پاک فوج صومالیہ کے بعد اب عراق میں

   
۱۴ جولائی ۲۰۰۳ء

عراق میں پاکستانی فوج بھیجنے کے حوالے سے اخبارات میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور جوں جوں عراق میں امریکی فوجیوں پر حملوں اور ان کی لاشوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، وہاں پاکستانی فوج بھیجنے کی ضرورت و اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اور ہمارے حکمرانوں کے انداز سے لگتا ہے کہ صومالیہ کی طرح عراق میں بھی امریکی فوجیوں کی ڈھال کے طور پر پاک فوج کے جوانوں کو تعینات کرنے کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے اور اب صرف تفصیلات طے ہونے کا انتظار ہے۔

  • جہاں تک ملک کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے، افغانستان کی طرح عراق کے بارے میں بھی کسی روز ان کے لیڈروں کو بلا کر یہ بتا دیا جائے گا کہ یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے، ہمارے سیاسی لیڈر تھوڑا بہت رسمی احتجاج کرنے کے بعد باہر آکر پریس کانفرنس کریں گے، ایک دو روز اخبارات میں ان کے بیانات چھپیں گے اور اس کے بعد ’’اللہ اللہ خیر صلا‘‘، زندگی کی گاڑی حسب معمول رواں دواں ہوجائے گی۔
  • البتہ گزشتہ دنوں ایک قومی اخبار میں یورپی دفاعی ذرائع کے حوالہ سے یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور خلیجی تعاون کونسل نے مسلمان ممالک کی جانب سے عراق میں فوج بھیجنے کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
  • جبکہ واشنگٹن اور لندن پاکستان کے اس سوال کا تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے ہیں کہ عراق میں پاکستانی فوج کے اخراجات کون برداشت کرے گا جو دو بریگیڈ فوج بھیجنے کی صورت میں ہتھیاروں اور گولہ بارود کے علاوہ تقریباً ۹ کروڑ روپے ماہانہ تک ہو سکتے ہیں۔
  • ادھر فرانس نے امریکہ کی یہ تجویز مسترد کر دی ہے کہ جن ممالک نے عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی ہے، وہ عراق میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے فوج بھیجیں۔ چنانچہ فرانسیسی وزیر خارجہ نے واضح کر دیا ہے کہ چونکہ عراق کے خلاف فوجی کارروائی اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر کی گئی ہے، اس لیے وہاں فوج نہیں بھیجی جا سکتی۔
  • اسی نوعیت کی بات او آئی سی کی طرف سے بھی سامنے آئی ہے اور بعض مسلم ممالک نے کہا ہے کہ اگر مسلمان ممالک کی فوج عراق میں بھیجی جائے تو اسے امریکہ یا برطانیہ کی کمان میں کام کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کی کمان کے تحت ہونا چاہیے۔

لیکن اس سب کچھ سے قطع نظر ہمارے قومی ذرائع ابلاغ اور آزاد خیال دانشور مسلسل اس مہم میں مصروف ہیں کہ اگر عراق میں تھوڑی سی فوج بھیج کر ہمیں امریکہ کو خوش کرنے اور چار پیسے کمانے کا موقع مل رہا ہے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے اور جس قدر جلد ممکن ہو، عراق میں فوج بھیجنے کے انتظامات کرنے چاہئیں۔

عراق میں جا کر ہماری فوج کیا کرے گی؟ صومالیہ کے تجربہ کے بعد اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے فوجی جوان جنہیں ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے ماٹو کے تحت جنگی تربیت دی گئی ہے، امریکی فوج کا ہراول دستہ ہوں گے اور امریکیوں کو بچانے کے لیے ان عراقی حریت پسندوں کے خلاف لڑیں گے جنہوں نے اپنے ملک پر امریکہ اور برطانیہ کے جارحانہ قبضے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے آزادی کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ ہم اس سے قبل بھی اس تجربے سے گزر چکے ہیں اور اب سے پون صدی قبل جب عرب ممالک کو ترکی کی خلافت عثمانیہ سے ’’آزاد‘‘ کرانے کے لیے برطانیہ کو فوجی جوانوں کی ضرورت تھی تو ہم نے ہی برطانوی فوج کو وسیع پیمانے پر بھرتی دے کر مشرق وسطیٰ روانہ کیا تھا۔ اس وقت بھی علمائے کرام اور قوم پرست سیاستدانوں نے انگریزی فوج میں بھرتی کی مخالفت کی تھی اور پانچ سو سرکردہ علمائے کرام کا وہ تاریخی فتویٰ اس موقع پر سامنے آیا تھا کہ انگریزی فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے۔ اس فتویٰ کی پاداش میں خالق دینا ہال کراچی کا بغاوت کیس اور مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا ابو الکلام آزادؒ اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور سزاؤں کے مراحل بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں، لیکن اس فتویٰ کی پروا کیے بغیر برطانوی فوج کو بھرتی دی گئی۔

فتویٰ دینے والوں کا موقف یہ تھا کہ یہ فوج مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگی، خلافت کے خلاف استعمال ہوگی اور مقامات مقدسہ کے خلاف استعمال ہوگی، اس لیے مسلمانوں کو دینی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں بھرتی نہیں ہونا چاہیے، لیکن اس وقت بھی یہ کہا گیا کہ یہ سرکار کو خوش کرنے اور چار پیسے کمانے کا موقع ہے اور جب بھی ایسا کوئی موقع آتا ہے، مولوی خواہ مخواہ درمیان میں ٹانگ اڑا دیتا ہے۔ چنانچہ مولوی کی ٹانگ جھٹک دی گئی اور ہمارے ہزاروں بھائی برطانوی فوج میں بھرتی ہو کر اسی عراق، شام اور حجاز میں ترکوں کے خلاف لڑے اور مشرق وسطیٰ میں برطانوی اقتدار کو مستحکم کرنے اور خلافت عثمانیہ کا بوریا بستر سمیٹنے میں انہوں نے ہراول دستہ کا کردار ادا کیا۔ کوئی پرانی عمر کا ریٹائرڈ فوجی جو اس دور میں مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں فوجی خدمات کے لیے گیا ہو، آپ کے علاقے میں ہو تو آپ اس سے خود پوچھ سکتے ہیں کہ وہ کس شہر میں گیا تھا اور کس کے خلاف اس نے جنگ لڑی تھی۔ اسی عراق پر اس زمانے میں برطانیہ نے تسلط جمایا تھا جس کے لیے ہمارے بازو استعمال ہوئے تھے، اور آج امریکہ اور برطانیہ دوبارہ اس پر قابض ہوئے ہیں تو اپنے قبضہ کو برقرار رکھنے کے لیے وہ پھر ہمارے بازوؤں کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔

اس لیے جہاں تک ارباب حل و عقد کا تعلق ہے، ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ یہ سب کچھ کر گزریں گے، ان کے لیے یہ مسئلہ مشکل نہیں ہے۔ وہ اس کے عادی ہیں اور ان کی تربیت ہی اس انداز میں ہوئی ہے کہ وہ ایسے مراحل سے آسانی سے گزر جاتے ہیں، حتیٰ کہ ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ مرحوم آغا شورش کاشمیری نے ایک بار ہفتہ روزہ ’’چٹان‘‘ لاہور میں ان تعویذوں کی داستان شائع کی تھی جو اس دور میں مشرق وسطیٰ جانے والے سپاہیوں کو اس مقصد کے لیے دیے گئے تھے کہ اگر انہیں برطانوی فوج کے حکم پر سرکار کی وفاداری میں خانہ کعبہ اور بغداد میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے مزار پر گولی چلانا پڑی تو ان تعویذوں کی برکت سے وہ اس کے منفی اثرات سے محفوظ رہیں گے۔

باقی رہی بات عراق کے عوام اور عراقی قوم کی تو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لیے یہ بات قابل اطمینان ہے کہ افغانوں کی طرح عراقیوں نے بھی امریکی جارحیت کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی آزادی سے دستبرداری اختیار نہیں کی۔ ننگی طاقت کے سامنے وقتی طور پر بے بس ہو جانا اور چیز ہے اور حملہ آور کی جارحیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی آزادی اور خودمختاری سے دستبردار ہو جانا اس سے بالکل مختلف بات ہے۔ زندہ قومیں میدان میں شکست کھا لیا کرتی ہیں، لیکن آزادی اور خودمختاری کے حق سے دستبرداری قبول نہیں کیا کرتیں۔ خود ہمارے ہاں سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی شکست و شہادت کے بعد یہ بات تقریباً طے تھی کہ اب برصغیر میں کافی مدت تک انگریزوں کی حکومت رہے گی، لیکن اس کے باوجود ہمارے بزرگوں نے دستبرداری قبول نہیں کی تھی اور شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے انگریزی اقتدار کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمت جاری رکھنے کا دوٹوک اعلان کیا تھا جو ڈیڑھ سو سال کی طویل جنگ آزادی کی بنیاد بنا اور بالآخر برطانیہ کو اس خطہ سے دستبردار ہو کر واپس جانا پڑا۔

ہمیں معلوم ہے کہ آزادی اور حریت کا یہ راستہ بہت کٹھن ہے اور اس میں دوچار نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ سخت مقام آتے ہیں لیکن اپنے عزم اور ہدف پر قائم رہنے والی قومیں عزم اور حوصلہ کی بدولت بالآخر آزادی کی اس جنگ میں جلد یا بدیر ضرور کامیاب ہوں گی اور آزادی کی منزل سے ہم کنار ہو کر رہیں گی۔ البتہ ان کے خلاف جارح حملہ آوروں اور غاصبوں کا دست و بازو بننے والوں کو ضرور یہ سوچ لینا چاہیے کہ تاریخ میں ان کا مقام کیا ہوگا اور آنے والی نسلیں انہیں کن الفاظ سے یاد کیا کریں گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter