شادی اور اس کے سماجی اثرات

   
جامعہ علوم اسلامیہ، میرپور
۳ اپریل ۲۰۰۰ء

(میرپور آزاد کشمیر کی بزرگ دینی و سماجی شخصیت اور مدنی ٹرسٹ جامعہ الہدٰی (نوٹنگھم، برطانیہ) کے چیئرمین مولانا ڈاکٹر اختر الزمان غوری کی دختر کے نکاح کی باوقار تقریب ۳ اپریل ۲۰۰۰ء کو جامعہ علوم اسلامیہ میرپور کی جامع مسجد خدیجۃ الکبرٰیؓ میں عصر کی نماز کے بعد منعقد ہوئی جس میں آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب عبد المجید ملک، سابق وزیر چودھری محمد یوسف، ضلع مفتی مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی، بزرگ عالم دین مولانا عبد الغفور اور ممتاز کشمیری لیڈر چودھری فضل الٰہی تاج پوری سمیت سرکردہ معززین علاقہ، سرکاری حکام، علماء کرام اور وکلاء کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ علوم عربی و اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور خطاب کیا۔ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے خطبہ مسنونہ پڑھ کر ایجاب و قبول کرایا اور اس موقع پر نکاح کی اہمیت اور دیگر متعلقہ امور پر خطاب کیا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہ ہمارے محترم دوست اور بزرگ ساتھی مولانا ڈاکٹر اختر الزمان غوری صاحب کی بیٹی کے نکاح کی تقریب ہے جس میں شرکت اور آپ حضرات کے ساتھ ملاقات و گفتگو کا موقع فراہم کرنے پر میں محترم ڈاکٹر صاحب کا شکر گزار ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس نکاح کو میاں بیوی اور ان کے خاندانوں میں محبت اور اعتماد میں اضافے کا ذریعہ بنائیں اور باہمی محبت و اعتماد کے ساتھ نیکی کی زندگی کی توفیق دیں، آمین۔

شادی کو عام طور پر ایک سماجی ضرورت سمجھا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک طبعی ضرورت ہے اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ لیکن اسلام نے اسے صرف ضرورت کے دائرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ زندگی کے مقاصد میں شمار کیا ہے اور نیکی اور عبادت قرار دیا ہے جس سے شادی کے بارے میں اسلام کے فلسفہ اور باقی دنیا کی سوچ میں ایک بنیادی فرق سامنے آتا ہے۔ کیونکہ اگر شادی کو محض ایک ضرورت اور مجبوری سمجھا جائے تو پھر یہ ضرورت جہاں پوری ہو اور جس حد تک پوری ہو بس اسی کی کوشش کی جائے گی، لیکن اگر اس کے دائرہ کو وسعت دے کر اسے مقصد اور نیکی بھی شمار کیا جائے تو پھر اس کی حدود اور دائرہ کار کا تعین مقصد اور عبادت کے حوالہ سے ہوگا۔ اور یہی چیز اسلام کے فلسفۂ نکاح اور اس کے خاندانی نظام کے تصور کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت کہا ہے اور یہ سارے پیغمبروں کی مشترکہ سنت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام پیغمبروں نے شادی کی اور ان کی اولاد بھی ہوئی جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے کہ’’بے شک ہم نے آپؐ سے پہلے کئی رسول بھیجے اور انہیں بیویاں اور اولاد بھی عطا کی‘‘ (سورہ الرعد)۔ البتہ دو پیغمبروں کے بارے میں صراحت ہے کہ ان کی شادی نہیں ہوئی۔ ایک حضرت یحییٰ علیہ السلام جن کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ وہ ’’حصور‘‘ تھے یعنی عورت کے قریب نہ جانے والے تھے اور دوسرے حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں جن کے بارے میں احادیث میں ہے کہ ان کی شادی ابھی ہونی ہے، وہ جب دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو ان کی شادی ہوگی اور اولاد بھی ہوگی۔ اس لیے شادی حضرات انبیاء کرامؑ کی سنت ہے اور عبادت بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت کی جائے تو شادی کے ہر عمل پر جناب نبی اکرمؐ نے ثواب کی بشارت دی ہے۔ حتیٰ کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص محبت سے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے تو یہ بھی صدقہ شمار ہوگا اور اس پر اسے ثواب ملے گا۔ ’’در مختار‘‘ فقہ حنفی کی معروف کتاب ہے، اس میں لکھا ہے کہ دو عبادتیں ایسی ہیں جو تمام انبیاء کرام میں مشترک رہی ہیں اور یہ دو عبادتیں جنت میں بھی ہوں گی۔ ایک ایمان باللہ اور دوسری نکاح اور شادی۔ یعنی باقی عبادات میں تو انبیاء کرام کی شریعتوں میں فرق رہا ہے کہ نماز، روزہ، صدقہ وغیرہ کی کیفیات مختلف رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کا ذکر اور نکاح یہ دو عمل ایسے ہیں جو تمام انبیاء کرام میں یکساں رہے ہیں اور جنت میں بھی ہوں گے۔

اسلام کی نظر میں شادی انسانی ضرورت بھی ہے، اس کی زندگی کا مقصد بھی ہے، عبادت بھی ہے اور ایک مسلمان کے ایمان اور اخلاق و عادات کی حفاظت کے لیے مضبوط حصار بھی ہے جسے قرآن کریم نے احصان کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ’’حصن‘‘ عربی زبان میں قلعہ کو کہتے ہیں اور ’’احصان‘‘ کا معنی قلعہ بنانا اور قلعہ بندی کرنا ہے۔ گویا ایک مسلمان جب شادی کر کے گھر آباد کرتا ہے تو وہ ایک نیا قلعہ تعمیر کرتا ہے جو اس کے ایمان، اخلاق اور عادات کی حفاظت کرتا ہے اور اس باطنی تحفظ کے ساتھ ساتھ اسے لوگوں کی نگاہوں، باتوں اور شکوک و شبہات سے بھی تحفظ مل جاتا ہے اور شادی اس کے لیے بہت سی ظاہری اور باطنی تحفظات کا قلعہ بن جاتی ہے۔ پھر قرآن کریم نے ایک اور بہت خوبصورت اشارہ کیا ہے کہ اس حوالہ سے جہاں مردوں کا ذکر کیا وہاں فرمایا ’’محصنین‘‘ جو فاعل کا صیغہ ہے جس کا معنٰی ہے قلعہ بنانے والے، اور جہاں عورتوں کا تذکرہ فرمایا وہاں کہا ’’محصنات‘‘ جو مفعول کا صیغہ ہے جس کا معنٰی ہے وہ چیزیں جنہیں قلعے کے اندر رکھ کر ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ گویا قلعہ بنانے والا اور اس پر پہرہ دینے والا مرد ہے۔ اور وہ متاع عزیز جس کی حفاظت کے لیے قلعہ بنایا گیا ہے اور جس کو اس چار دیواری کے اندر رکھ کر اس کی حفاظت مقصود ہے وہ عورت ہے۔

اسی ایک لفظ سے خاندانی نظام کے اسلامی فلسفہ کی وضاحت ہو جاتی ہے اور خاندانی نظام کے حوالہ سے آج کی دنیا کو درپیش صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو اسلام کے اس ’’فلسفہ احصان‘‘ کی اہمیت اور زیادہ اجاگر ہوتی ہے۔ کیونکہ آج مغربی دنیا کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ خاندانی نظام کے بکھر جانے اور فیملی سسٹم کے ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہو جانے کا ہے جس نے پوری مغربی دنیا کو پریشان کر رکھا ہے۔ اور یہ نتیجہ ہے اس سوچ کا کہ شادی محض ایک سماجی ضرورت ہے، اس لیے جس کی یہ ضرورت جہاں اور جس حد تک پوری ہو جاتی ہے اسے اس سے زیادہ اس حوالہ سے کسی اور بات سے دلچسپی نہیں رہ جاتی۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں شادی مقصد ہے، عبادت ہے اور مذہبی فرائض میں سے ہے جس کے لیے مذہب کے واضح احکام ہیں، رشتوں کا تقدس ہے اور باہمی حقوق و مفادات کا ایک متوازن نظام ہے جس نے مرد و عورت کے تعلقات کے گرد تحفظات کا ایک مضبوط حصار قائم کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا خاندانی نظام ابھی تک بحمد اللہ تعالیٰ محفوظ ہے اور اس قلعہ میں شگاف ڈالنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔ حتیٰ کہ امریکہ کی خاتون اول مسز ہیلری کلنٹن چند برس قبل جب اسلام آباد کے دورے پر آئیں تو ان کی طرف سے اخبارات میں ایک تبصرہ شائع ہوا کہ انہیں مشرق کا خاندانی نظام دیکھ کر رشک آتا ہے۔ یہی وہ قلعہ بندی ہے جسے قرآن کریم نے ’’احصان‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اسی بات کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جس نے شادی کی اس نے اپنے نصف دین کو مکمل کر لیا اور اب اسے باقی نصف دین کی فکر کرنی چاہیے۔‘‘

اس موقع پر ایک دلچسپ تاریخی واقعہ ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شادی کا سماج پر کیا اثر ہوتا ہے اور معاشرتی زندگی کے ساتھ شادی اور نکاح کا کیا تعلق ہے۔ بعض شادیاں ایسی ہوتی ہیں جو سوسائٹی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں حتیٰ کہ بسا اوقات ایک شادی پوری سوسائٹی میں انقلاب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اسی قسم کی ایک شادی کا تذکرہ گزشتہ دنوں تاریخ کی ایک کتاب میں نظر سے گزرا کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جب خلافت سنبھالنے کے بعد مقتدر طبقہ کے افراد اور شاہی خاندان کے لوگوں سے بیت المال اور قومی خزانے کے اثاثے اور رقوم واپس لینے کا فیصلہ کیا تو ہر طرف کھلبلی مچ گئی۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ اس وقت بیت المال یعنی قومی خزانے کے اسی فیصد اثاثے اور اموال شاہی خاندان اور وی آئی پی لوگوں کے قبضے میں تھے جنہیں واپس لینے کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے سب سے پہلے اپنے گھر سے آغاز کیا۔ باغ فدک ان کے قبضہ میں تھا اسے واپس کیا، گھر آکر بیوی کے زیور اتروائے اور بیت المال کو بھجوا دیے، اپنی سواری کے لیے شاہی گھوڑوں کا دستہ واپس کر دیا اور اس کے بعد حکمران خاندان کا اجلاس طلب کر کے انہیں الٹی میٹم دیا کہ دو ہفتے کے اندر اندر بیت المال کے تمام اثاثے اور اموال قومی خزانے میں واپس کر دیے جائیں۔ چنانچہ انہیں سب کچھ واپس کرنا پڑا اور مؤرخین کے مطابق دو ہفتے کے اندر قومی خزانے کے تمام اموال پھر سے بیت المال میں جمع ہوگئے۔ اس پر خاندانِ خلافت میں خاصی ناراضگی کا اظہار کیا گیا حتیٰ کہ مسلمہ بن عبد الملکؒ کو جو سالار افواج تھے اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے برادر نسبتی بھی تھے ان سے گفت و شنید کے لیے بھیجا گیا۔ انہوں نے امیر المؤمنین سے سوال کیا کہ جو فیصلے ان سے پہلے خلفاء نے کیے ہیں انہیں وہ کیوں منسوخ کر رہے ہیں؟ مطلب یہ تھا کہ جو عطیات سابقہ حکمرانوں نے دیے ہیں انہیں واپس لینے کا انہیں اختیار نہیں ہے۔ اس پر امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے مسلمہ بن عبد الملکؒ سے دو سوال کیے:

  • ایک یہ کہ اگر کسی ایک مسئلہ پر تمہارے پاس دو الگ الگ حکم ہوں، ایک حکم تمہارے والد محترم خلیفہ عبد الملک بن مروان کا ہو اور دوسرا حکم خلافت بنو امیہ کے بانی حضرت امیر معاویہؓ کا ہو جو اس سے مختلف ہو تو تم کس کے حکم کو ترجیح دو گے؟ مسلمہؒ نے جواب دیا کہ حضرت معاویہؓ کے حکم کو ترجیح دوں گا کیونکہ وہ پہلے کا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کہا کہ میرے پاس ان سے بھی پہلے کا آرڈر موجود ہے جو قرآن کریم کا ہے اور میں اسے ترجیح دے رہا ہوں۔
  • انہوں نے مسلمہ سے دوسرا سوال یہ کیا کہ اگر تمہارے علم میں ہو کہ ایک شخص فوت ہوگیا ہے اور اس کی جائیداد پر اس کے چند طاقتور بیٹوں نے قبضہ کر لیا ہے جس سے دوسرے مستحقین افراد وراثت کے حق سے محروم ہوگئے ہیں۔ اور پھر کسی وقت تمہیں یہ اختیار حاصل ہو جائے کہ تم ان محروم مستحقین کو ان کا حق واپس دلا سکو تو تم کیا کرو گے؟ مسلمہ نے جواب دیا کہ میں اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مستحق افراد کو ان کا حق ضرور دلاؤں گا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا کہ میں نے بھی اس سے مختلف کام نہیں کیا۔

اس پر مسلمہ کو خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ خاندان والوں نے جب دیکھا کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ پر ان کی کوئی بات اثر نہیں کر رہی تو باہمی مشورہ کر کے خاندان کی اس وقت کی سب سے بزرگ شخصیت فاطمہ بنت مروانؒ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی پھوپھی تھیں اور اس وقت خاندان کی سب سے معمر خاتون تھیں۔ ان حضرات کا خیال تھا کہ پھوپھی محترمہ کے کہنے پر عمر بن عبد العزیزؒ اس معاملہ میں شاید نرمی اختیار کر لیں۔ لیکن جب پھوپھی محترمہ نے عمر بن عبد العزیزؒ کو بلا کر خاندان والوں کی شکایت سے آگاہ کیا اور کچھ نرمی کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے اپنے موقف اور پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے انہیں بھی خاموش کرا دیا۔ اس پر فاطمہ بنت مروانؒ نے خاندان والوں سے کہا کہ میں نے تو اس وقت ہی کہہ دیا تھا جب اس کے باپ یعنی عبد العزیز بن مروانؒ کا رشتہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی پوتی سے کیا جا رہا تھا کہ یہ رشتہ سوچ سمجھ کر کرنا شاید تم سے نہ نبھ سکے لیکن کسی نے میری بات پر کان نہ دھرے اور آج اسی کے اثرات سب کے سامنے آرہے ہیں اس لیے میں عمر بن عبد العزیزؒ سے اس سے زیادہ اب کچھ نہیں کہہ سکتی۔

یہ رشتہ بھی عجیب تھا، معروف تاریخی واقعہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایک رات مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر کے اندر سے ماں اور بیٹی کی گفتگو سنائی دی۔ ماں اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ دودھ میں تھوڑا سا پانی ڈال دو تاکہ بازار میں فروخت ہو تو چار پیسے زیادہ مل جائیں۔ بیٹی نے جواب دیا کہ امیر المؤمنینؓ نے سختی کے ساتھ اس سے منع کر رکھا ہے۔ ماں نے کہا کہ امیر المؤمنین کون سا اس وقت ہماری بات سن رہے ہیں۔ بیٹی نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین نہیں سن رہے مگر اللہ تعالیٰ تو ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہماری باتیں سن بھی رہا ہے اس لیے میں دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی۔ حضرت عمرؓ گھر واپس تشریف لے گئے، صبح ماں بیٹی دونوں کو بلا لیا اور رات کے قصے کے بارے میں دریافت کیا، دونوں نے تصدیق کی تو حضرت عمرؓ نے اس نیک دل اور دیانت دار بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے حضرت عاصم بن عمرؓ کے لیے مانگ لیا جو طے ہوگیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی والدہ محترمہ انہی حضرت عاصمؒ اور ان کی اس نیک دل اہلیہ کی بیٹی تھیں اور فاطمہ بن مروانؒ نے اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس نے رشتہ کرتے وقت کہہ دیا تھا کہ عمر بن الخطابؓ کی پوتی کو گھر میں لا کر اس کے اثرات بھی قبول کرنا ہوں گے اس لیے اب ان کے اقدامات پر شکایات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ سوسائٹی پر شادیوں کے اثرات کیا ہوتے ہیں اور بعض شادیاں کس طرح بڑی بڑی معاشرتی تبدیلیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اگر اپنی شادیوں میں مقصدیت اور نیکی کے پہلوؤں کو غالب کریں گے اور عبادت و ثواب سمجھ کر ان کے تقاضوں کی تکمیل کریں گے تو ہمیں ان کی برکات بھی نصیب ہوں گی اور شادی کے جو فوائد اسلام نے بیان کیے ہیں وہ بھی ہمیں ضرور حاصل ہوں گے۔

مگر ہم نے تو شادی کو خرافات کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا ہے اور شادی کی تقریبات میں اس قدر تکلفات و خرافات کو جمع کر لیا ہے کہ بسا اوقات ایسی تقریبات میں خطبہ اور ایجاب و قبول کی سنت کا بجا لانا بھی ماحول کے پس منظر میں اجنبی سا کام محسوس ہونے لگتا ہے۔ مجھے تو شادی کی ایسی تقریبات سے وحشت ہونے لگی ہے اور اکثر و بیشتر شادیوں میں شرکت سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیتا ہوں کہ وہاں جا کر عجیب سی اجنبیت ذہن پر سوار ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹر اختر الزمان غوری صاحب نے اپنی سعادت مند بیٹی کے نکاح پر مسجد میں یہ باوقار اور سادہ سی جو تقریب منعقد کی ہے اسے دیکھ کر واقعتاً بہت خوشی ہوئی ہے اور میں اس پر ڈاکٹر صاحب بلکہ دونوں خاندانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس شادی کو میاں بیوی اور دونوں خاندانوں میں باہمی محبت اور اعتماد میں دن بدن اضافے کا ذریعہ بنائیں اور ہم سب کو خوشی کی ایسی تقریبات اسی طرح وقار اور سادگی کے ساتھ نیکی اور برکت کے ماحول میں منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter