قرآن کریم کی قرأت و سماعت کی آسانیاں اور ثواب

   
جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
۱۶ جولائی ۲۰۱۵ء

(رمضان المبارک کی انتیسویں شب کو جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تراویح کے دوران قرآن کریم کی تکمیل کے موقع پر خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عزیزم حافظ محمد حذیفہ خان سواتی کو جس نے تراویح میں قرآن کریم سنایا ہے اور سننے والے تمام نمازیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے رمضان المبارک کے دوران مسجد میں نماز کی حالت میں قرآن کریم پڑھنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ قبولیت سے نوازیں اور بار بار یہ سعادت نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

ہمارے لیے یہ دوہری خوشی کا موقع ہے کہ حافظ محمد حذیفہ خان سواتی مفسر قرآن کریم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا پوتا اور میرا نواسہ ہے، اس نے جامع مسجد نور میں پہلی بار قرآن کریم تراویح میں سنایا ہے، اور ہمارے شیخین کریمین حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ کا یہ گلشن ترقی کے منازل طے کر رہا ہے اور پھل پھول رہا ہے، اللہ رب العزت نظر بد سے محفوظ رکھیں اور اس گلشن سواتی کو ہمیشہ ترقیات و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین۔

نماز کی حالت میں قیام کے دوران قرآن کریم کریم پڑھنا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے جو ساری زندگی تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔

قرآن کریم کا نزول شروع ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ ’’قم اللیل الا قلیلا‘‘ رات کا زیادہ حصہ قیام کریں، نصف رات یا اس سے کم یا اس سے کچھ زیادہ قیام کر کے ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘ آہستہ آہستہ قرآن کریم پڑھا کریں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مطابق رات کو قیام کرتے تھے اور قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔ تقریباً ایک سال تک آپ کے صحابہ کرامؓ، اس وقت جتنے بھی تھے، رات کو قیام اور قرآن کریم کی قرأت کے اس عمل مبارک میں شریک رہتے تھے۔

ایک سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی دوسری آیت نازل کی جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ آپ رات کے دو ثلث، نصف اور ایک ثلث تک جاگتے ہیں اور ’’وطائفۃ من الذین معک‘‘ آپ کے ساتھیوں کی جماعت بھی جاگتی ہے، لیکن چونکہ کچھ لوگ بیمار ہو جاتے ہیں، کوئی سفر پر ہوتا ہے، اور کسی کو کوئی اور عذر ہوتا ہے جس کی وجہ سے سب کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے، اس لیے اب وقت کی پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ مگر ’’فاقرءوا ما تیسر من القرآن‘‘ جتنا آسان ہو اتنا ضرور پڑھ لیا کرو۔

اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تو اپنی اپنی سہولت کے مطابق مختلف معمولات بنا لیے تھے مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول زندگی بھر جاری رہا کہ نصف شب کے بعد روزانہ بیدار ہوتے اور نماز کی حالت میں کھڑے قرآن کریم پڑھتے تھے۔

تفسیر ابن کثیرؒ کی ایک روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہ وہی قیام اللیل ہے جو مدینہ منورہ میں رمضان المبارک کے دوران ہوتا تھا، اس کا آغاز مکہ مکرمہ سے ہوا تھا جو کم و بیش ایک سال تک سب کے لیے فرض رہا۔ اس وجہ سے میں یہ گزارش کیا کرتا ہوں کہ تراویح اور ان میں قرآن کریم سننے اور سنانے کے ذریعہ ہمیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنتِ مبارکہ میں شرکت کا موقع فراہم کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے احسانات میں ایک احسان عظیم ہے، جبکہ اس میں ہمیں جو سہولتیں عطا کی گئی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بہت مہربانی ہے۔ اگر ہم ان سہولتوں پر ایک نظر ڈال لیں تو احساس ہوگا کہ ہمارے ساتھ کس قدر مہربانی اور فضل کا معاملہ کیا گیا ہے:

  1. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال بلا ناغہ روزانہ رات کو نماز میں قرآن کریم پڑھتے تھے، جبکہ ہمیں پورا سال نہیں بلکہ صرف ایک ماہ اس طرح پڑھنے کے لیے کہا گیا ہے۔
  2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ رات کا تیسرا حصہ اس عبادت میں گزارتے تھے، جبکہ ہمارا یہ عمل گھنٹے سوا گھنٹے کا ہوتا ہے مگر ہم اس میں بھی سستی دکھاتے ہیں۔ بعض حضرات تو رمضان المبارک کے آغاز میں دو تین روز اس تلاش میں گزارتے ہیں کہ کہاں تراویح میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ دو سال قبل ایک صاحب نے مجھے کہا کہ فلاں جگہ حافظ صاحب اتنا تیز پڑھتے ہیں کہ فرض، وتر اور تراویح سب کچھ پچاس منٹ میں نمٹا دیتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ بس ’’نمٹا ہی دیتے ہیں!‘‘ تعجب کی بات ہے کہ یہ دس پندرہ منٹ جو ہم لوگ نماز سے بچاتے ہیں کسی اہم مصرف میں خرچ نہیں ہوتے، گلیوں بازاروں میں گھوم کر گزار دیتے ہیں، دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزر جاتے ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ گھر جا کر ٹی وی دیکھ لیتے ہیں، مگر ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ وقت ہم نے بچایا کہاں سے ہے اور خرچ کہاں پر ہو رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔
  3. تیسری سہولت یہ ملی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے کے بعد اٹھ کر یہ کام کرتے تھے مگر ہمیں یہ موقع دیا گیا ہے کہ رات کو سونے سے پہلے ہی اس عمل سے فارغ ہو جایا کریں تاکہ آدھی رات کو اٹھنے کی مشقت سے بچ جائیں۔
  4. ایک اور بڑی سہولت بھی اگر ہم محسوس کر لیں جو ہمیں ملی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود قرآن کریم پڑھا کرتے تھے، اگر ہم میں سے بھی ہر ایک پر یہ ضروری کر دیا جائے کہ نماز کی حالت میں کھڑے ہو کر قرآن کریم خود پڑھنا ہے تو ہمارا کیا حال ہو؟ ہمارے ساتھ مہربانی کا یہ معاملہ کیا گیا ہے کہ ایک صاحب آگے کھڑے ہو کر سنا دیا کریں باقی پیچھے کھڑے ہو کر سن لیں اور ثواب دونوں کا برابر ہوگا۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن کریم پڑھنے والے کو تلاوت کرنے پر ہر حرف پر کم از کم دس نیکیاں ملتی ہیں اور سننے والے کو بھی دس ہی ملتی ہیں، اس طرح پڑھنے اور سننے کا ثواب برابر ہے۔

ذرا غور کیجئے کہ کتنی سہولتوں کے ساتھ ہمیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی مشقت والی سنت میں شریک کیا گیا ہے اور کتنی بڑی نسبت عطا کی گئی ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’’ثلث لیل‘‘ رات کا ایک تہائی حصہ نماز کی حالت میں قرآن کریم پڑھتے تھے۔ آج کل گرمیوں میں ہمارے ہاں رات کم و بیش دس گھنٹے ہوتی ہے جس کا تیسرا حصہ سوا تین گھنٹے بنتا ہے، جبکہ سردیوں میں یہ رات چودہ گھنٹے تک چلی جاتی ہے اور تیسرا حصہ تقریباً ساڑھے چار گھنٹے تک بڑھ جاتا ہے۔ ام المؤمنینؓ فرماتی ہیں کہ تین تین چار چار گھنٹے کھڑے رہنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹانگیں سوج جاتی تھیں اور پاؤں مبارک پر ورم آجاتا، کبھی کبھی مدینہ منورہ کی خشک سردی میں ایڑیاں پھٹ جاتی تھیں، مگر اس عمل میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔ ہمیں کتنی سہولتیں دی گئی ہیں، ہم اس کا صحیح طور پر اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔

سہولتوں کے حوالہ سے ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ’’ان ناشئۃ اللیل ہی اشد وطئا واقوم قیلا‘‘ رات کے جاگنے سے انسان کو اپنے نفس پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے اور صاف گوئی کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔ مگر یہ جاگنا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے ہو۔ ہم بھی راتوں کو جاگتے ہیں اور خدا جانے کیا کچھ کرتے رہتے ہیں، جو جاگنا اور کھڑے ہونا اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی رضا کے لیے ہو، یہ اس کی بات ہے کہ اس سے انسان کو اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے اور صاف گوئی کا ذوق بیدار ہوتا ہے۔

  1. پہلی امتوں میں روزہ آٹھ پہر کا ہوتا تھا اور سحری کی سہولت نہیں ہوتی تھی، یہ سہولت ہمیں ملی ہے، رات کو روزے کے دورانیہ سے نکال دیا گیا ہے اور سحری کھانے کو سنت قرار دیا گیا ہے، میں اسے یوں تعبیر کرتا ہوں کہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اگر رات کو نماز کے لیے اور قرآن کریم کی تلاوت کے لیے نہیں جاگتے تو کھانے پینے کے لیے جاگ جایا کرو اور پراٹھے کھانے کے لیے ہی اٹھ جایا کرو، کسی نہ کسی بہانے رات کو جاگو تو سہی!

ان گزارشات کے ساتھ ایک بار سب دوستوں کو اس سعادت پر مبارکباد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو صحت و عافیت اور توفیق کے ساتھ بار بار رمضان المبارک نصیب فرمائیں اور قرآن کریم پڑھنے اور سننے کی نعمت سے نوازتے رہیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter