمایا کہ جب روح کا کنکشن دینے کا وقت آتا ہے تو ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگتی ہے کہ یہ تیرے سپرد ہے، وہ فرشتہ جو زندگی بھر آدمی کے ساتھ رہتا ہے، وہ کنکشن دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے ’’ما عمرہ؟‘‘ اس کو دنیا میں بھیجنا ہے تو کتنی مدت کا کنکشن دینا ہے؟ ’’ما رزقہ؟‘‘ اس کا کوٹہ کتنا ہے؟ ’’ما کسبہ؟‘‘ اس کا پروفیشن کیا ہے؟ ’’ما اجلہ‘‘ اس کی اجل کیا ہے؟ یہ سوال جواب کر کے فائل سیل ہو جاتی ہے اور پھر اسے کنکشن ملتا ہے۔ وہی فائل جین ہے۔ یہ دو مثالیں میں نے طلباء و طالبات کو یہ بتانے کے لیے دی ہیں کہ آپ جو چیز قرآن مجید اور حدیث مبارکہ میں تلاش کرنا چاہیں گے وہ ملے گی، مگر اس کو موضوع تو بنائیں، آج کے علمی، سائنسی اور معاشرتی مسائل اور چیلنجز کو دیکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ان کا حل تلاش کریں، ان شاء اللہ تعالیٰ تمام مسائل کا حل ملے گا۔
مجھے ناسا ہیڈ کوارٹر (ہیوسٹن، امریکہ) میں متعدد بار جانے کا اتفاق ہوا ہے، گوجرانوالہ کے قاری عطاء الرحمٰن صاحب مرحوم رزق کی تلاش میں وہاں پہنچے، انہوں نے ناسا ہیڈ کوارٹر کے مین گیٹ کے قریب نماز پڑھانے کے لیے مصلیٰ بنا لیا ، اب وہاں بہت بڑی مسجد ہے۔ میں مصلیٰ میں بھی گیا ہوں اور مسجد میں بھی گیا ہوں۔ میں نے ناسا میں بعض سائنسدانوں سے کہا کہ میرے دل میں ایک بات کھٹکتی ہے، اس پر بھی غور کرو کہ قرآن مجید کہتا ہے ’’ کل انسان الزمناہ طائرہ فی عنقہ و نخرج لہ یوم القیامۃ کتابا یلقاہ منشورا‘‘ کہ ہر انسان کی گردن میں ہم نے اس کا نصیب لٹکا دیا ہے جسے قیامت کے دن ہم اس کی گردن سے نکالیں گے جو کھلی کتاب ہوگی، آدمی اس میں پڑھے گا کہ میں زندگی بھر کیا کرتا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ انسان کی گردن میں کوئی ’’سم‘‘ ہے اسے تلاش کرنا چاہیے۔ میرے پاس اس پر دلیل نہیں ہے لیکن میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ انسانی گردن میں کوئی ایسی چیز ہے اور وہ بھی دریافت ہو گی کیونکہ قرآن مجید کہہ رہا ہے ۔
عزیز طلباء و طالبات! میں آپ کو دعوت دے رہا ہوں کہ قرآن مجید اور سنت نبویؐ سے رہنمائی حاصل کریں، یہاں سے آپ کو ہر چیز ملے گی، لیکن اسٹڈی شرط ہے، دماغ سوزی اور جگر سوزی شرط ہے۔ میرے وژن کے مطابق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا آج ہمارے لیے سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ آج کے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر سیرت طیبہ سے رہنمائی حاصل کریں تاکہ آپ دنیا کو کسی بہتر مستقبل کی طرف لے جا سکیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔