آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس کی رابطہ کمیٹی نے، جو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے راہنما حافظ حسین احمد ایم این اے کی سربراہی میں کام کر رہی ہے، ۹ مارچ بدھ کو اسلام آباد میں کل جماعتی تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے لیے ملک بھر میں کال دی گئی ہے اور جس کے بارے میں تحریک ختم نبوت کے راہنما مختلف جلسوں میں اعلان کر رہے ہیں کہ اگر اس روز قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو کانفرنس کے شرکاء رابطہ کمیٹی کے ارکان کی قیادت میں قومی اسمبلی کے باہر اپنے مطالبات کی حمایت میں عوامی مظاہرہ کریں گے۔ ۹ مارچ کی اس کانفرنس کے لیے ملک بھر میں علماء کرام اور دینی کارکن تیاریاں کر رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ مختلف علاقوں سے ہزاروں افراد اس روز اسلام آباد پہنچ کر کانفرنس میں شریک ہوں گے اور پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی بحالی کے مطالبہ کی حمایت میں اپنے جذبات اور یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ مجوزہ پروگرام کے مطابق جامع مسجد دار السلام جی سکس ٹو میں صبح ۱۱ بجے کانفرنس کا آغاز ہوگا جس سے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام خطاب کریں گے اور اس موقع پر اگر پروگرام طے پا گیا تو کانفرنس کے اختتام پر اس کے شرکاء قومی اسمبلی کی طرف مارچ کر کے اس مطالبہ کے حق میں مظاہرہ کریں گے۔
اس سے قبل کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مختلف شہروں میں ختم نبوت کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام ان سے خطاب کر رہے ہیں۔ مجھے بھی گزشتہ دنوں گوجرانوالہ شہر اور وزیر آباد میں منعقد ہونے والے تین چار اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملا ہے جبکہ ۲ مارچ کو خود ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور متعدد راہنماؤں نے اس سے خطاب کیا۔
راقم الحروف نے اس موقع پر عرض کیا کہ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کو ختم کرنے کا معاملہ اس قدر سادہ اور معمولی نہیں ہے کہ اسے اس طرح خاموشی کے ساتھ نمٹا لیا جائے۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے ایک سو سال کی جدوجہد ہے اور اس مسئلہ کے قادیانی پس منظر کے حوالے سے یہ معاملہ انتہائی حساس اور نازک ہے جس کا تعلق مسلمانوں کے عقیدہ اور جذبات کے ساتھ ہے۔ پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کا اضافہ اب سے ربع صدی قبل قادیانی پس منظر میں ہی کیا گیا تھا جب پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے جمہوری طریقے سے مکمل بحث و تمحیص اور قادیانی راہنماؤں کو صفائی کا موقع دینے کے بعد مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی اس پرانی تجویز کو دستور میں شامل کر لیا تھا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک نئی امت شمار کیا جائے کیونکہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت کے بعد اسے اپنا مذہبی پیشوا تسلیم کر کے امت مسلمہ سے الگ ہو چکے ہیں اور ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں رہے۔
علامہ اقبالؒ کی یہ تجویز ایک درمیانی راستہ کی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ علماء کرام اور دینی حلقوں کا موقف تو یہ تھا کہ ایک مسلمان حکومت کو نبوت کے دعوے داروں اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ وہی معاملہ کرنا چاہیے جو یمن کے مدعی نبوت اسود عنسی کے ساتھ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، اور بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب، بنو اسد کے طلیحہ اور بنو تغلب کی خاتون مدعیہ نبوت سجاح کے ساتھ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کیا تھا۔ کسی مسلمان ریاست میں نبوت کے مدعی کے ساتھ شرعی معاملہ یہی بنتا ہے، لیکن علامہ محمد اقبالؒ کا خیال یہ تھا کہ یہ بات آج کے دور میں بوجوہ قابل عمل نہیں ہے، اس لیے قادیانیوں کو دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے زمرہ میں شمار کر کے ان کے اقلیتی حقوق تسلیم کیے جائیں۔ چنانچہ پاکستان بننے کے بعد قادیانیوں کی سرگرمیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہونے لگا تو دینی حلقوں نے اپنے مطالبہ کی بنیاد علامہ محمد اقبالؒ ہی کے موقف پر رکھی اور قادیانیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک شروع کی جو ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ کے دستوری فیصلے پر منتج ہوئی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم اقلیت کی حیثیت حاصل ہوگی۔
مگر قادیانیوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ امت مسلمہ کے دنیا بھر کے علمی و دینی مراکز اس سے قبل انہیں غیر مسلم قرار دے چکے تھے اور بعد میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی یہی فیصلہ صادر کیا۔ لیکن قادیانی گروہ پارلیمنٹ، حکومت و عدلیہ اور دنیا بھر کے اسلامی مراکز اور دینی حلقوں کے اس متفقہ فیصلے کے علی الرغم خود کو مسلمان کہلانے پر مصر رہا اور اب تک اس کا یہ اصرار جاری ہے اور قادیانیوں کے اسی اصرار بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کا اضافہ کرنا پڑا تاکہ قادیانی خود کو دنیا میں مسلمان ظاہر کر کے اسلام کے نام پر اپنے نئے مذہب کا تعارف نہ کرا سکیں۔ اسی وجہ سے پاسپورٹ کے فارم میں عقیدۂ ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کیا گیا کہ اس حلف نامہ کو پر کر نے والے کو پاسپورٹ میں مسلمان لکھا جائے گا، اور جو اس حلف نامہ کو پر نہیں کرے گا وہ غیر مسلموں میں شمار ہوگا، لیکن اب حکومت نے اچانک یہ خانہ ختم کر دیا ہے اور ملک بھر سے ہمہ گیر احتجاج کے باوجود اس کی بحالی کے لیے ابھی تک وہ تیار نہیں ہے۔
اس لیے میں اس حوالے سے حکومت کے ذمہ دار حضرات سے یہ اصولی اور سنجیدہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اس صورتحال میں آخر کیا تبدیلی آئی ہے کہ حکومت نے یکلخت اور خاموشی کے ساتھ مذہب کے خانے کو پاسپورٹ سے نکال باہر کیا ہے؟ کیا قادیانیوں نے ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر اپنے بارے میں پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم کر لیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کسی درجے میں یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ اب وہ ضرورت باقی نہیں رہی جس کی وجہ سے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ شامل کیا گیا تھا، لیکن قادیانی بدستور اپنی ضد پر قائم ہیں اور ہٹ دھرمی پر پوری طرح اڑے ہوئے ہیں۔ اور ان کی یہ ضد اور ہٹ دھرمی صرف مولویوں کے خلاف نہیں بلکہ دستور، قانون، پارلیمنٹ، عدالت عظمیٰ اور حکومت کے خلاف بھی ہے کیونکہ وہ ان سب کے فیصلوں کو مسترد کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی اس ضد اور ہٹ دھرمی کے باوجود حکومت نے مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان امتیاز رکھنے والا یہ قانون ختم کر دیا ہے اور پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کے اخراج کو ضروری سمجھا ہے تو پھر اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ حکومت نے قادیانیوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور ان کے بارے میں پارلیمنٹ، عدالت عظمیٰ اور حکومت کے سابقہ موقف اور فیصلوں کو منسوخ کر دیا ہے، البتہ اس کا زبان سے اعتراف کرنے کے بجائے عملی طور پر ان فیصلوں کو غیر مؤثر بنانے کے لیے اس طرح کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے یہ بات اس قدر آسان نہیں ہے بلکہ حکومت کو ان دو باتوں میں کسی ایک بات کا اعتراف ضرور کرنا پڑے گا کہ:
- قادیانیوں نے ضد چھوڑ دی ہے اور خود کو غیر مسلم تسلیم کر لیا ہے اس لیے اب پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کی ضرورت باقی نہیں رہی،
- اور یا پھر حکومت نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ منسوخ کر دیا ہے اور اب اس کے نزدیک قادیانی گروہ کا شمار مسلمانوں میں ہونے لگا ہے اس لیے اب پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ غیر ضروری ہوگیا ہے۔
ان دو کے سوا تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں اپنی پوزیشن بہرحال واضح کرنا ہوگی اور اگر ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو حکومت ہٹ دھرمی چھوڑ دے اور کسی تاخیر اور ٹال مٹول کے بغیر پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ بحال کرنے کا اعلان کرے۔
یہ تو وہ گزارشات ہیں جو میں نے گوجرانوالہ اور وزیر آباد کی ختم نبوت کانفرنسوں میں پیش کیں۔ ان کے علاوہ دو باتیں اور ہیں جو میں اس کالم کے ذریعے اپنے قارئین کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔
- ایک یہ کہ بعض حکومتی حلقوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ تو سعودی عرب کے پاسپورٹ میں بھی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں میری معلومات کے مطابق اس سال حج کے موقع پر پاکستانی علماء کرام کا ایک وفد، جس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد حنیف جالندھری بھی شامل تھے، سعودی عرب کے وزیر داخلہ سے ملا اور ان سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو سعودی وزیر داخلہ نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں تو کسی غیر مسلم کو سرے سے نیشنلٹی ہی نہیں دی جاتی، اس لیے سعودی عرب کا پاسپورٹ کسی غیر مسلم کو جاری نہیں ہوتا اور سعودیہ کا پاسپورٹ ہی اس کے مسلمان ہونے کا ثبوت ہوتا ہے، البتہ ملک کے اندر باہر سے کام کے لیے آنے والوں کو ہم اقامہ کا جو کارڈ جاری کرتے ہیں، اس میں مسلمانوں کے لیے الگ رنگ کا کارڈ ہوتا ہے اور غیر مسلموں کے لیے الگ رنگ کا کارڈ جاری کیا جاتا ہے، اس لیے اس سلسلے میں سعودی عرب کے پاسپورٹ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے۔
- دوسری بات یہ ہے کہ پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کی بحالی کا مطالبہ شروع ہوتے ہی حکومتی حلقوں نے اس کا اپنی طرف سے متبادل پیش کیا تھا کہ باقاعدہ اندراج کی بجائے مسلمانوں کے پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کی مہر لگا دی جائے۔ میری معلومات کے مطابق اس وقت سے یہ مہر لگائی جا رہی ہے اور شاید حکومت کی طرف سے اب بھی اسی کو متبادل حل کے طور پر سامنے لایا جائے، لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے اور آل پارٹیز ختم نبوت کانفرنس نے اس کو پہلے ہی مسترد کر دیا ہے۔ اس لیے کہ اصل مسئلہ پاسپورٹ کے کمپیوٹرائزڈ اندراجات کا ہے کیونکہ جب تک اصل اندراجات میں مذہب کا خانہ نہ ہو، وہ دھوکہ دہی ختم نہیں ہو سکتی جس کے سدباب کے لیے پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ شامل کیا گیا تھا۔ ہمارا اصل مطالبہ قادیانیوں کی دھوکہ دہی کو ختم کرنے کا ہے اور وہ باقاعدہ کمپیوٹرائزڈ اندراجات میں مذہب کا خانہ شامل کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اس لیے حکومت سے گزارش ہے کہ وہ لوگوں کو اس طرح کی باتوں میں الجھانے اور بہلانے کی بجائے عوام کا مطالبہ تسلیم کرے اور پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی باضابطہ بحالی کا اعلان کرے۔