ان دنوں اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہونے والی زیادہ تر خبروں کا عنوان وہ سیاسی گفت و شنید ہے جو کالعدم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان سیاسی عمل کی بحالی کے لیے اشتراکِ عمل کی غرض سے جاری ہے۔ اس سلسلہ میں بعض ملاقاتوں کی خبریں بھی منظر عام پر آئی ہیں اور اس تگ و دو کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بیانات بھی شائع ہو رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں اصولی طور پر اشتراک و تعاون کی اہمیت و ضرورت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اور ہم کافی عرصہ قبل ان کالموں میں قومی امور کے بارے میں تمام سیاسی و مذہبی مکاتب فکر کے رہنماؤں کے درمیان اشتراک و تعاون کی ضرورت کا اظہار کر چکے ہیں۔ اور اب بھی ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قومی معاملات سے گروہی سیاست سے بالاتر ہو کر قومی سطح کی سوچ بچار کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی میں ہونے والے سیاسی اتحادوں کے نتائج سے عوامی حلقوں میں پیدا ہونے والے تذبذب کو دور کرنے کے لیے مثبت اور سنجیدہ محنت کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اتحاد و اشتراک کی بات کرنے والے قائدین آپس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی روش سے گریز کریں کیونکہ اس سے کسی نئے اشتراک و تعاون کے بارے میں عوام کو مثبت رائے قائم کرنے میں مدد نہیں ملے گی بلکہ اس کی بجائے غلط فہمیوں میں اضافہ ہوگا۔
بدقسمتی سے اب تک یہ صورتحال نہیں ہے اور اتحاد و اتفاق کی ضرورت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے مثلاً کالعدم جمعیۃ علماء پاکستان اور کالعدم جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے درمیان بیانات کا تبادلہ ہوا اور پھر ان بیانات کو واقعات کی درستگی کی اوٹ میں جائز قرار دیا گیا۔ اسی طرح کالعدم جمعیۃ علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الستار خان نیازی نے یہ کہہ کر یکجہتی کی طرف کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی کہ مارشل لاء حکومت میں وزارتیں قبول کرنے والے قوم سے معافی مانگیں۔ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزارتیں قبول کرنے والوں نے اسلامی قوانین کے نفاذ اور انتخابی شیڈول کے تعین کے جن دو مقاصد کی خاطر حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی وہ ان مقاصد کے حصول میں سرخرو ہو کر واپس لوٹے تھے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ عوام کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے لیے جن عناصر نے گروہی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کے فروغ دینے کا راستہ اختیار کیا تھا انہوں نے قوم کی کون سی خدمت کی ہے اور حالات کو موجودہ موڑ تک پہنچانے میں ان کے اس کردار کا دخل کس قدر ہے؟
مگر ہم ان امور کو چھیڑنا نہیں چاہتے اور اس امر کے خواہشمند ہیں کہ قومی راہنما افہام و تفہیم کے ساتھ کوئی ایسا راستہ جلد طے کر لیں جس پر گامزن ہو کر جمہوری عمل کی بحالی اور نمائندہ حکومت کے قیام کی منزل تک پہنچا جا سکے۔