وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کی کارروائی کی رپورٹ اس وقت میرے سامنے ہے جو وفاق کے سہ ماہی مجلہ میں شائع ہوئی ہے۔ مدارس دینیہ کے حوالہ سے قومی اور عالمی سطح پر اس وقت جو سرگرمیاں سامنے آرہی ہیں، ان کے پیش نظر وفاق المدارس کی مجلس شوریٰ کے ان فیصلوں کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جن کا ذکر اس رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
وفاق المدارس کے فیصلوں میں پالیسی کے حوالہ سے سب سے اہم فیصلہ یہ ہے کہ دینی مدارس کسی قسم کی سرکاری امداد قبول نہیں کریں گے، حتیٰ کہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں جہاں متحدہ مجلس عمل اقتدار میں ہے، وہاں بھی سرکاری امداد وصول نہیں کی جائے گی۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت امریکہ نے پاکستان کو چھ سو ملین ڈالر کی خطیر رقم اس مقصد کے لیے مہیا کی ہے کہ ان مدارس کی اصلاح کی جائے اور ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کرنے کے عنوان سے انہیں سیکولر بنایا جائے، مگر وفاق المدارس نے یہ رقم قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ادھر اسلام آباد میں جرمنی کے سفیر گزشتہ روز پشاور میں دار العلوم سرحد کے دورے پر گئے ہیں جو جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے اہم مراکز میں سے ہے اور وہاں دارالعلوم کے منتظمین سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر جرمن سفیر نے تعجب کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس امریکہ کی مالی امداد قبول کیوں نہیں کر رہے ہیں؟
اس کے ساتھ وفاق المدارس کی مجلس شوریٰ کا دوسرا اہم فیصلہ نصاب تعلیم پر نظرثانی کا ہے جس میں میٹرک تک مروجہ عصری تعلیم کو نصاب کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے اور دوسرے شعبوں میں بھی بعض مضامین اور کتابوں میں رد و بدل کیا گیا ہے۔
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اس حوالہ سے مختلف دینی مدارس کے اساتذہ کی دو روزہ مشاورت کا اہتمام کیا گیا ہے جو ۴ و ۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ہو رہی ہے، اور اس میں نصاب اور طلبہ کی فکری و اخلاقی تربیت کے تقاضوں سے متعلق امور پر غور کیا جائے گا۔ ہماری ایک عرصہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کے بارے میں دینی مدارس کے اساتذہ کی رائے بھی سامنے آنی چاہیے، بلکہ ہم نے مختلف مواقع پر وفاق المدارس کے ذمہ دار حضرات سے گزارش کی ہے کہ دینی مدارس کے تجربہ کار اور سینئر اساتذہ کی ایک ورکشاپ ہر سال وفاق کے زیر اہتمام ہونی چاہیے جس میں متعلقہ مسائل پر اساتذہ کی رائے معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری امور پر اساتذہ کی بریفنگ کا بھی اہتمام کیا جائے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت اور ان کے ساتھ مشاورت کا کوئی نظام نہیں ہے جبکہ تدریس ایک مستقل فن ہے جس کے لیے دنیا کے تمام تعلیمی نظاموں میں الگ کورسز ہوتے ہیں اور ان کورسز کی تکمیل کے بعد ہی کسی کو تدریس کے منصب پر فائز کیا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں اس کا کوئی نظم نہیں ہے اور ہماری رائے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو تدریس و تربیت کے فن کے لیے کم از کم ایک سالہ کورس کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ تاہم اس کے باقاعدہ اہتمام تک اساتذہ کے مشاورتی اجتماعات کا وقتاً فوقتاً انعقاد کرنے سے بھی مسائل اور ضروریات کی طرف توجہ دلانے کی حد تک تھوڑا بہت مقصد پورا ہو سکتا ہے۔ ہم نے اس مشاورتی پروگرام میں مختلف دینی مدارس کے اساتذہ کو نصاب اور طلبہ کی اخلاقی و فکری تربیت کے حوالہ سے بحث و مباحثہ کی دعوت دی ہے اور اس کے نتائج ان شاء اللہ تعالیٰ اس کالم میں بھی پیش کیے جائیں گے۔
البتہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایک فیصلہ کے بارے میں کچھ گزارشات سرِدست پیش کی جا رہی ہیں جو ’’دورۂ مقارنۃ الادیان و الفرق‘‘ کے بارے میں ہے۔ وفاق نے اس سے قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ دورۂ حدیث کے طلبہ کا مختلف ادیان اور فرقوں سے واقف ہونا ضروری ہے، اس لیے وفاق اس مقصد کے لیے خصوصی دورہ کا اہتمام کرے گا اور اس میں شریک ہونے والوں کو ہی وفاق المدارس کی آخری ڈگری ’’شہادۃ العالمیہ‘‘ جاری کی جائے گی، مگر مجلس شوریٰ نے یہ کہہ کر یہ فیصلہ واپس لے لیا ہے کہ وفاق کے لیے اس کا انتظام مشکل ہے۔ جو مدارس اپنے طور پر اس کا اہتمام کر سکیں، کر لیں۔
ادیان و مذاہب کے تعارف کے حوالہ سے دینی مدارس کے فضلاء کو باقاعدہ طور پر واقف کرانے کی تجویز پیش کرنے والوں میں راقم الحروف بھی شامل ہے اور کم و بیش گزشتہ دس پندرہ برس سے مدارس کے ارباب بست و کشاد کو اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ مدارس دینیہ کے فضلاء کو معاصر ادیان و مذاہب سے اس حد تک ضرور واقف ہونا چاہیے کہ وہ اس کے بارے میں کسی جگہ گفتگو کرتے ہوئے محض قیاس و گمان اور سنی سنائی باتوں تک محدود نہ رہیں، بلکہ ان کی گفتگو کی بنیاد مستند معلومات پر ہو۔ اور چونکہ اب دنیا سمٹ رہی ہے اور ادیان و مذاہب کے حوالہ سے مشترکہ سوسائٹیاں تشکیل پا رہی ہیں، اس لیے کسی بھی عالم دین کا اپنے معاصر ادیان و مذاہب کے بارے میں ضروری اور مستند معلومات سے بہرہ ور ہونا اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس بات کو دوسرے معنوں میں لیا جاتا ہے اور اس تجویز کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح کچھ عرصہ قبل تک طلبہ کو مختلف مذاہب کے ساتھ مناظرہ و مباحثہ کی تربیت دی جاتی تھی، مناظرانہ انداز میں دونوں طرف کے دلائل رٹا کر ان کے جوابات سکھائے جاتے تھے اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ کورسز ہوتے تھے، یہ تجویز ان دوروں کے دوبارہ اور باقاعدہ اہتمام کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، مجھے مناظرہ و مباحثہ کی ضرورت سے انکار نہیں ہے اور میں اس کی افادیت کا قائل ہوں مگر وہ صرف ایک جزو ہے، جبکہ تجویز کا اصل مقصد اور تناظر اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
تجویز کا اصل مقصد یہ ہے کہ مثلاً عیسائی مذہب ہے، ہمارے فاضل علماء کو معلوم ہونا چاہے کہ مسیحی مذہب کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ اس کے بڑے بڑے فرقے کون سے ہیں؟ ان کا مسلمانوں کے ساتھ عقائد میں کیا اختلاف ہے؟ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تہذیبی فرق کیا ہے؟ گزشتہ چودہ سو برس میں ان کے باہمی تعلقات کی کیا نوعیت تھی؟ صلیبی جنگوں کی مختصر تاریخ کیا ہے؟ مذہبی دور کی عیسائی حکومتوں کے ساتھ ہمارا کیا جھگڑا تھا؟ آج کی غیر مذہبی اور سیکولر مسیحی حکومتوں کے ساتھ کیا تنازع ہے؟ مسلم مسیحی کشمکش کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ اور عالمی مسیحی ادارے اور مشنریاں کس کس محاذ پر اور کس کس طریقہ کار سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کر رہے ہیں؟ اس کے ساتھ عقائد کے بارے میں دونوں طرف کے دلائل سے واقفیت اور مناظرہ و مباحثہ کی تیاری بھی ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ کا کام دے گی۔ اسی طرح دیگر معاصر مذاہب کے بارے میں ہمارے فضلاء کو بنیادی معلومات حاصل ہونی چاہئیں، ورنہ موجودہ بین الاقوامی ماحول میں وہ دین کی صحیح طور پر خدمت نہیں کر سکیں گے۔
اس کے علاوہ اسلام کے داخلی مذاہب مثلاً حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اور ظاہری کی تاریخ، باہمی فرق اور علمی و فکری کشمکش سے بھی فضلاء کا واقف ہونا ضروری ہے۔ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے اور وفاق المدارس کو اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں اپنے تجربہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ سال مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ہم نے دورۂ حدیث کے طلبہ کے لیے تین مضامین کا اضافہ کیا: (۱) مروجہ بین الاقوامی قوانین کا اسلامی احکام سے موازنہ، (۲) معاصر ادیان کا تعارفی مطالعہ، اور (۳) تاریخ اسلام۔ اس کے لیے ہفتہ میں دو پیریڈ رکھے گئے اور سال میں ان میں سے ہر ایک پر کم و بیش بارہ بارہ لیکچر ہوئے جو میں نے خود دیے، البتہ انداز تدریسی نہیں بلکہ بریفنگ یعنی معلومات فراہم کرنے کا تھا، جس سے طلبہ کو بہت فائدہ ہوا اور ہمیں بھی کوئی دقت نہیں ہوئی۔ جبکہ اس سال اسے زیادہ مربوط اور منظم انداز میں آگے بڑھانے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اسی طرح فضلائے درس نظامی کے لیے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک سالہ خصوصی تربیتی کورس کا اہتمام کیا گیا جس میں ان مضامین کے علاوہ حجۃ اللہ البالغۃ کے منتخب ابواب، انگریزی زبان، عربی زبان، کمپیوٹر ٹریننگ اور سیاسیات نفسیات اور معاشیات کا تعارفی مطالعہ جیسے مضامین شامل تھے۔ جن فضلاء نے اس کورس میں شمولیت کی وہ بہت خوش ہیں اور اس کی بہت افادیت محسوس کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے اس سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سال کے لیے داخلے کی درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں۔ یہ ایک محدود سا تجربہ ہے جو وسائل اور مواقع کے محدود تر ہونے کے باوجود کامیاب رہا ہے، اس لیے وفاق المدارس کی مجلس شوریٰ کا یہ کہنا کہ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے، کم از کم میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
جہاں تک مشکلات کا تعلق ہے، وہ تو ہر کام میں ہوتی ہیں اور مشکلات سے گزر کر ہی کسی کام میں آگے بڑھا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کام کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تو الگ بات ہے، لیکن اگر واقعتاً اس کی ضرورت ہے تو کسی ضروری کام سے یہ کہہ کر پیچھے ہٹ جانا کہ یہ مشکل نظر آتا ہے، کسی طرح بھی اصحاب عزم و ہمت کے شایان شان نہیں ہے۔