ڈنمارک میں توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت اور مسلمانوں کا ردِ عمل

   
۶ فروری ۲۰۰۶ء

ڈنمارک، فرانس اور جرمنی کے اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالی کارٹونوں کی اشاعت پر مسلمانوں کا غم و غصہ اور احتجاج عالمی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی ڈنمارک کے سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے اس پر باضابطہ احتجاج کیا ہے اور اس سے قبل سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک نے اس کا سخت نوٹس لیا ہے جبکہ عرب ممالک میں ڈنمارک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم نے بھی اس احتجاج میں شدت پیدا کر دی ہے۔ پاکستان میں متحدہ مجلس عمل کی اپیل پر جمعہ کے روز احتجاج کیا گیا او رخطبات جمعہ میں توہین رسالت کے اس قبیح جرم پر ملک گیر احتجاج کے علاوہ بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت مسلمانوں کے ایمان کی علامت بلکہ اس کی بنیاد ہے جس کے بغیر کوئی مسلمان خود کو مسلمان تصور ہی نہیں کر سکتا۔ خود جناب رسول اللہؐ نے ایک ارشاد گرامی میں فرمایا ہے کہ جس شخص کو اپنی ذات، خاندان اور دنیا بھر سے زیادہ محبت آنحضرتؐ کے ساتھ نہیں ہے اسے مسلمان کہلانے کا سرے سے حق ہی حاصل نہیں ہے۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ مسلمانوں کی یہ محبت و عقیدت ایسا نازک اور حساس مسئلہ ہے کہ اس کی حساسیت اور نزاکت میں کسی دور میں بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ آج کے دور میں جبکہ مسلمان عملی اعتبار سے انتہائی کمزور اور کردار و اخلاق کے حوالے سے اسلامی احکامات اور نبوی تعلیمات سے خاصا بعد رکھتے ہیں مگر عشق رسولؐ کے معاملے میں ان کی حساسیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آرہی۔ یہی بات مغرب کے ان دانشوروں کے لیے پریشانی اور الجھن کا باعث بنی ہوئی ہے جو آج کے مسلمانوں کو قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات سے دور رکھنے کے خواہش مند ہیں اور جن کا خیال ہے کہ قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات دنیا کے کسی خطے کے مسلم معاشرے میں عملی طور پر جاری و نافذ ہوگئیں تو وہ مغربی فلسفہ و تہذیب کے لیے حقیقی خطرہ ثابت ہوں گی اور فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی دنیا میں مغرب کے فلسفہ و نظام کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

چنانچہ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے گزشتہ دنوں امریکی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جس لہجے میں بنیاد پرست اسلام کو دنیا کے ہر حصے میں پوری قوت کے ساتھ روکنے کا اعلان کیا ہے اس کا پس منظر بھی یہی ہے۔ ہمارے بعض دانشور موجودہ دنیا میں فکر و تہذیب کی کشمکش سے جتنی چاہے آنکھیں بند کرلیں اور اپنے دلوں کو جو بھی کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرلیں، صدر بش کا یہ اعلان اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مغرب اس وقت عالمی سطح پر اسلام کے خلاف تہذیبی و فکری جنگ لڑ رہا ہے۔ اس نے بجا طور پر یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر اس جنگ میں وہ طاقت اور سازش کے ذریعے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے بے دخل نہ کر سکا تو یہ مغربی فلسفہ و تہذیب کی واضح شکست ہوگی اور عالمگیر انسانی معاشرے کی فکری و تہذیبی قیادت اسلام کے ہاتھ میں آجائے گی۔

مغرب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کی تہذیب اور فلسفہ کا حقیقی مقابل صرف اسلام ہے مگر مغرب اسلام کے خلاف فکری جنگ علم و دانش، فکر و فلسفہ اور صحت مندانہ مقابلے کے فطری طریقوں سے لڑنے کی بجائے طاقت، دھاندلی، دھونس اور ہتھیاروں کی زبان استعمال کر رہا ہے۔ صدر بش کا یہ اعلان ہی علمی و فکری میدان میں مغربی فکر و فلسفہ کی شکست خوردہ ذہنیت کی واضح علامت ہے کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کی عملداری قائم نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ایک خالص اسلامی معاشرے میں جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کے مسلمہ معیار کے مطابق وہاں کی آبادی کی غالب اکثریت قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات کو اجتماعی زندگی اور قومی معاشرت کی بنیاد بناتی ہے تو صدر بش کے لیے کسی سطح پر کوئی جواز نہیں بنتا کہ وہ اس معاشرے کی اکثریت کو اپنے اس حق کے استعمال سے روک سکیں لیکن اس کے باوجود وہ اس بات پر مصر ہیں اور ان کے پاس اس کے لیے صرف طاقت اور دھونس کی زبان ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات کے نفاذ کا ہر قیمت پر اور بزور قوت راستہ روکنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

مغرب اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں اور کسی بھی مسلم معاشرے میں خلافت راشدہ کے سنہری اصولوں کے مطابق عام مسلمانوں کی رائے کے ساتھ ایک شعوری اور نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہو جاتی ہے او رخلافت راشدہ ہی کی طرز پر رفاہی ریاست کا کوئی عملی نقشہ سامنے آجاتا ہے تو مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اس کا سامنا نہیں کر پائے گا۔ لیکن مغرب کے سامنے اس فکری اور ثقافتی جنگ میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے، جس نے اسے کنفیوژن بلکہ جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رکھا ہے، کہ اسلام کی جن بنیادی تعلیمات کا وہ عالمگیر انسانی معاشرے میں راستہ روکنا چاہتا ہے وہ قرآن و سنت کی صورت میں اصل حالت میں موجود و محفوظ ہیں، ان کی تعلیم کا نظام قائم ہے اور عام مسلمان کو قرآن کریم کے احکام، جناب نبی اکرمؐ کے حالات زندگی اور تعلیمات تک رسائی حاصل ہے۔ اور اس سے کہیں بڑی بات یہ ہے کہ قرآن کریم اور جناب رسول اللہؐ کی ذات گرامی کے ساتھ ایک عام مسلمان کی محبت اور کمٹمنٹ پوری قوت اور شدت کے ساتھ موجود ہے۔

یہ عام مشاہدے اور تجربے کی بات ہے کہ کوئی مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو وہ قرآن کریم کی بے حرمتی برداشت نہیں کرے گا۔ وہ قرآن کریم کی زبان سے واقف نہ ہو، اس کی تعلیمات سے بے خبر ہو، اس کی تلاوت بھی اگرچہ اس کے بس میں نہ ہو لیکن وہ اس کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کرے گا اور کوئی بھی شخص اس کے سامنے قرآن کریم کی کسی بات کو جھٹلانے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ یہ ایک ایسی کمٹمنٹ ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو میسر نہیں جبکہ عام مسلمان اس بات پر آج بھی پوری قوت کے ساتھ قائم ہے۔ یہی محبت و عقیدت ایک عام مسلمان کی جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ بھی ہے۔ وہ اپنی جان دے دے گا لیکن نہ حضورؐ کی کسی بھی درجے میں گستاخی برداشت کرے گا اور نہ ہی آپؐ کے کسی ارشاد گرامی کے جھٹلائے جانے کو گوارا کرے گا۔

مغرب یہ سمجھتا ہے کہ قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ کی ذات گرامی کے ساتھ ایک عام مسلمان کی اس درجہ محبت و عقیدت اور کمٹمنٹ کی موجودگی میں مسلمان سوسائٹی کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے لاتعلق نہیں کیا جا سکتا اور مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات و احکام کی عملداری سے دستبردار کرانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کو مذہبی رواداری، برداشت اور تحمل کے خوبصورت عنوانوں کے ساتھ آج کل جو سبق پڑھایا جا رہا ہے اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اور آنحضرتؐ کے ساتھ عام مسلمان کی اس درجہ کی بے لچک کمٹمنٹ کو کمزور کیا جائے کیونکہ وہ ان دونوں کے ارشادات اور تعلیمات کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس بات پر مرمٹنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

خود مغرب اپنے ذہن سے وحی اور پیغمبر دونوں کو اتار چکا ہے۔ اس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کہ مغرب کے پاس نہ وحی اصل حالت میں موجود ہے اور نہ پیغمبروں کے حالات و تعلیمات کا کوئی مستند ذخیرہ اسے میسر ہے۔ اس لیے اس نے سرے سے ان دونوں سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ اور اب وہ مسلمانوں سے یہ توقع بلکہ پرزور مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ بھی وحی اور پیغمبر کو اپنے ذہنوں سے اتار دیں اور اپنے جذبات و احساسات کے دائرے میں انہیں کوئی جگہ نہ دیں۔ لیکن مغرب یہ توقع اور مطالبہ کرتے ہوئے یہ معروضی حقیقت بھول جاتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس یہ دونوں چیزیں اصلی حالت میں موجود و محفوظ ہیں۔ قرآن کریم بھی اصل حالت میں موجود ہے اور جناب رسول اکرمؐ کے حالات زندگی، تعلیمات اور ارشادات بھی پورے استناد اور تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کے پاس موجود ہیں جو صرف لائبریریوں کی زینت نہیں بلکہ پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں، لکھی جاتی ہیں، شائع ہوتی ہیں اور دنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمان ان دونوں یا ان میں سے ایک سے محروم نہیں ہیں۔ اس لیے مسلمانوں سے مغرب کی یہ توقع اور مطالبہ کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دست بردار ہو جائیں ایک سراب کے پیچھے بھاگنے کے سوا کوئی معنٰی نہیں رکھتا۔

ہمارے نزدیک وقفے وقفے سے توہین رسالت کے یہ مذموم واقعات اسی فکری اور تہذیبی جنگ کا ایک حصہ ہیں اور ان کے ذریعے مغرب مسلمانوں کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت کو وقتاً فوقتاً جانچتا رہتا ہے، اور یہ اب کی بات نہیں بلکہ صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی مسلمانوں کو قرآن کریم اور جناب رسول اللہؐ کے ساتھ ان کی محبت و عقیدت اور کمٹمنٹ کے حوالے سے پرکھا گیا، دنیا نے مسلمانوں کو ہر دور میں بیدا رپایا ہے۔ آج بھی بحمد اللہ مسلمان بیدار ہے اور مستقبل میں بھی دنیا کبھی مسلمانوں کو اس حوالے سے غافل نہیں پائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter