اسلام آباد کے ایک موقر جریدے نے ۳۱ مارچ ۲۰۰۰ء کو ایک انٹرنیشنل نیوز ایجنسی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ نیویارک میں امریکی یہودیوں کے سب سے بڑے فرقہ سے تعلق رکھنے والے ربیوں (مذہبی رہنماؤں) نے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانفرنس نے تمام یہودی ربیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہی جنس کے افراد کی باہمی شادی کی مذہبی رسومات ادا کریں۔ کانفرنس کے صدر نے کہا ہے کہ ہم جنس پرستی کو تسلیم کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ خدا نے تمام انسانوں کو اپنے عکس میں بنایا ہے۔
ہم جنس پرستی یعنی مرد کے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات اور عورت کے عورت کے ساتھ جنسی تعلقات اسلام کی رو سے قطعی حرام ہیں۔ دو مردوں کا باہمی جنسی تعلق ’’لواطت‘‘ جبکہ دو عورتوں کا باہمی جنسی تعلق ’’مساحقت‘‘ کہلاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے شدت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے اعمال بد میں اس قبیح فعل کا ذکر کیا ہے اور اس کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس بدعملی کی وجہ سے قوم لوط پر عذاب آیا اور سدوم اور عمورہ کی بستیوں پر آسمان سے پتھروں کی اس قدر بارش ہوئی کہ وہ بستیاں زمین میں دھنس گئیں۔ چنانچہ آج بھی بحیرۂ مردار قوم لوط پر نازل ہونے والے اس خدائی قہر کی زندہ شہادت کے طور پر موجود ہے۔
سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے اور تورات و انجیل دونوں میں اس فعل بد کو حرام کاری قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اسرائیلی روایات کے مطابق کنعانی بت خانوں میں کسبی عورتوں کی طرح کسبی مرد بھی بدکاری کے لیے مہیا کیے جاتے تھے جو اجرت پر اس فعل بد کا ارتکاب کرتے تھے اور انہیں کنعانیوں کے ہاں ’’پاک عورتوں‘‘ اور ’’پاک مردوں‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ مگر تورات میں اسے بدکاری قرار دے کر اس کی کمائی کو ’’کتے کی کمائی‘‘ کہا گیا ہے۔
اسلام کی طرح بدکاری کی سزا سابقہ آسمانی مذاہب میں بھی یہی تھی کہ بدکاری کے مرتکب شادی شدہ افراد کو سنگسار کر دیا جاتا تھا۔ جناب نبی اکرمؐ نے جہاں زنا کی سزا بیان کی ہے وہاں لواطت کے اس عمل قبیح کی سزا یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دیا جائے‘‘۔ امت کے تمام فقہی مکاتب فکر میں یہ فعل حرام سمجھا گیا ہے اور اس کی سزا موت بیان کی گئی ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ احناف کے نزدیک موت کی یہ سزا شرعی حد کے طور پر نہیں بلکہ تعزیر کے طور پر ہے، جبکہ باقی فقہاء نے اسے حد شرعی قرار دیا ہے۔ لیکن اس فعل کے حرام اور قبیح ہونے اور اس کے مرتکب افراد کو سخت سزا دینے پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔
لواطت شرعی طور پر انتہائی غلط اور شرمناک فعل ہونے کے ساتھ ساتھ طبی طور پر انسان کے لیے سخت نقصان دہ ہے اور عام انسانی اخلاق کے حوالہ سے بھی اسے کبھی اچھا کام نہیں سمجھا گیا۔ مگر برا ہو مغرب کے بے لگام تصور آزادی کا کہ اس میں یہ بد بلکہ بدتر فعل بھی قانونی جواز حاصل کر چکا ہے۔ مغرب نے آزادیوں کی فہرست میں ’’جنس کی آزادی‘‘ بھی شامل کرلی ہے اور ’’فری سیکس‘‘ کا یہ فلسفہ مذہب و اخلاق اور انسانیت کی تمام حدود کو پار کر گیا ہے۔ قانونی طور پر تو امریکہ اور یورپ میں مرد و عورت کی باہمی رضا سے ہونے والے زنا اور اسی طرح ہم جنس پرستی کو ایک عرصہ سے جواز کی سند حاصل ہے اور اکثر ممالک میں اس سلسلہ میں باقاعدہ قانون سازی کر کے اس کی اجازت دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال ایک برطانوی عدالت نے باہمی جنسی تعلق رکھنے والے دو مردوں کو آپس میں میاں بیوی تسلیم کرتے ہوئے ایک کی موت کی صورت میں دوسرے کو اس کا وارث ٹھہرا دیا ہے۔ لیکن اب اس بے حیائی اور بدکاری کو مذہبی جواز کا درجہ دینے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے جو اخلاق و شرافت کی آخری حدوں کو پھلانگ جانے کے مترادف ہے اور اس پر لعنت و نفرین کے سوا کسی اور رد عمل کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔
چند سال قبل برطانیہ کے سب سے بڑے مسیحی مذہبی ادارہ چرچ آف انگلینڈ کی ایک ہدایت منظر عام پر آئی تھی جس میں چرچ نے اپنی شاخوں سے کہا تھا کہ چونکہ شادی کے بغیر اکٹھے رہنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد پچاس فیصد سے بڑھ گئی ہے اور سوسائٹی کی اکثریت نے اس عمل کو قبول کر لیا ہے اس لیے آئندہ اس عمل کو گناہ نہ کہا جائے۔ گویا چرچ آف انگلینڈ کے نزدیک گناہ اور ثواب کا تعین بھی سوسائٹی کے رجحانات دیکھ کر اقلیت اور اکثریت کے حوالہ سے ہونے لگا ہے۔ اور اب امریکہ میں بسنے والے یہودیوں کے اکثریتی فرقہ کے ربیوں نے ہم جنس پرستی (لواطت و مساحقت) کو مذہبی جواز فراہم کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اگر دو مرد آپس میں میاں بیوی کے طور پر رہنے کا فیصلہ کریں گے تو یہودی مذہبی راہنما باقاعدہ مذہبی رسوم ادا کر کے اور نکاح پڑھا کر انہیں میاں بیوی بنائیں گے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جمہوریت، آزادی اور سولائزیشن کا یہی فلسفہ آج ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ہم اپنے مذہبی احکام کو نظر انداز کرتے ہوئے
- مغربی فلسفہ اور ثقافت کو قبول کرلیں،
- مرد و عورت کے اختلاط میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کر کے انہیں آزادانہ میل جول کے مواقع فراہم کریں،
- شادی میں والدین اور خاندانوں کے عمل دخل کو کم سے کم کردیں،
- پردے کے شرعی احکام کو فرسودہ اقدار کی علامت قرار دے کر پس پشت ڈال دیں،
- غیرت کو غیر مہذب رویہ اور طرز عمل سمجھتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کریں،
- زنا کی شرعی حد کو ختم کریں،
- اسقاط حمل کو قانونی حق کے طور پر تسلیم کریں،
- مانع حمل ادویات اور طریقوں کو عمومی مہم کے طور پر رواج دیں،
- سکولوں اور کالجوں میں جنسی تعلیم کا اہتمام کریں۔
مگر مغرب میں اس آزادی کا جو نتیجہ چرچ آف انگلینڈ اور امریکہ کے یہودی ربیوں کے مذکورہ فیصلوں کی شکل میں ہمارے سامنے آچکا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں