صدر جنرل پرویز مشرف آئندہ ماہ امریکہ جا رہے ہیں جہاں وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے، متعدد عالمی لیڈروں سے ملاقاتیں کریں گے اور اخباری اطلاعات کے مطابق وہ یہودیوں کی ایک آرگنائزیشن کے تحت پروگرام میں بھی شریک ہوں گے جہاں وہ اسلام میں اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر پر گفتگو کریں گے۔
جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس اس حوالے سے خاصا اہم ہے کہ اس میں اقوام متحدہ کے نظام میں بعض اہم اصلاحات زیر غور آنے والی ہیں جن میں سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں توسیع بھی شامل ہے۔ اس توسیع کی صورت میں جرمنی، بھارت اور جاپان سمیت بہت سے ممالک سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں اور عالم اسلام نے بھی اپنے لیے مستقل نشست کا مطالبہ کیا ہے جس کے لیے او آئی سی اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کے بیانات آچکے ہیں۔ جبکہ پاکستان سلامتی کونسل کی نشستوں میں توسیع کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے جس کی وجہ سفارتی حلقوں میں یہ سمجھی جا رہی ہے کہ سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں اضافے کی صورت میں بھارت کے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے جو علاقائی تناظر میں بہرحال پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے، اس لیے پاکستان کی طرف سے شروع سے سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں اضافے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اس بارے میں ہم اس سے پہلے اسی کالم میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ عالم اسلام کے لیے اصل مسئلہ سلامتی کونسل کی مستقل نشست کا حصول نہیں، بلکہ اقوام متحدہ کے پورے تنظیمی ڈھانچے اور پالیسی میکر نیٹ ورک نے نظام کو چلانے کے لیے جو اصول و ضوابط طے کر رکھے ہیں، وہ عالم اسلام کے مجموعی مفاد میں نہیں ہیں۔ ان میں دو باتیں سرفہرست ہیں:
- ایک یہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا وہ چارٹر جسے انسانی حقوق کے مسلمہ عالمی معیار کا درجہ دے دیا گیا ہے، اس کی بعض دفعات صریح اسلامی تعلیمات کے منافی اور مسلم معاشرت کے تقاضوں سے متضاد ہیں۔ اس چارٹر پر مکمل نظر ثانی کے بغیر اسے عالم اسلام کے لیے مذہبی اور معاشرتی طور پر پوری طرح قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔
- جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ عسکری قوت میں توازن کو چند ممالک کے ہاتھ میں رکھنے کے لیے جو عالمی قواعد و ضوابط وضع کیے گئے ہیں اور جن کی بنیاد پر عراق کو مسلح کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے، وہ اقوام و ممالک کے درمیان برابری اور مساوات کے اصول کے منافی ہیں۔ انہیں صرف اس لیے درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قواعد و ضوابط ان ممالک و اقوام نے طے کیے ہیں جن کے ہاتھ میں اس وقت طاقت ہے اور وہ اپنی قوت کے بل پر مجبور اور بے بس اقوام سے کچھ بھی منوا سکتے ہیں۔ اگر بات اصول اور مساوات کی ہے تو جس طرح ان قوتوں کو ایٹمی قوت سمیت جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا حق ہے جن کے پاس اس وقت وہ وافر مقدار میں موجود ہے، اسی طرح ان ممالک و اقوام کو بھی یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا پورا حق حاصل ہے جو اس سے محروم ہیں۔ یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ جن قوتوں نے یہ قوت حاصل کر لی ہے، وہ صرف اس لیے اس کے حقدار ہیں کہ ان کے پاس وہ موجود ہے اور جن کے پاس یہ قوت موجود نہیں ہے، وہ صرف اس لیے اس کے حصول کا حق نہیں رکھتے کہ ان کے پاس یہ موجود نہیں ہے۔ یہ دلیل نہیں ہے بلکہ دھونس اور دھاندلی ہے جس کی زد سب سے زیادہ عالم اسلام پر پڑ رہی ہے اور مسلم ممالک کو نہ صرف اس سے پوری قوت اور پلاننگ کے ساتھ روکا جا رہا ہے بلکہ پاکستان، جس نے یہ قوت کسی حد تک حاصل کر لی ہے اور اس کے ساتھ وہ چند ممالک جو اس عسکری قوت کی طرف پیشرفت کی صلاحیت کسی طرح حاصل کر سکتے ہیں، مسلسل دباؤ کی زد میں ہیں۔ اور یہ دباؤ صرف زبانی نہیں بلکہ عملی ہے جس کا نشانہ عراق بن چکا ہے اور ایران کو اس کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
ہمارے خیال میں مسلم لیڈر شپ کو اس سلسلے میں اپنے معذرت خواہانہ رویے پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور اقوام متحدہ کے ان قواعد و ضوابط کو جرأت اور حوصلہ کے ساتھ چیلنج کرنا ہوگا جو تیسری دنیا، بالخصوص مسلم ممالک کو جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کے حصول سے روکتے ہیں۔ اگر او آئی سی
- اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر نظر ثانی،
- سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے ساتھ دنیا میں اپنی آبادی کے تناسب سے نشستوں کے حصول،
- اور عسکری قوت کے حصول کی ترجیحات میں توازن قائم کروانے
کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کر سکے تو اقوام متحدہ کا فورم ایک عالمی ادارے کی صورت میں مسلم دنیا کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے، ورنہ یہ یکطرفہ تسلط اور طاقت کی اجارہ داری کی ایک منظم شکل ہے جس سے پیچھا چھڑانا ہی عالم اسلام کے مجموعی مفاد کے لیے واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا کے لیڈر حقیقت پسندی سے کام لیں اور سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا فیصلہ کریں کہ یا تو وہ اقوام متحدہ کے نظام میں توازن قائم کرنے کی عملی جدوجہد کریں اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو اس سے دامن چھڑانے کا کوئی قابل عمل راستہ تلاش کیا جائے۔
اس پس منظر میں ہم صدر جنرل پرویز مشرف سے یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ جس اعتدال پسندی اور روشن خیالی کا نعرہ لگاتے ہیں اس کا دائرہ صرف اپنے ملک تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ عالمی سطح پر اجارہ دارانہ رویہ رکھنے والی تنگ نظر اقوام کو بھی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا راستہ دکھانے کی کوشش کریں، جو تیسری دنیا اور مسلم ممالک کی آزادی، خودمختاری، معاشی وسائل اور تہذیبی تشخص کا استحصال کر رہی ہیں اور دولت اور طاقت کے بل پر انہوں نے پوری دنیا کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جنرل اسمبلی سے ان کا خطاب اس کا بہترین موقع ہے اور نہ صرف خطاب بلکہ لابنگ اور میڈیا کے ذرائع بھی ان کے پاس موجود ہیں جنہیں وہ اس مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
جہاں تک یہودیوں کی کسی آرگنائزیشن کے زیر اہتمام کسی اجتماع میں ان کی شمولیت اور خطاب کا تعلق ہے، ہمیں اصولی طور پر اس سے اختلاف نہیں ہے۔ وہ اپنی بات کہنے کے لیے کسی بھی اجتماع میں جا سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں اور اعتدال پسند اسلام کے بارے میں ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟ اس حوالے سے ایک اصولی بات ہم ان سے عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کے ذہن میں شاید ’’اصلاح مذہب‘‘ کی وہ تحریک ہے جو تین صدی قبل یورپ میں مسیحیت کے خلاف شروع ہوئی تھی اور اس نے پورے یورپ کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔ اس تحریک کی پذیرائی کے جو اسباب تھے وہ عالم اسلام میں موجود نہیں ہیں، مثلاً:
- مسیحیت کی اصل تعلیمات محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے مذہب کی تعبیر و تشریح مکمل طور پر مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی اور وہ جس طرح چاہتے تھے اس کی تعبیر کر لیتے تھے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ حالت میں موجود ہیں، ان کی موجودگی میں کسی نئی یا من مانی تعبیر و تشریح کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے۔
- مسیحی رہنماؤں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو کفر و الحاد قرار دے دیا تھا اور ترقی کی مخالفت کر رہے تھے۔ جبکہ مسلم دنیا میں یہ صورتحال موجود نہیں۔
- مسیحیت کے اس دور کے مذہبی رہنما بادشاہت اور جاگیر داری کے کیمپ میں تھے، اس لیے عوام کے ردعمل کی لہر میں وہ بھی بادشاہت اور جاگیر داری کے ساتھ بہہ گئے۔ جبکہ عالم اسلام کے مذہبی رہنما حکومتوں کی بجائے عوام کے ساتھ ہیں اور ان کے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
اس لیے صدر پرویز مشرف یا ان کی طرح یورپی طرز کی اصلاح مذہب کی کسی تحریک کے بارے میں سوچ رکھنے والے مسلم رہنماؤں کو ایک بار پھر اس کے بارے میں غور کر لینا چاہیے اور اس فرق کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے جو یورپ کی اس دور کی مذہبیت اور عالم اسلام کی آج کی مذہبیت میں واضح طور پر موجود ہے، اور جسے نظر انداز کر کے بہت سے دانشور کنفیوژن کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔
اسلام اعتدال پسندی کا مذہب ہے، مگر اعتدال پسندی وہی قابل قبول ہو سکتی ہے جس کی جڑیں قرآن و سنت کی تعلیمات میں ہیں اور جو امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس سے ہٹ کر یا قرآن و سنت کے صریح احکام و قوانین سے انحراف کی صورت میں اسلام کا کوئی نیا تصور پیش کیا گیا تو اس کا نتیجہ اکبر بادشاہ کے اس ’’دین الٰہی‘‘ سے مختلف نہیں ہوگا جس کا منظر اب سے چار سو سال قبل اسی دھرتی نے دیکھا تھا اور جس کی یاد اب تک تاریخ کے ایک مضحکہ خیز باب کی صورت میں نشان عبرت بنی ہوئی ہے۔