کشمیر کے خلاف قادیانی سازشیں

   
تحریک خدام اہل السنۃ، جھاٹلہ، تلہ گنگ
۱۵ اگست ۲۰۱۹ء

۱۵ اگست ۲۰۱۹ء کو جھاٹلہ تلہ گنگ میں تحریک خدام اہل السنۃ کی سالانہ سنی کانفرنس سے خطاب کا موقع ملا۔ اس موقع پر کی گئی گفتگو کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تحریک خدام اہل سنت جھاٹلہ کا شکر گزار ہوں کہ اس تاریخی سنی کانفرنس میں حاضری اور کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع دیا۔ اس کانفرنس کا آغاز اب سے پچیس برس قبل حاجی حافظ شیر زمان رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا تھا، جو تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور ان کے خلوص کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا صدقہ جاریہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

مجھ سے قبل تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے امیر حضرت مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر صاحب اپنے خطاب میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے قادیانی مسئلہ کی تازہ صورت حال کا تذکرہ فرما رہے تھے اور ہم سب کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی تلقین کر رہے تھے، میں انہی کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور جبر و تشدد کا جو ماحول انڈین آرمی نے پیدا کر دیا ہے اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں بلکہ انصاف پسند انسانوں کو بے چین کر دیا ہے۔ یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ کل پاکستان نے اپنا یوم آزادی منایا ہے اور آج بھارت اپنے یوم آزادی کی تقریبات میں مصروف ہے، مگر ان کے درمیان مقبوضہ کشمیر کے عوام آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور تمام برادری اور اقوام متحدہ کو اپنے خون اور جانوں کی قربانیوں کے ذریعہ یاد دلا رہے ہیں کہ سات عشرے قبل ان سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اپنے مستقبل کے بارے میں آزادانہ استصواب رائے کے ذریعہ خود فیصلہ کرنا کشمیری عوام کا حق ہے اور اس وعدہ کے ساتھ اقوام متحدہ نے آزادانہ ریفرنڈم کرانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ لیکن اس کے بعد جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کرا دینے والی اقوام متحدہ ریاست جموں و کشمیر میں یہ وعدہ اور ذمہ داری پوری کرنے سے مسلسل گریزاں ہے، جو بہرحال اسے کسی وقت تو پوری کرنی ہی ہے کیونکہ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔

مگر میں آج کی اس نشست میں اقوام متحدہ کی تازہ ترین صورت حال کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کو ازسرنو زیر بحث لا رہی ہے، جبکہ جنرل اسمبلی میں پاکستان کے بارے میں ایک اور تجویز اس کے ایجنڈے میں شامل ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے بارے میں مروجہ قوانین کو تبدیل کرایا جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون میں قادیانیوں کو مسلمانوں کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں کے زمرہ میں شمار کرنے کا جو فیصلہ پارلیمنٹ، عدالت عظمیٰ، تمام مذہبی مکاتب فکر کی مسلمہ قیادتوں اور سول سوسائٹی نے متفقہ طور پر کر رکھا ہے اسے تبدیل کیا جائے۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں قادیانیوں کے ایک وفد نے امریکہ کے صدر جناب ٹرمپ سے ملاقات کر کے ان سے شکایت کی ہے کہ پاکستان میں انہیں مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔

میں اس ضمن میں مسئلہ کے اس پہلو پر کچھ عرض کروں گا کہ مسئلہ کشمیر اور قادیانیت کے درمیان شروع سے تعلق چلا آ رہا ہے، جو آج بھی موجود ہے اور تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے قریبی دور میں ان دونوں مسئلوں پر کوئی پیش رفت ہونے والی ہے، جس کے بارے میں ہم سب کو چوکنا اور بیدار رہنا ہوگا۔

مسئلہ کشمیر کے ساتھ قادیانی تعلق اور دلچسپی اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے یہ کہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو فوت ہو گئے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کی جو پیش گوئی فرمائی ہے وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں ہے اور وہ مسیح موعود ہے۔ اپنے اس دعویٰ کو پکا کرنے کے لیے مرزا قادیانی نے کہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر سری نگر میں موجود ہے، جبکہ اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک حیات ہیں، آسمانوں پر ہیں، قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے، امت مسلمہ کی راہ نمائی فرمائیں گے، اس کے بعد فوت ہوں گے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روضہ اطہر میں مدفون ہوں گے۔

سری نگر میں حضرت عیسیٰؑ کی قبر کا دعویٰ کشمیر کے بارے میں مرزا غلام احمد قادیانی کی دلچسپی اور عزائم کا اولین اظہار ہے۔ جبکہ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ سری نگر والوں کو تو وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کی موجودگی کا علم نہیں ہو سکا تھا اور مرزا قادیانی کو معلوم ہو گیا۔ ورنہ وہ سری نگر والے جنہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال مبارک میسر آنے پر ”حضرت بل“ جیسا عظیم مرکز قائم کر لیا تھا، جو کشمیر کے خطہ کی سب سے زیادہ بارونق درگاہ ہے، وہ حضرت عیسیٰؑ جیسے عظیم المرتبت رسول کے میسر آنے پر کیا کچھ نہ کرتے۔ بہرحال یہ قادیانیت اور کشمیر کا پہلا تعلق ہے، جو اگرچہ مصنوعی ہے، مگر تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔

کشمیر کے ساتھ قادیانیوں کا دوسرا تعلق اس وقت سامنے آیا جب ۱۹۳۰ء، ۱۹۳۱ء میں ریاست جموں و کشمیر کے ہندو مہاراجہ کے ساتھ کشمیری عوام کی جدوجہد کے موقع پر تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ بنا کہ اس وقت کے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے اس بہانے کشمیر میں عمل دخل بڑھانے کے لیے سرکردہ راہ نماؤں پر مشتمل کشمیر کمیٹی اپنی سربراہی میں قائم کی اور اس میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ کو شامل کیا، جو ایک تیر سے دو شکار کرنے کے مترادف تھا۔ مرزا بشیر الدین محمود نے اس کے ذریعہ کشمیر کے معاملات میں دخیل ہونے کا پلان بنایا اور ساتھ ہی علامہ اقبالؒ جیسی مقبول قومی شخصیت کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ علامہ اقبالؒ ابتدا میں تو کشمیر کمیٹی میں شامل ہوئے، مگر جوں ہی ان پر صورت حال واضح ہو گئی تو انہوں نے نہ صرف کشمیر کمیٹی سے لاتعلق کا اعلان کر دیا، بلکہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے اور قادیانیت کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش، بلکہ یہودیت کا چربہ قرار دے کر اس پلان کو ناکام بنا دیا۔

جبکہ کشمیر کے حوالہ سے قادیانی جماعت کے سازشی کردار کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس تقسیم میں پنجاب کے لیے یہ فیصلہ ہوا کہ مشرقی پنجاب بھارت کا حصہ بنے گا اور مغربی پنجاب پاکستان میں شامل ہوگا، جبکہ درمیان کے اضلاع میں سے مسلم اکثریت کے اضلاع پاکستان میں اور غیر مسلم اکثریت کے اضلاع بھارت میں شامل کیے جائیں گے۔ چنانچہ امرتسر، لدھیانہ، انبالہ وغیرہ بھارت میں چلے گئے اور گوجرانوالہ، لاہور اور سیالکوٹ پاکستان کا حصہ بنے۔ ان کے درمیان گورداس پور ضلع کی پوزیشن یہ تھی کہ قادیان اس ضلع میں تھا اور قادیانیوں کی اچھی خاصی آبادی وہاں تھی، اس موقع پر اگر قادیانی مسلمانوں میں شمار ہوتے تو یہ ضلع مسلم اکثریت کا ضلع قرار پا کر سیالکوٹ کی طرح پاکستان میں شامل ہوتا اور اگر قادیانیوں کو غیر مسلموں میں شمار کیا جاتا تو امرتسر کی طرح گورداس پور بھی غیر مسلم اکثریت کا ضلع قرار دے کر بھارت کا حصہ بنایا جاتا۔

اس موقع پر سرحدات کا تعین کرنے والے ریڈ کلف کمیشن کے سامنے قادیانیوں نے خود اپنا کیس مسلمانوں سے الگ کر کے پیش کیا اور مسلمانوں کے ساتھ شمار ہونے سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے ضلع گورداس پور کو اس انداز میں تقسیم کر دیا گیا کہ اس کی تحصیل شکر گڑھ مسلم اکثریت کا علاقہ قرار دے کر پاکستان میں شامل کی گئی، جبکہ باقی ضلع کو غیر مسلم اکثریت کے علاقہ کے طور پر بھارت کا حصہ بنا دیا گیا، جس سے بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ ملا، ورنہ اس وقت بھارت کے پاس ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہونے کا اور کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔ چنانچہ بھارتی افواج نے گورداس پور کے راستے کشمیر میں داخل ہو کر اس کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور ابھی تک اس کا یہ ظالمانہ قبضہ برقرار ہے۔ اس طرح قادیانیوں نے منظم سازش کے تحت ریڈ کلف کمیشن میں خود کو مسلمانوں سے الگ شمار کرا کے بھارت کو کشمیر میں داخلہ اور قبضہ کا راستہ دیا۔

میرا قادیانیوں سے ہمیشہ یہ سوال رہتا ہے کہ وہ خود کو مسلمانوں میں شمار کرانے کے لیے آج جو ضد کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں اس کا شور مچا رہے ہیں، وہ اس وقت کہاں تھے جب وہ ریڈ کلف کمیشن کے سامنے اپنی آبادی کو مسلمانوں سے الگ شمار کرا رہے تھے اور اس کے لیے ان کے اس وقت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے الگ فائل داخل کرائی تھی؟ ہم نے تو ان کے بارے میں ان کے اپنے اس فیصلے کو قانون و دستور میں شامل کیا ہے، جو خود انہوں نے تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے موقع پر اپنے بارے میں کیا تھا۔ باقی تمام باتوں سے قطع نظر صرف اس ایک حوالہ سے بھی ان کے پاس اس واویلے کا کوئی جواز نہیں ہے جو وہ آج کر رہے ہیں اور جس کے لیے وہ اقوام متحدہ اور صدر ٹرمپ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔

بہرحال آنے والا دور ان دونوں حوالوں سے گرم جوشی کا دور دکھائی دے رہا ہے اور اس کے لیے عالمی سطح پر سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ جب کہ یہ دونوں ہمارے قومی مسئلے ہیں، کشمیر کا مسئلہ بھی ہمارا قومی مسئلہ ہے اور عقیدہ ختم نبوت کا مسئلہ بھی ہمارا قومی مسئلہ ہے، جس کے لیے پوری قوم کو متحد ہو کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۵ ستمبر ۲۰۱۹ء)
2016ء سے
Flag Counter