اکیسویں صدی کے تقاضے

   
۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء

نئی عیسوی صدی کی آمد آمد ہے اور اگرچہ اہلِ مغرب اور چین کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہو گیا ہے کہ نئی صدی کا آغاز ۲۰۰۰ء سے ہو گا یا ۲۰۰۱ء سے اکیسویں صدی شروع ہو گی؟ کیونکہ اہلِ چین نے نئی صدی کی تقریبات ۲۰۰۱ء سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر اہلِ مغرب اس کا آغاز ۲۰۰۰ء سے کر رہے ہیں اور اس کے لیے زور و شور کے ساتھ تیاریاں جاری ہیں اور تقریبات کا ہر جگہ اہتمام کیا جا رہا ہے۔

اس صدی کا حساب سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت سے ہوتا ہے، اس حساب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر شمسی سن کے لحاظ سے دو ہزار سال کے لگ بھگ ہو گئی ہے، اور اس طرح وہ نسلِ انسانی کے سب سے لمبی عمر والی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر حضرت نوح علیہ السلام کو سب سے طویل عمر والا انسان سمجھا جاتا ہے اور کسی کی لمبی عمر کا حوالہ عمرِ نوح سے دیا جاتا ہے، مگر یہ بات اہلِ اسلام کے عقائد کے مطابق درست نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک فوت نہیں ہوئے اور وہ اپنی دنیاوی زندگی کے ساتھ آسمان پر زندہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے اس وقت زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا جب یہودیوں نے انہیں قتل کرنا چاہا، اور وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ حضرت عیسیٰ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں نازل ہوں گے، حضرت مہدیؒ کے ساتھ مل کر خلافتِ اسلامیہ کی بنیاد رکھیں گے، ان کی شادی ہو گی، بچے ہوں گے اور اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہو گی اور وہ جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ روضۂ اطہر میں مدفون ہوں گے۔ جہاں جناب نبی اکرمؐ، حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی قبروں کے ساتھ چوتھی قبر کی جگہ آج بھی خالی ہے، اور وہی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کے لیے مخصوص ہے۔ اس لیے ہمارے عقیدہ کے مطابق سب سے لمبی عمر کے انسان حضرت نوح علیہ السلام نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جن کی عمر اب دو ہزار سال ہو رہی ہے۔

اکیسویں صدی کے حوالے سے اس بات کا بہت غلغلہ ہے کہ ہم نئی صدی میں کس ماحول اور کس انداز میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں ایک صدی پیچھے جانا ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم نے بحیثیت امتِ مسلمہ بیسویں صدی عیسوی کا آغاز کیسے کیا تھا اور اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں کیا فرق ہے؟ اس کے بعد ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ ہم مسلمان کی حیثیت سے اکیسویں صدی میں کس فضا میں داخل ہو رہے ہیں؟

گزرنے والی صدی کا آغاز اس فضا اور ماحول میں ہوا تھا کہ عالمِ اسلام کے بہت سے ممالک مغربی استعمار کے غلام تھے۔ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال نے بہت سے مسلمان ملکوں کو اپنی نوآبادی بنا رکھا تھا۔ خود ہمارا خطہ جسے جنوبی ایشیا کہا جاتا ہے اور جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما شامل ہیں برطانیہ کا غلام تھا اور ملکہ برطانیہ کا نمائندہ وائسرائے کے نام سے ہم پر حکومت کرتا تھا۔ اسی طرح بہت سے دوسرے مسلم ممالک کا بھی یہی حال تھا، جبکہ دوسری طرف قسطنطنیہ (استنبول) کی خلافتِ عثمانیہ ابھی موجود تھی اور اگرچہ پانچ سو سال کے لگ بھگ عرصہ دنیا کی سپر پاور کے طور پر گزارنے کے بعد وہ مضمحل ہو چکی تھی اور اسے یورپ کا ’’مردِ بیمار‘‘ کہا جانے لگا تھا، لیکن اس کے باوجود اس سے مغربی ممالک خوفزدہ تھے اور خلافت کو ختم کرنے کے لیے یورپی ممالک سازشیں کر رہے تھے۔ جن میں وہ بالآخر کامیاب ہوئے اور وقتی طور پر انہوں نے یہ ہدف حاصل کر لیا کہ مسلمانوں میں خلافت اور جہاد کی اصطلاحات منظر سے ہٹ گئیں اور مغربی ممالک یہ سمجھنے لگے کہ خلافت اور جہاد کو ختم کر کے انہوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنا لیا ہے۔

لیکن مغرب کی یہ خام خیالی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور اس صدی کے دوران نہ صرف جہاد کا عمل دنیائے اسلام میں ایک بار پھر زندہ ہو گیا ہے بلکہ خلافتِ اسلامیہ کے اَحیا کے امکانات بھی دن بدن روشن ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ اس صدی کے دوران اکثر مسلم ممالک استعماری قوتوں کے پنجے سے سیاسی آزادی حاصل کر چکے ہیں اور خود مختار کہلاتے ہیں۔ یہ جہادِ افغانستان کی برکت ہے کہ غیور افغانوں نے اپنے ملک پر روس کی مسلح لشکر کشی کا سامنا وطنی یا قومی عصبیت کے نعرہ کے ساتھ کرنے کی بجائے جہاد کا نعرہ بلند کیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں جہاد کے متوالے ایک بار پھر وطن، علاقہ، نسل اور رنگ کے تمام امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان میں جہاد کے نام سے روسی استعمار کے خلاف نبردآزما ہو گئے۔ ان کی بے مثال قربانیوں کے نتیجہ میں نہ صرف افغانستان سے روسی فوجوں کو واپس جانا پڑا بلکہ خود سوویت یونین بھی پاش پاش ہو گیا۔ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کو آزادی ملی، مشرقی یورپ کے ممالک نے کمیونزم کے تسلط سے نجات حاصل کی، بالٹک ریاستیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوئیں، جرمنی ایک بار پھر متحد ہوا، دنیائے اسلام کے ہر خطے میں اسلام کے غلبہ اور جہاد کے نعرے پھر سے بلند ہونے لگے اور اسلامی تحریکات کو نئی قوت اور حوصلہ ملا۔

اس صدی کا آغاز غلامی کے ماحول میں ہوا تھا مگر اکیسویں صدی کا آغاز اسلامی تحریکات کی پیشرفت، ایک عالمی استعماری قوت کی پسپائی، اور جہادی قوتوں کے دنیا کے اکثر خطوں میں منظم ہونے اور آگے بڑھنے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اور اس سے امریکہ اور اس کے حواری خوفزدہ ہیں کہ جس اسلامی نظریاتی ریاست اور جذبۂ جہاد کو ختم کرنے کے لیے مغرب نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف اپنے تمام وسائل صرف کر دیے تھے وہ پھر سے افغانستان کی خشک پہاڑیوں سے سر اٹھا رہے ہیں اور ان کو دبانے کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہو رہا۔

اس لیے میرے نزدیک عالمِ اسلام اکیسویں صدی کا آغاز بیسویں صدی کے آغاز سے بہتر ماحول میں کر رہا ہے، کیونکہ جانے والی صدی ہم نے دباؤ اور پسپائی کی فضا میں شروع کی تھی اور آنے والی صدی کے آغاز میں ہم اعتماد اور حوصلہ کے ساتھ پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ یہ پیش قدمی جاری رہے گی، کیونکہ مغرب نے انسانی خواہشات اور طبقاتی مفادات کی بنیاد پر جس جھوٹے نظام اور فلسفہ کو دنیا سے منوانا چاہا تھا وہ ناکام ہو چکا ہے، اور انسانی معاشرے کے پاس اب آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ اور آسمانی تعلیمات اصلی حالت میں صرف اسلام کے پاس موجود ہیں، اس لیے تمام تر ظاہری مشکلات، رکاوٹوں اور حوصلہ شکن مناظر کے باوجود ملتِ اسلامیہ اکیسویں صدی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہی ہے، اور یہ تاریخ اور تقدیر کا ایسا فیصلہ ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت اب روک نہیں سکتی۔

مغربی اقوام اکیسویں صدی میں محرومیوں اور مایوسیوں کے ساتھ داخل ہو رہی ہیں، ان کے چہروں پر رونقیں مصنوعی ہیں، ان کے دل اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آنے والا وقت اسلام کا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں اسلام کی بالادستی کی بات کرنے والے اپنی تحریکوں کو منظم کر رہے ہیں، امریکہ ایک مرد قلندر شیخ اسامہ بن لادن سے خوفزدہ ہے اور اپنی بوکھلاہٹ کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ حالات، یہ سورج کی کرنیں مسلمانوں کی فتح و نصرت اور کامیابی کی امید لے کر طلوع ہو رہی ہیں۔ عالمِ اسلام کو وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر دشمنوں کے مقابلے میں آنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter