خلافت کا رِفاہی تصور اور نظم

   
خلافتِ اسلامیہ — الشریعہ اکادمی کے محاضرات
۲۰۱۷ء

ریاست اور رفاہی ریاست میں کیا فرق ہوتا ہے؟ کسی بھی ملک کی حکومت اور ریاست کے چار پانچ بنیادی کام سمجھے جاتے ہیں: سرحدوں کی حفاظت، ملک میں امن قائم کرنا، لوگوں کو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے روکنا، انصاف فراہم کرنا ، اور لوگوں کو زندگی کی سہولتیں زیادہ سے زیادہ فراہم کرنا۔

یعنی کسی ریاست کی بنیادی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے تاکہ کوئی باہر سے حملہ نہ کرے، ملک کے اندر امن ہو بد اَمنی نہ ہو، ظلم و زیادتی اور فساد نہ ہو، لوگ ایک دوسرے پر ظلم زیادتی کریں تو مظلوم کو انصاف فراہم کیا جائے، ظالم کو اس کے جرم کی سزا ملے جو کہ عدلیہ کا کام ہوتا ہے، ملک کی حدود میں رہنے والوں کو زندگی کی سہولیات آسانی سے فراہم ہوتی رہیں اور ان سہولیات کو حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ ریاست کا عام تصور ہے۔

ویلفیئر اسٹیٹ اور رفاہی ریاست کا دائرہ اس سے آگے ہے۔ ایک رفاہی ریاست اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت دیتی ہے۔ ایک ہے سہولیات فراہم کرنا کہ لوگوں کو کوئی چیز حاصل کرنے میں دِقت نہ ہو، اور ایک یہ ہے کہ حکومت خود ذمہ داری اٹھائے کہ یہ سہولیات ہم فراہم کریں گے۔ حکومت اور ریاست لوگوں کی بنیادی ضروریات کی ضمانت دے اور ذمہ داری اٹھائے کہ ہم فراہم کریں گے، یہ رفاہی ریاست ہوتی ہے۔ دنیا میں آج متعدد ویلفیئر اسٹیٹس موجود ہیں۔ جب پاکستان قائم ہوا تو قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے بھی اس کے لیے ” اسلامی فلاحی ریاست“ کی اصطلاح استعمال کی تھی، اللہ کرے کہ پاکستان ایسی ریاست بن جائے۔

رفاہی ریاست کیا ہوتی ہے ؟ اس بارے میں اسلام کا نظام اور شریعت کا مزاج کیا ہے؟ اور رفاہی ریاست کی بنیاد کیا ہے؟ اس حوالے سے بخاری شریف کی روایت ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتدا میں معمول مبارک یہ تھا کہ جب کوئی آدمی دنیا سے رخصت ہو جاتا، اس کے جنازے کا مرحلہ ہوتا تو جنازہ پڑھانے سے پہلے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوال کیا کرتے تھے کہ اس کے ذمہ کوئی قرض تو نہیں ہے؟ جواب ملتا کہ نہیں ہے، تو جنازہ پڑھا دیتے۔ اور اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ مقروض فوت ہوا ہے تو سوال کرتے کہ اس کے ترکہ میں قرضہ ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے؟ جواب ملتا کہ موجود ہے، تو بھی جنازہ پڑھا دیتے۔ لیکن اگر یہ پتہ چلتا کہ مرنے والا مقروض فوت ہوا ہے اور اتنا ترکہ نہیں چھوڑا کہ اس کا قرض ادا کیا جا سکے، تو آپؐ فرماتے ’’صلوا علی صاحبکم‘‘ اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو، اور خود نبی اکرمؐ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے۔

ایک موقع پر ایک جنازے کے لیے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ مقروض ہے اور اس کے ترکہ میں ادائیگی کا بندوبست موجود نہیں ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹ گئے اور ساتھیوں سے کہا کہ اس کا جنازہ تم لوگ پڑھ لو۔ ایک صحابی رسول حضرت ابو قتادہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارے اس بھائی کو اس سعادت سے محروم نہ کریں، اس کا قرضہ میرے ذمہ ہے میں ادا کر دوں گا۔ اس پر نبی کریمؐ نے جنازہ پڑھا دیا اور اس کے بعد اعلان فرمایا کہ ’’من ترک مالا فلورثتہ ومن ترک کلّا او ضیاعا فالیّ وعلیّ‘‘ جو شخص مال و دولت چھوڑ کر فوت ہوا، اس کا مال اس کے وارثوں کو ملے گا، اور جو شخص قرض کا بوجھ یا بے سہارا افراد چھوڑ کر مرا، وہ میرے پاس آئیں گے اور ان کی ذمہ داری مجھ پر ہو گی۔ یعنی معاشرے کے ضرورتمند بے سہارا لوگوں کی ضروریاتِ زندگی کی کفالت اور ذمہ داری ریاست پر ہے۔

یہ آغاز ہے اس بات کا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نادار، بے سہارا اور بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی ذمہ داری اپنے سر لینے کا اعلان کیا۔ رفاہی ریاست کا نقطۂ آغاز جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے ’’فالیّ وعلیّ‘‘ وہ میرے پاس آئیں گے اور مجھ پر ان کی ذمہ داری ہو گی۔

اس سے پہلے حکمرانوں، بادشاہوں اور سرداروں میں یہ ہوتا تھا کہ اپنی رعیت کہ لوگوں میں جو معذور ہوتے ان کی خدمت کرتے اور ان پر خرچ بھی کرتے تھے لیکن وہ ’’فالیّ‘‘ کے درجے میں ہوتی تھی۔ ’’وعلیّ‘‘ مجھ پر اس کی ذمہ داری ہے، میری معلومات کے مطابق پوری تاریخ انسانی میں یہ پہلا اعلان تھا کہ جو بوجھ تلے دبا ہوا آدمی ہے، جو بے سہارا فرد ہے اور جو لاوارث خاندان یا بچے اور عورتیں ہیں وہ میرے ذمے ہیں۔ یہ علیّ کا لفظ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بولا گیا کہ کسی ریاست کے حکمران نے یہ ذمہ داری اٹھائی ہو کہ سوسائٹی اور معاشرے کے نادار افراد میرے ذمے ہیں۔ اس لیے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ایک رفاہی ریاست یا ویلفیئر اسٹیٹ کا نقطۂ آغاز کہا کرتا ہوں کہ یہاں سے ایک رفاہی ریاست کا آغاز ہوا۔

پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زندگی بھر یہ معمول رہا۔ آپ نے بیت المال کا نظم قائم کیا، جس کی آمدنی کے ذرائع معروف تھے زکوٰۃ، عشر، خراج، جزیہ اور غنیمت وغیرہ۔ غنیمت میں سے بیت المال کو خمس ملتا تھا۔

بیت المال کے مصارف کیا تھے؟ جہاں اجتماعی ضروریات تھیں جہاد وغیرہ، وہاں یہ بھی تھا کہ معاشرے میں کوئی آدمی ضرورت مند ہے، کسی نے قرضہ دینا ہے اور ادائیگی کا بندوبست نہیں ہے، یا کوئی تاوان تلے دب گیا ہے اور وہ ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں ہے، تو وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا، آپ بیت المال سے اس کا قرضہ ادا کرتے، اس کی ضرورت پوری فرماتے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان مبارک فرمایا کہ جو بوجھ تلے دبا ہوا آدمی ہے، جو بے سہارا فرد ہے اور جو لاوارث خاندان یا بچے اور عورتیں ہیں، وہ میرے ذمے ہیں۔ اور پھر آپؐ نے اس کا جو ماحول بنایا، اس کے حوالے سے دو تین واقعات عرض کرنا چاہوں گا۔ بیت المال کا تصور یہ قائم ہوا کہ جس کسی کو کسی حوالے سے کسی چیز کی ضرورت پڑی اور وہ چیز نہیں مل رہی تو وہ سیدھا حضورؐ کے پاس آتا تھا اور آپ کے ہاں سے اسے وہ چیز مل جاتی تھی۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک صاحب سفر کر رہے تھے، راستے میں ان کا سواری کا اونٹ مر گیا، سفر لمبا تھا۔ ان صاحب کو پتا تھا کہ اب سواری کہاں سے ملے گی۔ وہ سیدھا مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں سفر پر جا رہا ہوں، سفر لمبا ہے اور سواری مر گئی ہے، لہٰذا مجھے سواری عنایت فرمائیں۔ حضورؐ اس وقت خوش طبعی کے موڈ میں تھے۔ ہم یہ روایت عموماً دل لگی کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے لیکن ریاست کی ذمہ داری کے حوالے سے بیان نہیں کی جاتی۔ آنحضرتؐ خوش مزاج بزرگ تھے۔ آپؐ نے اس سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ آدمی سواری مانگ رہا ہے اور حضور فرما رہے ہیں کہ تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ پریشان ہو کر بیٹھ گیا کہ اونٹنی کے بچے کو میں کیا کروں گا، میں نے تو سفر کرنا ہے۔ اونٹنی کا بچہ مجھے اٹھائے گا یا میں اسے اٹھاؤں گا۔ وہ پریشان بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر عرض کیا تو حضورؐ نے فرمایا ٹھہرو تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ بیچارہ پھر پریشانی کے عالم میں بیٹھ گیا۔ وہ جس کیفیت میں بیٹھا ہو گا آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں؟ تھوڑی دیر گزری کہ حضورؐ نے بیت المال سے یا کہیں سے اونٹ منگوایا اور اس کی مہار اس آدمی کو پکڑائی اور فرمایا یہ بھی کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہے۔

جو بات میں نے عرض کی وہ یہ ہے کہ ایک آدمی کی سواری ختم ہو گئی اور سفر پر جانا ہے، تو اسے یہ پتا ہے کہ سواری کہاں سے ملے گی، اور پھر اسے آپؐ کے ہاں سے سواری مل گئی۔ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عملی کا ماحول بنایا۔

بخاری شریف میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعریؓ ذکر کرتے ہیں ہم نے کسی سفر میں جانا تھا غالباً‌ جہاد کا سفر تھا۔ تو ہم چند اشعریوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ جناب نبی کریمؐ سے سواری مانگتے ہیں۔ حضرت ابو موسٰیؓ فرماتے ہیں میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے سفر پر جانا ہے ہمارے پاس سواریاں نہیں ہیں تو ہمیں دو چار اونٹ دے دیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے اس وقت اندازہ نہیں ہو سکا کہ حضورؐ کسی وجہ سے غصے میں بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے اس وقت سوال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن میں نے مجلس کی کیفیت نہیں دیکھی اور سوال کر دیا۔ جناب نبی کریمؐ چونکہ کسی اور وجہ سے ناراضگی کی کیفیت میں تھے اس لیے فرمایا جاؤ کوئی اونٹ نہیں ہے۔ حضرت ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ پھر مجھ سے ایک اور غلطی ہوئی کہ میں نے دوبارہ سوال کر دیا۔ اس پر حضور نبی کریمؐ نے قسم اٹھا لی ’’واللہ لا احملکم‘‘ خدا کی قسم! میں تمہیں کوئی سواری نہیں دوں گا۔ حضرت ابو موسیٰ ؓکہتے ہیں میں بہت پریشان ہوا کہ یہ کیا ہوا، میں نے موقع محل نہیں دیکھا، یہ مجھ سے غلطی ہوئی اور حضورؐ نے غصے میں قسم اٹھا لی۔

حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں میں واپس چلا گیا، اپنے ساتھیوں کو جا کر بتایا کہ سواری نہیں ملی اور حضور نبی کریمؐ نے قسم بھی اٹھا لی ہے کہ تمہیں کوئی سواری نہیں دوں گا۔ فرماتے ہیں کہ میں ابھی اپنے ساتھیوں سے یہ بات کر ہی رہا تھا کہ پیچھے سے کوئی آدمی آیا اور اس نے کہا ابو موسٰی! رسول اللہ تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں نے ساتھیوں سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ تمہیں پتہ چلے کہ میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں۔ جا کر حضورؐ سے پوچھ لو کہ کیا بات ہوئی تھی۔ جب ہم لوگ حضور نبی کریمؐ کی خدمت میں پہنچے تو وہاں اونٹوں کی دو جوڑیاں کھڑی تھیں، چار اونٹ تھے، آپؐ نے مجھے فرمایا کہ یہ لے جاؤ۔

حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں کہ تیسری غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ اونٹ مل رہے تھے تو میں نے ان کی رسیاں پکڑیں اور گھر کو چل پڑا، راستے میں جا کر میرے ساتھیوں نے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ جناب نبی کریمؐ نے تو قسم اٹھائی تھی کہ میں تمہیں کوئی سواری نہیں دوں گا اور آپؐ نے یہ چار سواریاں دے دی ہیں۔ تم نے حضورؐ سے قسم کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں کہ قسم کا کیا ہوا؟ ویسے ہی سواریاں لے کر آ گئے ہو۔ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ خدشہ ہوا کہ اس کیفیت میں اگر ہم اونٹ لے کر جا رہے ہیں تو ان میں ہمارے لیے کوئی خیر کی بات نہیں ہو گی۔ اس لیے ہم واپس حضور نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے اور آپ نے قسم اٹھائی تھی کہ میں تمہیں سواری نہیں دوں گا، لیکن پھر آپ نے ہمیں بلا کر سواریاں دے دیں، تو قسم کا کیا بنا؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب تم آئے تھے اس وقت میرے پاس سواری نہیں تھی، میں نے یہ اونٹ قیس بن سعد بن عبادہؓ سے تمہیں دینے کے لیے ادھار منگوائے ہیں۔ اور میں نے جو قسم اٹھائی تھی، مجھے خیال آیا کہ یہ قسم خیر کے کام میں رکاوٹ ہے، اور میرا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی قسم اٹھا لوں کہ جس کو پورا کرنے میں خیر کا کوئی کام رکتا ہو تو میں قسم توڑ دیتا ہوں، قسم کو کسی خیر کے کام میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ میں نے قسم توڑ دی ہے، میں اس کا کفارہ دے دوں گا اور تمہیں یہ اونٹ دے رہا ہوں۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک شخص نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، میں روزے میں بیوی کے پاس چلا گیا ہوں، تو اس کا کیا کفارہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا ،مسلسل ساٹھ روزے رکھ لو۔ اس نے کہا، میں نہیں رکھ سکتا۔ تو آپ نے فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔ اس نے کہا، میرے پاس اس کی گنجائش نہیں ہے۔ تو جناب نبی کریمؐ نے فرمایا، بیٹھو تمہارے لیے کچھ بندوبست کرتے ہیں۔ روایت میں آتا ہے کہ اتنے میں دو ٹوکرے کھجوروں کے آئے تو نبی کریمؐ نے اس کو دے دیے کہ جا کر اپنا کفارہ ادا کرو۔ غلطی اس کی ہے، کفارہ اس پر ہے، لیکن بیت المال سے ادا کیا جا رہا ہے۔

اس روایت کا اگلا حصہ بڑا دلچسپ ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! ہم سے زیادہ فقیر مدینے میں کون ہے جس کو دیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ خود ہی کھا لو۔ بہرحال اس پر تاوان پڑ گیا اس کی غلطی کی وجہ سے اور اس کے پاس تاوان ادا کرنے کا بندوبست نہیں تھا تو وہ تاوان بیت المال سے ادا ہوا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت المال کا ایک مصرف یہ بھی تھا کہ جو کوئی مشکل میں پھنس جاتا تھا تو اس کا تاوان حضور نبی کریمؐ بیت المال سے ادا کرتے تھے۔

یہ واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے کہ یہودیوں کے علاقے میں ایک انصاری صحابیؓ کی لاش ملی جسے شہید کر دیا گیا تھا لیکن قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ نبی اکرمؐ نے مقتول کے وارثوں سے پوچھا کہ تم کسے ملزم ٹھہراتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں تو کچھ معلوم نہیں ہے، البتہ چونکہ یہودیوں کے علاقہ میں واقعہ ہوا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے ہی کیا ہو گا۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ان سے قسامہ (پچاس افراد کا حلف) لیا جائے گا، یعنی علاقہ کے پچاس منتخب افراد قسم اٹھائیں گے کہ نہ انہوں نے قتل کیا ہے اور نہ ہی انہیں اس کے بارے میں کچھ علم ہے، اور اس حلف کے بعد وہ اس کیس سے بری ہو جائیں گے۔ مقتول کے وارثوں نے کہا کہ وہ تو یہودی ہیں آسانی سے قسم اٹھا لیں گے، آپؐ نے فرمایا کہ اس کے سوا تو اور کچھ نہیں ہو سکتا، البتہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قتل کو رائیگاں نہیں جانے دیا بلکہ مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی۔

بخاری شریف میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ معروف صحابی حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ عید الاضحیٰ سے دو تین دن پہلے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیت المال سے بکریوں کا ایک ریوڑ دیا۔ چالیس پچاس بکریاں ہوں گی اور فرمایا کہ ابھی دو تین دن بعد قربانی والی عید آ رہی ہے، یہ بکریاں لوگوں میں تقسیم کر دو تاکہ ان کی قربانی کر لیں۔ حضرت عقبؓہ کہتے ہیں کہ میں نے وہ بکریاں لوگوں میں تقسیم کر دیں تو ایک بکری کا بچہ بچ گیا۔ میں نے حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے بکریاں تقسیم کر دی ہیں اور میرے حصے میں یہ بکری کا بچہ بچا ہے، جس کی عمر پوری نہیں ہے تو کیا میں اس کی قربانی کر لوں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ ہاں تم کر لو۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قربانی تو لوگوں پر واجب تھی مگر بکریاں بیت المال دے رہا ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’فالیَّ و علیَّ‘‘ کا یہ ماحول بنایا کہ جس کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہو رہی تو وہ بیت المال پوری کرے گا۔ حضورؐ نے ریاست کے شہریوں کی ذمہ داری اٹھائی اور ذمہ داری پوری کرنے کا ماحول بھی بنایا۔ یہی ماحول آگے چل کر بیت المال کا نظام بنا، اور وہی بیت المال کا ماحول آگے چل کر رفاہی ریاست کی صورت میں سامنے آیا۔ اس پر آپ کو بیسیوں مثالیں ملیں گی۔ میں نے چند ایک واقعات اس لیے عرض کیے ہیں تاکہ بیت المال کا مصرف سمجھ میں آئے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بیت المال قائم کیا تھا اس کے مصارف کیا تھے؟ کن کن لوگوں کو کس کس حوالے سے فائدہ پہنچتا تھا۔ سوسائٹی کے نادار و بے سہارا اور بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ بیت المال کا مصرف تھا۔ جناب نبی کریمؐ بیت المال سے اپنی صوابدید کے مطابق لوگوں کو وظیفے بھی دیتے تھے، ضرورت مندوں کو سواریاں بھی دیتے تھے، غلہ اور کھجوریں بھی دیتے تھے، اور ان کے قرضے اور دیتیں بھی ادا کرتے تھے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ویلفیئر اسٹیٹ اور بیت المال کا ماحول پیدا کر دیا تھا اس کو عملی شکل حضرات خلفائے راشدینؓ نے دی ہے۔ حضور نبی کریمؐ کے زمانے میں تو یہ نظام چلتا رہا۔ لیکن جب حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت سنبھالی تو معاشی حوالے سے انہیں سب سے پہلے دو مسئلے پیش آئے۔ یوں سمجھ لیں کہ خلافت راشدہ کی شوریٰ کے ایجنڈے میں دو بنیادی باتیں تھیں جن پر اس زمانے میں فیصلے ہوئے۔

پہلی بات یہ تھی کہ حضرت صدیق اکبرؓ کا اپنا کپڑے کا کاروبار تھا، کھڈیاں تھیں، آپ کپڑا بنتے تھے اور بازار میں لے جا کر بیچتے تھے۔ جب آپ نے خلافت کا منصب سنبھالا تو اگلے دن اپنی گٹھڑی اٹھائی اور بازار میں بیچنے چل دیے۔ حضرت عمرؓ راستے میں ملے تو پوچھا، حضرت! کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت صدیق اکبرؓ نے کہا اپنے کام پر جا رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ کام پر جائیں گے تو پیچھے ریاست کے معاملات کون نمٹائے گا؟ کسی وقت بھی کوئی مسئلہ پیش آ سکتا ہے، کوئی وفد آ سکتا ہے، کوئی تنازعہ آ سکتا ہے جس کا فیصلہ کرنا ہو۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ اگر میں یہاں بیٹھوں گا تو بچوں کی روٹی میرے ذمہ ہے، میں وہ کہاں سے پوری کروں گا۔ حضرت عمرؓ نے کہا آپ تشریف رکھیں، میں مشورہ کرتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اصحابِ شوریٰ کو بلایا کہ اگر خلیفۂ وقت اپنے کام پر جائیں گے تو پیچھے ریاست کے معاملات کون نمٹائے گا؟ حکمرانی تو ہمہ وقتی کام ہوتا ہے، جزوقتی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ حاکم بارہ گھنٹے ڈیوٹی نہیں دیتا بلکہ اسے چوبیس گھنٹے اسٹینڈ بائی رہنا پڑتا ہے۔

چنانچہ اس پر مشورہ ہوا کہ سربراہِ ریاست جس نے سارے معاملات نمٹانے ہیں اور اپنا کام کاج نہیں کر سکتا، وہ اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا کرے گا؟ اس پر دو اصول طے ہوئے:

(۱) شورٰی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی تھے، انہوں نے یہ رائے پیش کی جس پر فیصلہ ہوا کہ جب یہ ریاست کا کام کریں گے، اپنا کام نہیں کر سکیں گے، تو ان کے اور ان کے بچوں کے اخراجات ریاست کے ذمے ہوں گے۔ یہاں سے فقہاء نے یہ اصول اخذ کیا کہ کوئی بھی آدمی جو کسی اجتماعی کام کے لیے وقف ہو جائے اور اپنا کام کاج نہ کر سکے تو اس کے تمام اخراجات اس متعلقہ ادارے کے ذمے ہیں۔ اس کے اخراجات اجتماعی سوسائٹی ادا کرے گی جن کا وہ کام کر رہا ہے۔

(۲) دوسرا یہ طے ہوا کہ حاکمِ وقت کے لیے معیشت کا معیار کیا ہو گا۔ کیونکہ لوگوں کے معیارات تو مختلف ہوتے ہیں۔ اس پر بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رائے دی کہ ایک متوسط طبقے کا شہری جتنے خرچے سے اپنے گھر کے اخراجات باعزت طریقے سے چلا لیتا ہے، خلیفۃ المسلمین کا بھی اتنا ہی حق ہے۔ ’’لا وکس فیھا ولا شطط‘‘ اوپر کے طبقے کا یا نچلے طبقے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جسے ہم ’’مین آف دی سٹریٹ‘‘ کہتے ہیں۔ ایک عام شہری کا معیارِ زندگی سامنے رکھ کر وظیفہ طے کیا جائے گا۔ حضرت علیؓ کی رائے کے مطابق حضرت صدیق اکبرؓ کا وظیفہ اس اصول پر طے ہوا۔ چنانچہ آپ زندگی بھر وہ وظیفہ لیتے رہے۔ خلافتِ راشدہ کی مجلس شوری کا یہ پہلا فیصلہ تھا۔

اسی دوران دوسرا مرحلہ یہ پیش آ گیا کہ بحرین سے سالانہ آمدنی آ گئی۔ اس زمانے میں بحرین بہت امیر ریاست تھی۔ آج بھی بحرین امیر ترین ریاست ہے۔ اس وقت دنیا میں مہنگی ترین کرنسی کویت کے بعد بحرین کی ہے۔ پھر پونڈ اور یورو کا نمبر آتا ہے، ڈالر شاید پانچویں نمبر پر ہے۔ آج بھی بحرین کی کرنسی قوت کے اعتبار سے دنیا کی دوسری بڑی کرنسی ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے عہدِ خلافت میں بحرین سے جو سالانہ آمدنی وصول ہوئی زکوٰۃ، عشر اور جزیہ وغیرہ ریوینیو جب بیت المال میں آیا تو اسے لوگوں میں تقسیم کرنا تھا کہ بیت المال اپنے پاس ذخیرہ نہیں رکھے گا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اتھارٹی تھے۔ پیغمبر کو کسی اور سے دلیل لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس نے جو کہہ دیا وہی قانون ہوتا ہے۔ جیسے دنیا میں بادشاہ اتھارٹی ہوتا ہے اسی طرح دین میں پیغمبر ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑی اتھارٹی حضرت صدیق اکبرؓ پھر حضرت عمرؓ تھے، لیکن ان کو اپنے فیصلے میں دلیل دینی پڑتی تھی کہ قرآن یہ کہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہیں، اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ پیغمبر کے سوا کوئی اور اتھارٹی ایسی نہیں ہے جو دلیل کے بغیر فیصلہ کر سکے۔ ہم جن ائمہ کے مقلد ہیں ان کو بھی دلیل دینی پڑتی ہے اور دلیل کی بنیاد پر ان کی بات مانی جاتی ہے۔

جب بحرین اور دوسری جگہوں سے مال آیا تو اس پر مشاورت ہوئی کہ عہد ِ نبوی میں اموال آتے تھے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے چاہتے تقسیم فرماتے تھے، کسی کو اعتراض کا حق نہیں تھا۔ جناب نبی کریمؐ تو اپنی صوابدید پر تقسیم فرما دیتے تھے کسی کو تھوڑا دے دیا، کسی کو انکار کر دیا، کسی کو زیادہ دے دیا، وہ تو پیغمبر تھے، لیکن ہمیں کوئی ضابطہ اور اصول طے کرنا چاہیے۔ آپؐ کے بعد تو کوئی شخصی اتھارٹی نہیں تھی، اب دلیل کوئی قانون ہو گا۔ معاشرے اور سوسائٹی میں بیت المال اور سرکاری اموال سے وظائف کی تقسیم کا کوئی طے شدہ اصول ہو گا تو تقسیم ہو گی ورنہ جھگڑے ہوں گے۔ چنانچہ اس مشورے میں ہمارے سب سے بڑے دو بزرگوں حضرات شیخینؓ میں اختلاف رائے ہو گیا۔

حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ بیت المال سے شہریوں کو وظیفے دینے کا اصول یہ ہونا چاہیے کہ اس کی دینی اور معاشرتی حیثیت کو دیکھا جائے گا اور فضیلت کی بنیاد پر تقسیم ہو۔ یعنی گریڈ سسٹم ہو۔ انہوں نے چھ سات گریڈ بتائے کہ سب سے زیادہ امہات المومنین کو دیں، پھر مہاجرین السابقون کو، پھر انصار کو، پھر بدریوں کو، پھر اصحابِ شجرہ کو، پھر ان کو جو فتح مکہ پر مسلمان ہوئے۔ یعنی دینداری میں درجات کے لحاظ سے گریڈ سسٹم بنا دیا جائے اور اس حساب سے وظائف تقسیم کیے جائیں۔

حضرت صدیق اکبرؓ نے اس رائے کو ماننے سے انکار فرما دیا، ان کی رائے سب کو برابر برابر دینے کی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کا بڑا مشہور جملہ ہے جو کہ امام ابو یوسفؒ نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں ذکر کیا ہے، فرمایا ’’ھذہ معاش والاسوۃ فیہ خیر من الاثرۃ‘‘۔ یہ معیشت کا باب ہے اس میں برابری ترجیح سے بہتر ہے۔ دین کے اعتبار سے فضیلت آخرت سے تعلق رکھتی ہے، یہ حقوق اور دنیاوی معیشت کی بات ہے اس میں ترجیح کی بجائے برابری بہتر ہے، اس لیے میں برابر تقسیم کروں گا۔

چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ نے برابر کی بنیاد پر تقسیم کی۔ معاشی مساوات کہ سرکاری وسائل میں سب کا حق برابر ہو، چنانچہ آپ اپنے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں اسی اصول پر سب مسلمانوں کو برابر حصہ دیتے رہے۔ جتنا امہات المومنین کو دیتے تھے وہی عام مسلمانوں کو دیتے تھے۔ جتنا بدریوں کو دیتے تھے وہی مؤلفۃ القلوب کو دیتے تھے۔

جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو ان کی رائے چونکہ مختلف تھی تو انہوں نے اپنی رائے پر عمل کیا، کیونکہ اصول ہے کہ مجتہد اپنی رائے پر عمل کرے گا۔ حضرت عمرؓ نے سارا نظام تبدیل کر دیا اور درجہ بندی کر کے گریڈ سسٹم بنا لیا ۔سات یا آٹھ گریڈ مقرر کیے ۔ سب سے زیادہ امہات المومنین کو دیتے بارہ ہزار درہم سالانہ، پھر مہاجرین کو دس ہزار سالانہ، پھر آٹھ ہزار، پھر چھ ہزار، پھر چار ہزار۔ حضرت عمرؓ کو دس سال خلافت کا موقع ملا، اس میں آپ اسی اصول کے مطابق سالانہ وظائف تقسیم فرماتے رہے، باقاعدہ رجسٹر تھے اور فہرستیں بنی ہوئی تھیں۔

اس میں لطیفے کی بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بیٹے حضرت حسینؓ اس تقسیم میں چار ہزار والے گریڈ میں آتے تھے، لیکن حضرت عمرؓ احتراماً حضرت حسینؓ کو پانچ سو درہم زیادہ دیتے تھے۔ باقیوں کو چار ہزار اور ان کو ساڑھے چار ہزار دیتے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اشکال ہوا، ایک دن عرض کیا ابا جان! میں اور حسینؓ ایک گریڈ کے ہیں، ان کو آپ پانچ سو درہم زیادہ دیتے ہیں حالانکہ میں آپ کا بیٹا ہوں۔ حضرت عمرؓ یہ بات سن کر غصے میں آ گئے اور بیٹے سے ناراض ہوئے کہ تمہیں حسینؓ کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ کیسے ہوا؟ اور یہ جملہ فرمایا کہ حسینؓ کے نانا کو جانتے ہو؟ میں خلیفہ ہوں تو حسینؓ کے نانا کی وجہ سے ہوں، اور تم امیر المومنین کے بیٹے ہو تو حسینؓ کے نانا کی وجہ سے ہو، انہی کی برکت سے تو سب کچھ ملتا ہے، خبردار! آئندہ یہ بات نہیں کرنی۔

بہرحال حضرت عمرؓ نے گریڈ قائم کیے اور اس کے مطابق اموال تقسیمِ فرماتے رہے۔ امام ابو یوسفؒ نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں یہ تفصیل بیان کی ہے۔ ہمارے معیشت کے باب میں دو کلاسیکل بنیادی کتابیں امام ابو عبیدؒ کی ’’کتاب الاموال‘‘ اور امام ابو یوسفؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘ ہیں، جن میں ہمارا پورا معاشی نظام موجود ہے جو کہ عہدِ بنو امیہ میں نافذ رہا ہے۔ یہ دونوں تیسری صدی کے بزرگ ہیں۔ یہ دونوں بنیادی کتابیں ہیں جو کہ بین الاقوامی سطح پر بھی پڑھائی جا رہی ہیں اور ہم بھی پڑھ پڑھا رہے ہیں۔

امام ابو یوسفؒ نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے دس سال گریڈ سسٹم پر تقسیم کی تو ایک دن فرمانے لگے کہ تجربہ بتاتا ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی رائے ٹھیک تھی۔ گریڈ سسٹم سے سوسائٹی تقسیم ہوتی ہے اور طبقے بن جاتے ہیں۔ میں اس پر مثال دیا کرتا ہوں کہ اس بات کا مشاہدہ کرنا ہو تو اسلام آباد میں جا کر دیکھ لیں، رہائش کا انداز الگ الگ ہے، گفتگو کا انداز الگ الگ ہے، گریڈ سسٹم ہو تو مصافحہ بھی انگلیاں گن کر کرنا پڑتا ہے کہ کتنی انگلیوں سے کرنا ہے، کس سے بات کرنی ہے اور کس سے نہیں کرنی۔

میں ایک ذاتی واقعہ عرض کرتا ہوں کہ گریڈ سسٹم سے سوسائٹی کیسے تقسیم ہوتی ہے۔ میرے ایک دوست وفاقی وزارتِ تعلیم میں سیکرٹری تھے، مجھے وزارت تعلیم میں کسی اور افسر سے کام تھا۔ تین چار دفعہ گیا مگر کام ہو نہیں رہا تھا تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اُن سے کہہ دیں تو میرا کام ہو جائے گا۔ یہ انیسویں گریڈ کے افسر تھے اور وہ سترہویں گریڈ کا تھا۔ میں نے کہا فون کر دیں تو کہنے لگے کر دوں گا، لیکن فون نہیں کیا۔ میں نے دوسری دفعہ کہا تو کہنے لگے کر دوں گا، لیکن پھر بھی نہیں کیا۔ میں نے تیسری دفعہ کہا تو ان کا بیٹا بولا کہ انکل! یہ فون نہیں کریں گے کیونکہ وہ سترہویں گریڈ کا ہے اور یہ انیسویں گریڈ کے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کے پاس جائیں اور اس کی اِن سے بات کروا دیں۔ فون وہ کرے، یہ فون نہیں کریں گے۔ میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا تب مجھے حضرت صدیق اکبرؓ کی رائے سمجھ آئی کہ گریڈ سسٹم سے سوسائٹی کیسے تقسیم ہوتی ہے۔

حضرت عمرؓ نے کہا کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی رائے ٹھیک تھی، اگلے سال میں سسٹم بدل دوں گا اور حضرت صدیق اکبرؓ کی رائے کے مطابق برابر تقسیم کروں گا۔ ان کا رجوع اور یہ اعلان کتاب الخراج میں موجود ہے۔ لیکن اگلے سال سے پہلے حضرت عمرؓ شہید ہو گئے۔ پھر حضرت عثمانؓ خلیفہ بنے، وہ بھی مجتہد تھے تو انہوں نے اسی رائے کو قائم رکھا۔ اجتہاد میں یہی ہوتا ہے کہ مجتہد جس رائے کو ترجیح دے اس پر چلتا ہے۔

البتہ یہاں زیر بحث مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظر انداز کرنا شاید قرین انصاف نہ ہو۔ وہ یہ کہ صدیقی دور میں بیت المال سے وظائف کی تقسیم برابری کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے، اور فاروقی دور میں ترجیح کا اصول اپنایا گیا ہے۔ اگرچہ حضرت عمرؓ نے اس سے رجوع کا زبانی اظہار فرما دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی ترجیحی اصول پر عملدرآمد کا تسلسل قائم رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دراصل دونوں اصول موقع محل کی مناسبت سے قابلِ عمل ہیں اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے کسی بھی اصول کو اپنایا جا سکتا ہے۔ اصل بات اجتماعی مفاد کی ہے، اگر کسی وقت حالات کا تقاضا قومی ذرائع پیداوار کی برابری کی بنیاد پر تقسیم کا ہو اور اجتماعی مفاد اس میں ہو تو ایک اسلامی حکومت اس اصول کو اپنا سکتی ہے، اور کسی دور میں اگر اجتماعی حالات کا تقاضا اس کے برعکس ہو تو دوسری صورت اختیار کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ کیا آج پاکستان کے عمومی حالات کے تناظر میں گریڈ سسٹم ختم کرکے حضرت صدیق اکبرؓ کا اسوۂ قابل عملِ نہیں ہے؟ یہ غور طلب پہلو ہے۔

میں نے یہ ذکر کیا ہے کہ سرکاری حکام کا وظیفہ کس معیار پر ہو گا اور لوگوں کو وظیفہ کیسے دینا ہے۔ یہ دو فیصلے خلافت راشدہ کی پہلی مجلس شوریٰ نے کیے تھے۔ الغرض حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں بھی اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیت المال کا نظام اور اس کی درجہ بندی چلتی رہی۔

بیت المال کا باقاعدہ نظم، اس کی درجہ بندی، اور اس کے حساب کتاب کا آغاز حضرت عمرؓ نے کیا۔ اس کو محدثین کرامؒ اولیاتِ عمرؓ میں شمار کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے وہ کام شروع کیے جو پہلے نہیں ہو رہے تھے۔ امام سیوطیؒ نے تاریخ الخلفاء میں ہر بزرگ کی حیاتِ مبارکہ کے ذکر کے آخر میں اولیات کا ذکر کیا ہے۔ اولیاتِ ابوبکرؓ، اولیاتِ عمرؓ، اولیاتِ عثمانؓ، اولیاتِ علیؓ کہ وہ کام جن کا انہوں نے آغاز کیا۔ اس کو اولیات کہہ لیں یا ان کے اجتہادات کہہ لیں کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے جو نئے فیصلے کیے۔

اولیاتِ عمرؓ میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے بیت المال کا باقاعدہ دفتر بنایا اور ریکارڈ بنایا، باقاعدہ درجہ بندی کی، ڈیوٹیاں مقرر کیں، اور ساری تفصیل طے کی کہ دوسرے مصارف جہاد، ترقیات اور دیگر کاموں کے ساتھ بیت المال کی یہ بھی ذمہ داری تھی کہ معاشرے میں نادار اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرے۔ حضرت عمرؓ کا مزاج اور ذوق تو بہت اعلیٰ تھا۔ تاریخ میں مختلف واقعات آتے ہیں۔ اس کی ایک دو جھلکیاں ذکر کرنا چاہوں گا کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں رفاہی ریاست کے نظام اور بیت المال کی ترتیب کیا تھی۔

حضرت عمرؓ کے سوانح نگار یہ واقعہ لکھتے ہیں کہ ان کا معمول تھا کہ رات کے وقت دو تین گھنٹے مدینہ میں گشت کیا کرتے تھے اور لوگوں کے حالات معلوم کیا کرتے تھے۔ مدینہ اس زمانے میں بڑا شہر نہیں تھا، درمیانے درجے کا قصبہ سمجھ لیں۔ ایک رات حضرت عمرؓ گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی کہ بچے مسلسل روئے جا رہے ہیں۔ آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا، ایک بڑھیا باہر نکلی۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہے بچے کیوں رو رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ بچے اس لیے رو رہے ہیں کہ کھانے کو کچھ نہیں ہے، بھوک اور فاقہ ہے۔ میرا خاوند گھر میں نہیں ہے اور میرے پاس کھلانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کی نظر پڑی کہ ہنڈیا چولہے پر چڑھی ہوئی ہے اور اس میں کچھ پک رہا ہے۔ فرمایا ہنڈیا میں کیا ہے؟ اس نے کہا اس میں صرف پانی ہے تاکہ بچے دیکھتے دیکھتے بہلتے بہلتے سو جائیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا بی بی! امیر المومنین اسی شہر میں رہتے ہیں تم نے اطلاع کیوں نہیں دی کہ میرے گھر میں فاقہ ہے، کھانے کو کچھ نہیں ہے تاکہ تمہارے گھر میں کچھ بھیج دیتے؟ وہ حضرت عمرؓ کو پہچان نہیں رہی تھی کہ آپ کون ہیں، اس نے کہا بیٹا! یہ کام میرا نہیں ہے کہ میں امیر المومنین کو بتاؤں کہ میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے، یہ کام امیر المومنین کا ہے اس کو پتا ہونا چاہیے کہ میری رعیت کے کس گھر میں کھانے کو ہے اور کس گھر میں نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے پھر کہا، بی بی! عمر ایک آدمی ہے، کس کس کا پتہ چلائے گا؟ تو بی بی نے کہا بیٹا! اگر عمر اپنی رعیت کے بھوکے گھروں کا پتہ نہیں چلا سکتا تو اسے یہ منصب خالی کر دینا چاہیے، کسی ایسے آدمی کے لیے جو اپنی رعیت کے بھوکوں کا پتہ چلا سکے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المال کی ذمہ داری کا یہ شعور اور یہ احساس لوگوں میں پیدا کیا کہ سوسائٹی میں جو نادار اور ضرورتمند لوگ ہیں وہ بے سہارا نہیں ہیں، ان کی ذمہ داری ریاست اور حکومت پر ہے۔ جو لوگ کمانے کے قابل نہیں ہیں، جو بوجھ تلے دب گئے ہیں، جو بے سہارا ہیں، ان کے اخراجات پورے کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسی پر حضرت عمرؓ کا ایک مشہور جملہ مؤرخین اکثر ذکر کرتے ہیں کہ اگر دریائے فرات پر کوئی کتا بھی بھوک یا پیاس سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے سوال ہو گا کہ تمہاری حکومت میں ایک کتا بھوک سے کیوں مرا ہے؟ آپ نے ایک جانور کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ بھوکا مر گیا تو مجھ سے سوال ہو گا۔ اسلامی شریعت اور اسلامی تاریخ کے تناظر میں بیت المال کی ذمہ داری کیا ہے، حضرت عمرؓ کا یہ تاریخی جملہ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔

کتاب الاموال میں روایت ہے۔ حضرت عمرؓ ایک دن بازار میں جا رہے تھے، دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی بھیک مانگ رہا ہے۔ کبھی ایک دکان سے مانگتا، کبھی دوسری سے۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہو گئے کہ دیکھیں یہ بابا کیوں مانگ رہا ہے۔ ہم نے جب سارا نظم کیا ہوا ہے، وظیفے بھی دیتے ہیں اور ضرورت کے وقت پیسے بھی دیتے ہیں تو یہ بزرگ مانگ کیوں رہا ہے؟ حضرت عمرؓ نے ساتھی کو بھیجا کہ جا کر پتا کرو یہ بابا کون ہے۔ وہ اسے بلا کر لائے۔ آپ نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس نے کہا میں یہودی ہوں۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ تمہیں بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟ اس نے کہا، ملتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا، وہ تمہارے اخراجات کے لیے کافی نہیں ہوتا؟ اس نے کہا کافی ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا تو پھر مانگ کیوں رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، کمانے کے قابل نہیں ہوں۔ ہم غیر مسلموں نے سال کے بعد جزیہ بھی دینا ہوتا ہے، ویسے تو میرا گزارا ہو رہا ہے، لیکن جزیے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور سال بھی پورا ہو رہا ہے چند دن باقی ہیں۔ میں اس لیے مانگ رہا ہوں کہ کچھ آدمیوں سے مانگ کر جزیے کی رقم پوری کر لوں گا اور بیت المال کو جزیے کی رقم دے دوں گا۔

غیر مسلم یہودی شہری کا یہ جملہ حضرت عمرؓ نے سنا تو بڑے پریشان ہوئے۔ آپؓ نے ساتھیوں سے کہا دیکھو! یہ انصاف کی بات نہیں ہے کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم کھائیں، جوانی میں محنت مزدوری کر کے ہمیں جزیہ دے اور وہ ہمارے استعمال میں آئے، اور بڑھاپے میں ہم اسے لوگوں کے دروازوں پر مانگنے کے لیے چھوڑ دیں۔ حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا کسی سے مت مانگو، صبح میرے پاس آنا میں تمہارا مسئلہ حل کر دوں گا۔ دوسرے دن حضرت عمرؓ نے شوریٰ بلا لی، اس کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ کل میں نے ایک یہودی بوڑھے کو مانگتے دیکھا ہے، مجھے اچھا نہیں لگا کہ جوانی میں ہم ان سے جزیہ وصول کریں جو ہمارے استعمال میں آئے، اور بڑھاپے میں یہ بے بس لوگوں کے دروازوں پر بھیک مانگتے پھریں۔ یہ بات درست نہیں ہے اس کا کوئی حل نکالو۔ مشورے کے بعد حضرت عمرؓ نے قانون تبدیل کر دیا اور فرمایا کہ جو غیر مسلم کمانے کے قابل نہ رہے وہ جزیہ سے مستثنیٰ ہے۔

حضرت عمرؓ کے ویلفیئر سسٹم کا مزاج یہ تھا کہ ایک غیر مسلم بھی بھیک کیوں مانگے؟ ہم کس لیے ہیں، بیت المال کس لیے ہے؟ معاشرے میں ایک آدمی بھیک مانگنے پر کیوں مجبور ہو؟ چنانچہ عملاً ثابت کر دیا کہ اسلامی ریاست میں نادار، بے سہارا اور بوجھ تلے لوگ بیت المال کی ذمہ داری میں شامل ہیں اور حکمران اس کے مسئول ہیں، اس کا سب سے مثالی تصور حضرت عمرؓ نے پیش کیا۔

اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ رفاہی ریاست کا تصور کیا ہے۔

حضرت عمرؓ بیت المال سے بچوں کو وظیفہ دیا کرتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ کی ذمہ داریوں اور ان کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس لیے حضرت عمرؓ بچے کے حوالے سے ماں باپ کو وظیفہ دیتے تھے کہ کام کاج تو وہی کیا کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضابطہ یہ تھا کہ بچہ جب تک دودھ پیتا ہے، تب تک وظیفہ نہیں ملے گا، دودھ چھوڑ کر دوسری خوراک کی ضرورت پڑتی تو وظیفہ ملتا تھا۔ حضرت عمرؓ کا ابتدا میں یہ قانون اور ضابطہ تھا، فہرستیں بنی ہوئی تھیں، لوگ آ کر بچوں کا وظیفہ لے جاتے تھے۔

علامہ شبلی نعمانیؒ نے الفاروق میں واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عمرؓ حسبِ معمول رات کو گشت کر رہے تھے۔ ایک گھر کے سامنے سے گزرے تو بچے کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ آپ نے سوچا کہ بچہ نیند سے اٹھا ہو گا رو رہا ہو گا۔ چنانچہ آپ گزر گئے۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ بچہ پھر رو رہا ہے۔ پھر خیال ہوا کہ بچے روتے رہتے ہیں، ویسے ہی رو رہا ہو گا۔ اتفاق سے تیسری بار ادھر سے گزرے تو بچہ پھر بھی رو رہا تھا۔ اب حضرت عمرؓ وہاں کھڑے ہو گئے کہ کوئی مسئلہ ہے تبھی بچہ مسلسل رو رہا ہے ۔ حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک صاحب باہر آئے، اس سے دریافت فرمایا بچہ کافی دیر سے کیوں رو رہا ہے؟ اس نے عرض کیا اس کی ماں اس کو دودھ نہیں پلا رہی، اس لیے رو رہا ہے۔ آپؓ نے پوچھا، ماں دودھ کیوں نہیں پلا رہی؟ اس نے عرض کیا کہ ماں اس کا دودھ چھڑوانا چاہتی ہے کہ جب تک یہ دودھ پیتا رہے گا اس کا وظیفہ نہیں ملے گا۔ دودھ چھوڑے گا تو وظیفہ ملے گا، تو اس کا وظیفہ جاری کروانے کے لیے ماں اس کو دودھ نہیں پلا رہی تاکہ بچہ دودھ چھوڑ کر خارجی خوراک کھائے تو ہم حضرت عمرؓ کے سامنے پیش کریں کہ اب یہ روٹی کھاتا ہے، اس کا وظیفہ جاری ہو جائے۔

حضرت عمرؓ کے ساتھ جو ساتھی تھے غالباً حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، ان کو مخاطب کر کے اپنے بارے میں فرمایا عمر! تم نے کتنے معصوم بچوں کو رلایا ہو گا۔ تیری وجہ سے کتنے معصوم بچوں کا دودھ چھڑایا گیا ہو گا۔ مائیں دودھ چھڑانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتی ہوں گی۔ حضرت عمرؓ نے اس گھر والے سے کہا کہ اس کی ماں کو کہو کہ اسے دودھ پلائے، صبح میرے پاس آنا آپ کا مسئلہ حل کر دیں گے۔ صبح آپ نے شوریٰ بلا لی اور یہ مسئلہ سامنے رکھا کہ ہم بچے کا دودھ چھوڑنے دینے کے بعد وظیفہ دیتے ہیں، مائیں وظیفے کے لالچ میں وقت سے پہلے دودھ چھڑواتی ہیں، جس سے بچوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ نے قانون میں ترمیم کر دی اور فرمایا کہ آج کے بعد بچہ پیدا ہوتے ہی وظیفہ جاری کر دیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ اس بنیاد پر بچوں کو وظیفہ دیتے کہ خاندان میں ایک فرد کا اضافہ ہوا ہے تو اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، تو اس کا بوجھ بیت المال برداشت کرے گا۔ بلا امتیاز ہر شہری کے بچے لیے وظیفہ دیا جاتا۔ چاہے یہودی ہے، عیسائی ہے یا مسلمان۔ حضرت عمرؓ نے اس نظام کو عروج تک پہنچایا چنانچہ آج بھی دنیا کی تاریخ میں ویلفیئر اسٹیٹ کے حوالے سے حضرت عمرؓ کا دور اور ان کی رفاہی ریاست کا یہ نظام سب سے زیادہ آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رفاہی ریاست کا تصور اور ماحول دیا تھا، اسے حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں منظم کیا گیا، اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس کا پورا نظام مرتب ہوا۔ جس کی دوسری قومیں تو آج تک پیروی کر رہی ہیں لیکن ہمارے ہاں وہ نظام اب نہیں رہا۔ اس نظام کے بہت سے پہلو ہیں۔ اس زمانے میں اس نظام کی نوعیت کیا تھی؟ اس پر مزید چند واقعات نقل کرتا ہوں کہ جب رفاہی ریاست بنی تو کیا تبدیلی آئی تھی، کیا فرق پڑا تھا، اور اس نظام کی برکت سے معاشرے کی صورتحال کیا ہو جاتی ہے اس نظام کی برکات کیا ہیں؟

جب اسلامی نظام قائم ہوتا ہے تو کس درجہ کی خوشحالی پیدا ہوتی ہے اور کیسے معاشرہ امن کا گہوارا بنتا ہے۔

اس پر بخاری شریف کی روایت ہے، حاتم طائی کے بیٹے حضرت عدی بن حاتم ؓ راوی ہیں کہ مسجد نبوی میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، صحابہ کرامؓ کی مجلس لگی ہوئی تھی، میں بھی بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا، سلام عرض کر کے بیٹھ گیا اور کہا یا رسول اللہ! میں جس علاقے سے آیا ہوں اس علاقے میں چوریاں اور ڈکیتیاں بہت ہوتی ہیں ، قتل بہت ہوتے ہیں، جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ تھوڑی دیر گزری کہ ایک اور شخص آیا اور سلام عرض کر کے کہنے لگا یا رسول اللہ! میں جس علاقے سے آیا ہوں وہاں خشک سالی بہت ہے، کافی عرصہ سے بارش نہیں ہوئی، غلّہ نہیں ہے، کنویں گہرے ہو گئے ہیں، پانی خشک ہو گیا ہے، لوگوں پر بھوک طاری ہے ، کھانے کو کچھ نہیں ملتا، فاقہ ہے، بہت برا حال ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آنے والوں سے تو کچھ نہیں کہا، البتہ حضرت عدیؓ کو مخاطب کر کے فرمایا، عدی! تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ حیرہ اس دور میں ایک شہر تھا جو اَب کوفہ کا کوئی محلہ ہو گا۔ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ! حیرہ دیکھا تو نہیں البتہ سنا ہے کہ بڑا مشہور شہر اور بڑا بارونق علاقہ ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا، عدی! اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں لمبی عمر دی تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھو گے کہ حیرہ سے ایک خاتون چلے گی، اونٹ کے کجاوے میں بیٹھی ہوئی، سونے چاندی کے زیورات سے لدی ہوئی، تنہا مکہ آئے گی۔ اور مکہ سے چلے گی ،تنہا حیرہ جائے گی۔ آتے جاتے پورے راستے میں اسے اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا ۔

حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات سن کر تعجب ہوا کہ یہ کیسے ہو گا؟ اس دور میں یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم بھی راستہ میں ہیں، جب وہ عورت ہمارے علاقے سے گزرے گی تو ہمارے علاقے کے ڈاکو لٹیرے کہاں ہوں گے کہ وہ اطمینان سے سفر کر لے گی؟ لیکن سوال میرے ذہن میں گھومتا رہا، میں نے پوچھا نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بات ارشاد فرما دی کہ عدی! اگر تم نے کچھ اور عمر پائی تو تم ایک اور منظر دیکھو گے کہ کسرٰی کے خزانے فتح ہوں گے، مدینہ میں آئیں گے اور یہاں تقسیم ہوں گے۔ کسرٰی اس زمانے کی ایک سپر پاور کا حکمران تھا۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ یہ بات بھی بڑی تعجب کی تھی، میں نے پہلا سوال تو نہیں کیا، یہ سوال کر دیا کہ یا رسول اللہ! وہ ہرمز کا بیٹا کسرٰی، فارس کا بادشاہ، آپ اس کی بات کر رہے ہیں؟ حضورؐ نے بڑے اطمینان سے سر ہلایا کہ ہاں وہی کسرٰی بن ہرمز۔ حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ میرا دماغ گھوم رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گا، لیکن ایمان تھا کہ حضورؐ فرما رہے ہیں تو ایسا ہو کر رہے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بات ارشاد فرما دی کہ عدی! اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور تھوڑی لمبی عمر دی تو تم ایک منظر اور دیکھو گے کہ تم لوگ ہاتھوں میں سونا چاندی اٹھا کر بازاروں اور منڈیوں میں جا کر آواز دو گے کہ یہ میری زکوٰۃ ہے، میرے محلے برادری میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہا، کوئی مستحق میری آواز سن رہا ہو تو خدا کے لیے مجھ سے زکوٰۃ وصول کر لے اور مجھے فارغ کر دے۔

محدثین فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ باتیں ارشاد فرمائیں تو یہ ان دونوں آنے والوں کو جواب دیا تھا اور ان کے مسائل کا حل بتایا تھا کہ جو نظام میں دے رہا ہوں اس پر عمل کر کے دیکھو، اس درجے کا امن ہو گا کہ کوفہ سے عورت تنہا چلے گی اور مکہ تک اسے کسی کا ڈر نہیں ہو گا، اور اس درجے کی خوشحالی ہو گی کہ تم ہاتھوں میں سونا چاندی اٹھا کر ڈھونڈتے پھرو گے، تمہیں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔

یہ واقعہ تو حضورؐ کے زمانے کا ہے۔ حضرت عدیؓ جب یہ روایت بیان کر رہے ہیں تو وہ حضرت عمرؓ کا زمانہ ہے۔ دس پندرہ سال کے بعد بیان کر رہے ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے جو تین باتیں ارشاد فرمائی تھیں ان میں سے دو باتیں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں، اور تیسری کے انتظار میں ہوں جیسے رات کو صبح کے سورج کا انتظار ہوتا ہے۔ حضرت عدیؓ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تمثیل نہیں بیان کی تھی بلکہ پیشگوئی فرمائی تھی۔ میں نے ایک خاتون کو حیرہ سے مکہ جاتے ہوئے اور مکہ سے واپس آتے ہوئے دیکھا ہے، وہ سونے چاندی کے زیورات سے لدی ہوئی تھی، کجاوہ سامان سے بھرا ہوا تھا، وہ بڑے امن اور اطمینان سے آئی اور امن کے ساتھ واپس گئی۔ پورے راستے میں کہیں بھی اس کو خدشہ نہیں ہوا کہ کوئی مجھے قتل کر دے گا، یا کوئی زیور لے لے گا، یا کوئی میری عزت لوٹ لے گا، میں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ حضرت عدیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کسرٰی کے خزانے بھی فتح ہوتے دیکھے ہیں، مدینہ میں آتے اور تقسیم ہوتے دیکھے ہیں، بلکہ میں خود فتح کرنے والوں اور اٹھا کر لانے والوں شامل تھا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری پیشگوئی بھی حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں پوری ہو گئی تھی کہ تم ہاتھوں میں سونا چاندی اٹھا کر ڈھونڈتے پھرو گے، تمہیں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ کے زمانے میں یمن کے گورنر حضرت معاذ بن جبلؓ تھے، جناب نبی کریمؐ کے زمانے میں بھی یمن کے گورنر تھے۔ پورے کا پورا یمن جناب نبی کریمؐ کے زمانے میں ریاست میں آ گیا تھا، اور خود آپؐ نے ان کو یمن کا گورنر مقرر فرمایا تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی حضرت معاذ بن جبلؓ ہی یمن کے گورنر تھے۔ اس زمانے میں ایک ہی منصب ہوتا تھا، گورنر بھی وہی ہوتا تھا، ایڈمنسٹریٹر، ریوینیو آفیسر اور قاضی بھی وہی ہوتا تھا، وہ عامل کہلاتا تھا۔

امام ابو عبید ؒنے ’’کتاب الاموال‘‘ میں حضرت معاذ بن جبلؓ کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ انہوں نے ایک سال اپنے صوبے سے زکوٰۃ، جزیہ، خراج اور عشر وغیرہ وصول کیا۔ جس طرح حکومت کے محکمے ریونیو لیتے ہیں، دیہاتوں میں زمینداروں سے تحصیلدار وغیرہ ٹیکس وصول کرتے ہیں اور شہریوں میں انکم ٹیکس آفیسر تاجروں اور صنعتکاروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے۔ حضرت معاذؓ کو اپنے صوبے سے سال بھر کا جو ریونیو وصول ہوا، انہوں نے اس کا تیسرا حصہ مرکز کے کسی مطالبے کے بغیر مرکز کو بھیج دیا۔ حالانکہ صوبہ مرکز سے لیتا ہے لیکن یہاں صوبہ ایک تہائی مرکز کو بھیج رہا ہے۔ اس پر مرکز کو خوش ہونا چاہیے یا ناراض ہونا چاہیے؟

حضرت عمرؓ ناراض ہوئے اور حضرت معاذؓ کو خط لکھا۔ یہ خط بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ معاذ! تم تو عالم آدمی ہو، تمہیں پتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالیات کا یہ اصول بیان فرمایا ہے ’’توخذ من اغنیائھم و ترد الی فقرائھم‘‘ کہ زکوٰۃ اور صدقات جس علاقے کے مالداروں سے وصول کیے جائیں اسی علاقے کے مستحقین پر تقسیم کیے جائیں۔ تم نے یہ رقم مجھے کیوں بھیجی ہے، یہ تو یمن کے لوگوں کا حق ہے؟ اس پر حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ اپنے صوبے کے پورے اخراجات کے بعد یہ فاضل بجٹ تھا جو بچ گیا، اس رقم کا میرے پاس کوئی مصرف نہیں اس لیے آپ کو بھیجی ہے۔

اگلے سال حضرت معاذؓ نے اپنے صوبے کا نصف ریونیو مرکز کو بھیج دیا اور ساتھ لکھا کہ یہ رقم بچ گئی ہے، اس سے اگلے سال دو تہائی مرکز کو بھیج دیا، اور چوتھے سال پورے کا پورا بجٹ مرکز کو بھیج دیا کہ شریعت کے قانون کی برکت سے اور آپ جیسے عادل حکمران کے عدل کی برکت سے آج میرے صوبے میں ایک بھی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے جس پر خرچ کر سکوں، لہٰذا سارا بجٹ آپ کو بھیج رہا ہوں، آپ جہاں چاہیں صرف فرمائیں۔ حضرت معاذؓ کا وہ خط آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ میرے پورے صوبے یمن میں کوئی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے۔

یہ قرآن مجید کو نافذ کرنے کی برکت تھی، اللہ کے قانون کی برکت تھی اور حضرت عمرؓ جیسے عادل حکمران اور بیت المال کے نظام میں توازن کی برکت تھی۔ جب معیشت کی بات ہوتی ہے تو میں یہ ذکر کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں وسائل کی کمی کی بات نہیں ہے، وسائل کی تقسیم کی بات ہے۔ وسائل کی کمی نہیں ہوتی، لیکن تقسیم صحیح نہیں ہوتی اس لیے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً دس آدمیوں کا کھانا ہے، تین آدمی اس کو ہڑپ کر جائیں اور باقی سات بھوکے رہیں تو اس میں کھانے کا کیا قصور ہے؟ قصور چھیننے والے اور تقسیم کرنے والے کا ہے کہ دس کا کھانا تین کو کیوں دے دیا ہے؟

دوسرا واقعہ بھی حضرت عمرؓ کے زمانے کا ہے۔ جب فارس فتح ہوا اور ایران کا کسریٰ خسرو پرویز مارا گیا۔ ایران حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فتح کیا۔ یہ ایک الگ المیہ ہے کہ فاتح ایران حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ہیں جن کا ہم نام ہی نہیں لیتے، لیکن مفتوح جس نے شکست کھائی وہ رستم ایران کا چیف کمانڈر تھا، بھاگتے ہوئے نہر میں کودا تھا، پیچھے سے ایک مجاہد نے اس کی پشت پر خنجر مارا تھا جس سے وہ مرا تھا، آج وہ شکست خوردہ رستم ہمارے ہاں طاقت سمبل ہے۔ رستم گوجرانوالہ، رستم لاہور، رستم پنجاب، رستم پاکستان، رستم زماں، ہم کسی بڑے پہلوان کو یہ ٹائٹل دیتے ہیں، لیکن حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا نام کوئی نہیں لیتا۔

کسرٰی کے خزانے فتح ہوئے، غنیمت مدینہ منورہ لائی گئی، دنیا کی ایک بڑی پاور نے شکست کھائی تھی تو غنیمت کا بے پناہ مال آیا۔ مجاہدین بھی مدینہ منورہ پہنچ رہے ہیں، مالِ غنیمت بھی آہستہ آہستہ آ رہا ہے اور فتح کی مبارک بادیں آ رہی ہیں۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ مبارکبادیں بھی وصول کر رہے ہیں اور غنیمت کا مال بھی چیک کر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کسرٰی کے خزانے تقسیم کرنے تھے لیکن حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا حضرت عمرؓ ان خزانوں میں کوئی چیز تلاش کر رہے تھے، کبھی ایک گٹھڑی کھول کر اس میں دیکھتے کبھی دوسری گٹھری میں دیکھتے۔ اسی کیفیت میں سارا دن گزر گیا، حضرت عمرؓ کے رعب کی وجہ سے کوئی آپ سے پوچھ بھی نہیں رہا تھا کہ آپ کیا تلاش کر رہے ہیں؟ اگلا سارا دن بھی اسی کیفیت میں گزر گیا کہ گٹھڑیاں اور پوٹلیاں کھول کھول کر کوئی چیز تلاش کر رہے ہیں جو نہیں رہی ۔ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے اور تلاش کرتے ہوئے یہ کہتے جا رہے ہیں یہ نہیں ہو سکتا، یہ نہیں ہو سکتا۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ تیسرے دن میں نے پوچھ لیا کہ حضرت! آپ گٹھریاں کھول کھول کر دیکھ رہے ہیں، کیا تلاش کر رہے ہیں؟ ہمیں بھی تو بتائیں کہ کیا نہیں ہو سکتا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے سفر میں حضرت سراقہ بن مالکؓ، جنہوں نے آپؐ کو راستے میں روکا تھا اور پھر صلح ہو گئی تھی، ان سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اب کسریٰ ختم ہو گیا ہے، اس کے خزانے آگئے ہیں، سراقہ بھی موجود ہے لیکن کسریٰ کے کنگن نہیں مل رہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسرٰی کے خزانے آئیں اور ان میں کنگن نہ ہوں۔ میں وہ کنگن تلاش کر رہا ہوں، سارے خزانے ٹٹول کر دیکھ لیے ہیں لیکن نہیں مل رہے۔

یہی گفتگو چل رہی تھی کہ ایک سپاہی آیا اور سلام عرض کیا۔ اس کے پاس ایک پوٹلی تھی جو اس نے حضرت عمرؓ کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت! میں بھی اس لشکر میں تھا جس نے کسرٰی کے خلاف جنگ لڑی ہے، میں واپسی میں راستے میں بیمار ہو گیا تھا اور ایک گاؤں میں ٹھہر گیا تھا، اب طبیعت ٹھیک ہوئی ہے تو آ گیا ہوں، یہ میرے پاس ایک امانت ہے۔ جب اس پوٹلی کو کھولا تو اس میں کسرٰی کے کنگن تھے۔ سونے کے کنگن کی اپنی قیمت ہے اور کسرٰی کے کنگن کی اپنی قیمت ہے، جنہیں ایک عام سپاہی سنبھال کر لا رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ سونے کے کنگن راستے میں کہیں بھی غائب ہو سکتے تھے، جیسے آج کل ہمارے ہاں چیزیں غائب ہوتی رہتی ہیں، کون سی چیز سلامت پہنچتی ہے۔ ایک عام سپاہی کے ہاتھ بادشاہ کے کنگن آگئے تو وہ کہیں غائب نہیں ہوئے بلکہ اس نے خود اٹھائے اور امانت کے ساتھ خود ہی پیش کر دیے ۔

حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جس قوم کو اتنے دیانتدار سپاہی میسر ہوں اسے کون شکست دے سکتا ہے؟ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے عرض کیا کہ حضرت! بات یہ ہے کہ جس قوم کا امیر اتنا دیانتدار ہو اس قوم کے سپاہی بھی ویسے ہی ہوں گے، یہ آپ کی امانت اور دیانت کی برکات ہیں۔

برکت اوپر سے نیچے چلتی ہے جیسے دولت نیچے سے اوپر جاتی ہے۔ حکمران امانتدار ہو تو برکتیں ہی برکتیں ہوتی ہیں، پھر سپاہی اور عملہ سبھی دیانتدار ہوتے ہیں۔ اگر دولت کی گردش صحیح رہے اور حکمران دیانتدار ہوں تو برکتوں کا ماحول یہ ہوتا ہے ۔ حضرت عمرؓ تو دنیا میں دیانت کا سمبل ہیں، صرف ہمارے نزدیک نہیں بلکہ آپؓ کو دنیا مانتی ہے۔ جب بھی امانت، دیانت اور عدالت کی بات ہوتی ہے تو پہلے چار پانچ ناموں میں حضرت عمرؓ کا نام دنیا کی تاریخ میں سر فہرست آتا ہے۔ یہ کیفیت آج کل ہم تلاش کر رہے ہیں کہ دیانت، برکت اور معاشی اصلاحات کہاں ہیں۔ جہاں سے یہ چیزیں ملتی ہیں ہم وہاں نہیں جاتے۔ مثلاً مجھے کسی چیز کی ضرورت ہے، میں سارے بازار میں تلاش کر رہا ہوں، لیکن جس دکان پر وہ چیز ہے اس دکان پر نہیں جاتا، تو کیا وہ چیز مل جائے گی؟ یہی حال دیانت اور برکت کا ہے، یہ سودا جہاں سے ملتا ہے وہاں ہم جاتے نہیں، اور ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔

حضرت عمرؓ کی دیانتداری پر مؤرخین یہ واقعہ بھی لکھتے ہیں کہ ایران شکست کھا گیا لیکن روم ابھی باقی تھا۔ روم کے بادشاہ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں خوشبو کا تحفہ بھیجا۔ جب قیصر روم کا تحفہ آیا تو حضرت عمرؓ نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ خوشبو تقسیم کرنی ہے، کوئی سیانی سی عورت بتلائیں جو مدینہ کی عورتوں میں تقسیم کر دے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کی اہلیہ محترمہ سے زیادہ سمجھدار عورت کون ہو گی، آپ ان کو دیں وہ تقسیم کر دیں گی۔ حضرت عمرؓ نے وہ خوشبو عورتوں میں تقسیم کرنے کے لیے اہلیہ محترمہ کو دیتے ہوئے پوچھا کہ تم تقسیم کرو گی تو اپنا حصہ کتنا رکھو گی؟ عرض کیا کہ جتنا دوسروں کو دوں گی اتنا ہی خود رکھوں گی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جتنا دوسروں کو دو گی اگر اتنا ہی خود رکھو گی، تو جو دیتے ہوئے انگلیوں کے ساتھ لگ جائے گا وہ کس کھاتے میں جائے گا؟ اس لیے اپنا حصہ کم رکھنا تاکہ متوازن ہو جائے ۔ دیانت اس کا نام ہے۔

حضرت عمرؓ ؓکی دیانت کے بے شمار واقعات ہیں، ایک اور واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ حضرت عمرؓ بیمار ہو گئے، پیٹ میں کوئی مسئلہ تھا، جب گڑبڑ زیادہ ہو گئی تو حکیم بلائے، انہوں نے بتایا کہ اور کچھ نہیں ہے صرف یہ ہے کہ آپ خشک جَو کی روٹی کھاتے ہیں ، گھی اور زیتون استعمال نہیں کرتے، اس لیے انتڑیوں میں خشکی پیدا ہو گئی ہے، آپ کچھ دن زیتون استعمال کریں، روٹی اس میں بھگو کر کھائیں تو ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپؓ نے فرمایا کہ میرے پاس تو زیتون کا تیل نہیں ہے، مجھے جو وظیفہ ملتا ہے اس میں اس کی گنجائش نہیں ہے کہ میں روٹی زیتون کے ساتھ کھا سکوں۔ پاس بیٹھے ایک آدمی نے کہا کہ بیت المال میں زیتون کا تیل موجود ہے۔ آپؓ نے پوچھا کہ کتنا ہے؟ اس نے کہا خاصا ہے۔ آپ نے پوچھا پھر بھی کتنا ہے ؟ جو زیتون بیت المال میں ہے وہ تو لوگوں کا حق ہے، اگر وہ مدینہ منورہ کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو میرے حصے میں کتنا آئے گا؟ اس نے عرض کیا، حضرت! اتنا تو نہیں ہے ۔ دیانت اور انصاف اس سے کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے پیٹ پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ جتنا مرضی ہے گڑ گڑ کرتا رہے، تجھے وہی ملے گا جو تیرا حصہ بنتا ہے، تیرے حصے سے زیادہ تجھ میں نہیں ڈالوں گا۔

یہ میں نے رفاہی ریاست کی چند جھلکیاں ذکر کی ہیں کہ اللہ کے رسول کے احکام اور زکوٰۃ کے نظام کی برکت سے حضرت عمرؓ کے زمانے میں یہ ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ آج ہم حضرت عمرؓ کو صرف برکت کے لیے یاد کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، ان سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ہمارے آج کے مسائل ، مشکلات اور ہماری بیماریوں کا حل حضرت عمرؓ کے پاس ہے ، ہم وہ نہیں دیکھتے۔ ان کے فضائل بیان کریں گے، نعرے لگائیں گے، عقیدت و محبت کا اظہار بھی کریں گے، لیکن وہ جو کر کے گئے ہیں وہ کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ بات ہمیں نوٹ کر لینی چاہیے کہ ہم جب تک حضرت عمرؓ اور خلفاء راشدینؓ کی پیروی نہیں کریں گے، ہمارا نظام ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ حضرات صرف برکت کا باعث نہیں ہیں، ہمارے لیے آئیڈیل بھی ہیں، جب تک ہم ان کی پیروی اور ان کے نقشِ قدم پر نہیں آئیں گے، بات آگے نہیں چلے گی، ہمیں ان کے پیچھے چلنا پڑے گا، ہمیں بھی اور ہمارے حکمرانوں کو بھی۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کا پرتو اور خلافتِ راشدہ کا تتمہ کہا جاتا ہے۔ آپؒ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے نوے سال بعد ۱۰۰ یا ۱۰۱ ہجری میں حکمران بنے، دو اڑھائی سال خلیفہ رہے، لیکن آج تک دنیا یاد کرتی ہے، آپ کو عمر ِثانی کہا جاتا ہے۔ رفاہی ریاست کے حوالے سے ان کے عہدِ خلافت کا واقعہ ذکر کرتا ہوں۔

’’کتاب الاموال‘‘ کی روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے زمانے میں عراق کے گورنر عبد الحمیدؒ تھے۔ امیر المومنین کے نام ان کا خط آیا کہ ہمارے صوبے کا اس سال کا جو ریونیو وصول ہوا ہے، ضروریات پوری ہونے اور سال کا بجٹ پورا ہونے کے بعد فاضل بجٹ میں رقم بچ گئی ہے، اس کا کیا کرنا ہے؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جواب لکھا کہ صوبے میں اعلان کراؤ کہ کوئی ایسا مقروض جو اپنا قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کا قرض ادا کر دو۔ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت! یہ کام میں کر چکا ہوں، رقم اس سے زائد ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ان کو دوبارہ خط لکھا کہ جن لوگوں کی بچیوں کی شادیاں نہیں ہوئیں اور اس انتظار میں ہیں کہ اخراجات ہوں گے تو ان کی شادیاں کریں گے، تو ان کی شادیاں اس رقم سے کروا دو۔ گورنر صاحب کی طرف سے جواب آیا کہ حضرت! میں یہ بھی کر چکا ہوں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے گورنر صاحب کو خط لکھا کہ جن خاوندوں نے اپنی بیویوں کو مہر ادا نہیں کیے اور وہ مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، تو آپ اس رقم سے ان کے مہر ادا کر دیں۔ انہوں نے جواب لکھا کہ حضرت! یہ بھی کر چکا ہوں۔ اس پر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے چوتھا خط لکھا کہ جو زمینیں قابلِ کاشت ہیں اور ویران پڑی ہوئی ہیں، ان کی حد بندی کراؤ اور لوگوں کو زراعت کے لیے آسان قسطوں پر بطور قرض دے دو۔

یہ ہے رفاہی ریاست اور بیت المال کا تصور۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ماحول دیا تھا وہ چلتے چلتے یہاں تک پہنچا تھا۔ یہ بات میں نے کراچی میں ایک اجتماع میں بیان کی تو ایک نوجوان کھڑا ہو گیا کہ یہ صوبے کا بجٹ تھا یا اٹلانٹک سی تھا کہ صوبے کے خرچے بھی پورے ہو رہے ہیں ، تنخواہیں بھی پوری ہو رہی ہیں، مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہو رہے ہیں ، بے نکاحوں کی شادیاں بھی ہو رہی ہیں اور مہر بھی ادا ہو رہے ہیں؟ اس کا سوال یہ تھا کہ یہ صوبے کا بجٹ تھا یا کوئی سمندر تھا؟ میں نے اس سے کہا کہ بیٹا، تمہارا سوال ٹھیک ہے، لیکن ایک واقعہ اور سن لو تو اس سوال کا جواب بھی سمجھ میں آجائے گا۔

ایک دن حضرت عمر بن عبد العزیزؒ خلافت کے فرائض سرانجام دینے کے بعد شام کو گھر تشریف لائے تو راستے میں ریڑھی پر انگور دیکھے، جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب خالی تھی۔ آپؒ کی اہلیہ محترمہ فاطمہ بنت عبد الملک رحمھا اللہ بڑی اچھی خاتون تھیں، بادشاہ کی بیٹی ،بادشاہ کی بیوی ،اور بادشاہ کی بہن تھی۔ عبد الملک کی بیٹی تھی، کمانڈر انچیف مسلمہؒ کی بہن تھی ، اور ان کا بھائی ولیدؒ بھی بعد میں بادشاہ بنا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے گھر آکر اہلیہ سے کہا کہ فاطمہ! تمہارے پاس ایک آدھ درہم ہو گا؟ ضرورت پڑ گئی ہے۔ درہم ساڑھے تین ماشے چاندی کا ہوتا ہے، اس وقت دو تین سو کا ہو گا۔ امیر المؤمنین، دمشق کا حکمران کہ آدھی دنیا اس کے تابع ہے، اور بیوی سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ایک آدھ درہم بچا کر رکھا ہوا ہے؟ بیوی نے پوچھا، کیوں؟ انہوں نے بتایا کہ راستے میں ریڑھی پر انگور دیکھے ہیں، کھانے کو جی چاہتا ہے لیکن جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ ایک آدھ درہم گھر میں ہو تو انگور لے لیں۔ اہلیہ نے کہا آپ کی جیب میں نہیں ہے تو میرے پاس کہاں سے آئے گا؟ پھر اہلیہ نے بیویوں والی بات بھی کی کہ آپ امیر المومنین ہیں اور آپ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ انگور خرید سکیں۔ میں آج کی زبان میں اس کا ترجمہ یوں کرتا ہوں کہ آپ کے اتنے اختیارات بھی نہیں ہیں کہ ایک درہم کے انگور منگوا کر کھا لیں۔ آج کی اصطلاح میں اس کو ”صوابدیدی فنڈ“ کا نام دیا جاتا ہے جو ہر حاکم کا اختیار ہوتا ہے جہاں چاہے خرچ کرے۔ اس پر امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے تاریخی جواب دیا۔ فرمایا، فاطمہ! جس درہم کی تم بات کر رہی ہو، وہ درہم نہیں، آگ کا انگارہ ہے۔

میں نے اس سوال کرنے والے نوجوان سے کہا بیٹا! جس ملک کا حکمران سرکاری خزانے کو آگ کا انگارا سمجھے گا، اس کے بجٹ میں پیسے ہی پیسے ہوں گے۔ پھر مقروضوں کے قرضے بھی ادا ہوں گے، کنواروں کی شادیاں بھی ہوں گی، مہر بھی ادا ہوں گے، اور کسانوں کو قرضے بھی ملیں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ملک کا حکمران سرکاری خزانے کے روپے کو آگ کا انگارا سمجھے۔

میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ذکر کیا کہ آپ نے اعلان فرمایا تھا ’’من ترک مالاً فلورثتہ‘‘ کہ جو آدمی مال چھوڑ کر فوت ہوا، اس کا مال وارثوں کا ہے ’’ومن ترک کلاً او ضیاعاً فالیَّ وعلیَّ‘‘ جو آدمی بوجھ اور قرضہ چھوڑ کر مرا، یا بے سہارا خاندان چھوڑ کر مرا، وہ ہمارے پاس آئیں گے، ہمارے ذمے ہوں گے۔ یہ اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد ہے جس پر حضرات خلفائے راشدینؓ بالخصوص حضرت عمر بن خطابؓ اور بعد میں حضرت عمر بن عبد العزیز ؒنے عمارت تعمیر کی ہے، آج کی دنیا کے لیے بھی وہ آئیڈیل ہے۔

آج کے معروضی حقائق کیا ہیں اور آج کی دنیا میں رفاہی ریاست کا تصور کیا ہے؟ اس پر دو تین واقعات بتاتا ہوں۔ ریاست اپنی رعیت کے نادار اور معذوروں کو وظیفہ دے اور اپنی رعیت کے تمام لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرے ،اس حوالے سے آج کی دنیا میں اگر کوئی آئیڈیل اسٹیٹ ہے تو وہ برطانیہ ہے۔ امر واقعہ ہے کہ برطانیہ کا اس وقت ویلفیئر سسٹم میں مثالی نظام ہے، وہاں ناداروں کو وظیفہ ملتا ہے، بچوں کو وظیفہ ملتا ہے، معذوروں کو وظیفہ ملتا ہے، کم آمدنی والوں کو ان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے وظیفہ ملتا ہے۔ ایک پورا نظام ہے ، اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

مولانا عزیز الحق ہزاروی بنوری ٹاؤن کے فارغ ہیں اور میری بھانجی کے خاوند ہیں، برطانیہ کے شہر برنلے میں رہتے ہیں، انہوں نے ایک چرچ خریدا ہے اور اسے مدرسہ بنا کر تعلیمی کام کر رہے ہیں۔ چند سال پہلے انہوں نے مجھے بتایا کہ ماموں! اس سال ایک واقعہ ہوا کہ یہاں سردی زیادہ پڑی ہے تو ایک دن میونسپل کمیٹی کی طرف سے شہر کے ہر گھر میں ڈاک کے ذریعے بیس بیس پاؤنڈ کا چیک آیا ہے، کسی مطالبے کے بغیر ۔ اور چیک کے ساتھ ایک چٹ ہے جس پر لکھا ہے کہ اس مہینے سردی زیادہ پڑی ہے، آپ کا گیس زیادہ صرف ہوا ہو گا اور بل زیادہ آیا ہو گا، اس بل میں ہماری طرف سے یہ مدد شامل کر لیں۔ یہ چھوٹی سی جھلکی اور امر واقعہ ہے۔

جس چائلڈ الاؤنس کا آغاز حضرت عمرؓ نے کیا تھا آج بھی دنیا کی بہت سی ریاستوں میں چائلڈ الاؤنس دیا جاتا ہے۔ میں برطانیہ جس زمانے میں جایا کرتا تھا تو نو پونڈ فی ہفتہ ہر بچے کو وظیفہ ملا کرتا تھا۔ پانچ بچے ہوں تو پوری تنخواہ بن جاتی ہے۔ میں جس علاقے میں رہتا تھا وہاں بنگالی زیادہ ہیں، وہاں کا ایم پی اے بھی بنگالی ہوتا ہے، وسطی لندن کا علاقہ بنگالیوں سے بھرا ہوا ہے۔ مولانا عیسٰی منصوری میرے میزبان تھے ،ایک دن میں نے ان سے کہا بنگالی کام نہیں کرتے، سارا دن گپیں لگاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان میں سے کسی کے دس سے کم بچے نہیں ہیں، انہیں بچوں کا وظیفہ ملتا ہے جس سے سارے گھر کا گزارا ہوتا ہے۔

برطانیہ کے علاوہ کئی دیگر مغربی ممالک میں بھی چائلڈ الاؤنس ملتا ہے۔ مثلاً ڈنمارک اور برطانیہ کے ساتھ ہی شمالی یورپ کی ریاست ناروے ہے۔ ناروے میں بھی یہی سسٹم ہے بچوں، ناداروں، معذوروں، طلباء اور بے سہارا لوگوں کو گورنمنٹ وظیفے دیتی ہے۔ ناروے میں اس وقت بھی جو سوشل بینیفٹ کا سسٹم ہے اسے کہتے ہی ”عمر لاء“ ہیں اور بچوں کو ملنے والے وظیفے کو ”عمر الاؤنس“ کہتے ہیں اور وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے یہ سب حضرت عمرؓ سے لیا ہے ۔

میں یہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ وزیر آباد کے سابق ایم این اے جسٹس افتخار چیمہ ہمارے دوست ہیں، اب ان کے بھائی ڈاکٹر نثار چیمہ ایم این اے ہیں۔ انہوں نے ایک مجلس میں یہ واقعہ بیان کیا کہ ہم کیمبرج یونیورسٹی میں لاء کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو وہاں ایک عمر رسیدہ انگریز دانشور تھا، لوگ اس سے ملنے آیا کرتے تھے۔ آدمی دانشور سے ملے تو دانش کی بات ہی سنتا ہے، ایسے لوگوں سے ملتے رہنا چاہیے، کوئی کام کی بات مل جاتی ہے۔ افتخار چیمہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی شہرت سن رکھی تھی تو ہم تین چار پاکستانی ساتھی اس کے پاس گئے، تعارف کرایا اور بتایا ہم پاکستانی ہیں اور مسلمان ہیں۔ اس وقت پاکستان نیا نیا بنا تھا۔ تو وہ بہت خوش ہوا کہ تم نے اسلام کے لیے ریاست بنائی ہے۔ باتوں باتوں میں بچوں کو وظیفہ دینے کا ذکر چھڑ گیا، اس انگریز نے ہم سے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ برطانیہ میں ویلفیئر اسٹیٹ کا جو سسٹم ہے اور بچوں، بے روزگاروں اور معذوروں کو وظیفہ ملتا ہے، یہ نظام کس نے مرتب کیا تھا اور یہ قانون کس نے بنایا تھا؟ ہم نے کہا ہمیں تو معلوم نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ پارلیمنٹ کی جس کمیٹی نے یہ سارا سسٹم ڈیزائن کیا تھا اور سوشل بینی فٹس کا قانون بنایا تھا، میں اس کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے یہ سارا سسٹم کہاں سے لیا تھا؟ میں نے یہ سب جنرل عمرؓ سے لیا تھا۔ مغرب والے حضرت عمرؓ کا نام لیتے ہیں تو ان کو جنرل عمر کہتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد کی بات بھی نقل کرنا چاہتا ہوں، جو انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں بیان کی جس میں میں بھی شریک تھا۔ انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ میں ناروے گیا، وہاں بچہ پیدا ہونے پر اس کو وظیفہ ملتا ہے اس وظیفے کا نام ’’عمر الاؤنس‘‘ ہے۔ کہتے ہیں یہ نام سن کر مجھے تجسس ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نام سے الاؤنس ناروے میں، اس کا کیا مطلب؟ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ صرف عمر الاؤنس نہیں بلکہ وہاں سوشل بینی فٹس اور وظیفوں کا جو سسٹم ہے اس کو ’’عمر لاء‘‘ کہتے ہیں۔ ناروے کے دستور میں ’’عمر لاء‘‘ کا ذکر ہے۔ حضرت عمرؓ اس بنیاد پر بچوں کو وظیفہ دیتے تھے کہ خاندان میں ایک فرد کا اضافہ ہوا ہے تو بجٹ میں اضافہ ہوا ہے، تو اس کا بوجھ بیت المال برداشت کرے گا۔

میں نے ذکر کیا کہ رفاہی ریاست کیا ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کیا ماحول دیا ہے؟ یہی ماحول حضرات خلفائے راشدین کے زمانے میں ویلفیئر اسٹیٹ کا معیار بنا جسے آج تک دنیا فالو کر رہی ہے، جبکہ ہم نے اسے چھوڑ رکھا ہے۔ سوسائٹی کے نادار افراد کی کفالت اور بے سہارا لوگوں کی مدد ریاست کے ذمے ہے، یہ تصور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا، اس پر خلفائے راشدین نے ایک پورے نظام کی بنیاد کھڑی کی، لیکن آج وہ نظام ہم مسلمان ملکوں میں نہیں ہے، غیر مسلم ملکوں میں ہے۔ حضرت عمرؓ کا بیت المال کا نظام آج بھی دنیا کے لیے مثالی ہے، لیکن ہمارے لیے آئیڈیل نہیں ہے ۔ چنانچہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہو اور وہ اپنے شہریوں کے تمام حقوق بحال کر کے ایک رفاہی ریاست کا دنیا کے سامنے تصور پیش کرے۔ اللہ کرے وہ دن آئے اور ہم ایک اسلامی ریاست کے ذریعے خلفائے راشدین کے نظام کا ایک اور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔

پاکستان بنتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہو گی، لیکن کیا پاکستان وسائل کے اعتبار سے غریب ملک ہے؟ نہیں! پاکستان اپنے وسائل کے اعتبار سے دنیا کے خوشحال ترین ممالک میں سے ہے، ہمیں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر چیز عطا کی ہوئی ہے، صرف دو باتوں کی ضرورت ہے: حکمران سرکاری مال کو آگ کا انگارا سمجھیں، اور حکومت کو یہ فکر ہو کہ مقروضوں کے قرضے ادا کرنے ہیں، کنواروں کی شادیاں کرنی ہیں، خاوندوں کے مہر ادا کرنے ہیں، کسانوں کو قرضے دینے ہیں۔ حکمرانوں کا یہ مزاج ہو جائے تو پاکستان کسی سے کم بھی نہیں ہے، صرف اس رخ پر واپس جانے کی ضرورت ہے۔

2016ء سے
Flag Counter