شیخ الہند عالمی امن کانفرنس دہلی کا متفقہ اعلامیہ

   
۲۱ دسمبر ۲۰۱۳ء

جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام شیخ الہند ایجوکیشنل ٹرسٹ کے عنوان سے ۱۳ تا ۱۵ دسمبر ۲۰۱۳ء کو دیوبند اور دہلی میں ’’شیخ الہند عالمی امن کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی زیر قیادت برطانوی استعمار کے خلاف منظم کی جانے والی عظیم جدوجہد ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کو ایک صدی مکمل ہو جانے پر صد سالہ تقریبات کے حوالہ سے منعقد کی گئی اور اس میں بھارت کے طول و عرض سے شریک ہونے والے سرکردہ علماء کرام اور عوامی قافلوں کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش، برما، نیپال، مالدیپ، ماریشیس، سری لنکا، برطانیہ اور دیگر ممالک سے بھی سینکڑوں علماء کرام نے شرکت کی۔ پاکستان سے جمعیۃ علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں جمعیۃ علماء اسلام کے تیس رکنی بھرپور وفد کانفرنس کی مختلف تقریبات میں شریک ہوا۔

۱۳ و ۱۴ دسمبر کو ’’شیخ الہند عالمی امن کانفرنس‘‘ کی چار نشستیں دیوبند میں ہوئیں جن میں پہلی تین نشستیں مندوبین کے اظہار خیال کے لیے مخصوص تھیں جبکہ چوتھی نشست عیدگاہ میدان میں جلسہ عام کی صورت میں منعقد ہوئی۔ ان میں خطاب کرنے والوں میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری محمد عثمان، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن اور جمعیۃ علماء ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمود اسعد مدنی کے علاوہ پاکستان سے مولانا عبد الغفور حیدری، مولانا محمد خان شیرانی، ڈاکٹر خالد محمود سومرو، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا سید محمود میاں، مولانا سعید یوسف خان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اللہ وسایا، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا گل نصیب خان، بنگلہ دیش سے مولانا مفتی عبد الرحمن، برما سے مولانا مفتی نور محمد، سری لنکا سے مولانا مفتی محمد رضوی، برطانیہ سے مولانا حافظ محمد اکرام اور بھارت سے مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، مفتی محمد سلمان منصور پوری اور مولانا سلمان بجنوری بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

راقم الحروف نے تیسری اور چوتھی نشست میں کچھ معروضات پیش کیں اور چند تجاویز تحریری صورت میں مولانا سید محمود اسعد مدنی کے حوالہ کیں جن کی تفصیلات مقررین کے خطابات کے اہم اقتباسات کے ساتھ اس کالم میں الگ پیش کی جائیں گی۔

۱۵ دسمبر کو دہلی کے رام لیلا میدان میں ’’شیخ الہند عالمی امن کانفرنس‘‘ کی کھلی نشست منعقد ہوئی جس میں شرکت کے لیے بھارت کے طول و عرض سے سینکڑوں قافلے رات ہی کو میدان میں پہنچ چکے تھے اور لاکھوں کا اجتماع صبح نو بجے تک اپنے راہ نماؤں کے ارشادات سننے کے لیے جمع تھا۔ رام لیلا میدان اور اس کے اردگرد ہر طرف لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے اور ساڑھے نو بجے سے اڑھائی بجے تک عوام اور علماء نے جس طرح سکون اور نظم و ضبط کے ساتھ مقررین کے خطابات کو سنا وہ قابل رشک تھا۔

اس عظیم الشان کانفرنس میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان کا خطبہ صدارت اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن کے خطابات کلیدی حیثیت کے حامل تھے جن میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے افکار و تعلیمات اور ملی و دینی جدوجہد کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا اور موجودہ عالمی اور علاقائی تناظر میں شیخ الہندؒ کے افکار اور جدوجہد سے راہ نمائی حاصل کرنے پر زور دیتے ہوئے اس کے مختلف خطوط اور پہلوؤں کا تذکرہ کیا گیا۔

اس موقع پر ’’امن عالم کانفرنس‘‘ کی طرف سے ایک متفقہ اعلامیہ کی منظوری دی گئی جس کی ترتیب و تدوین میں دیگر حضرات کے ساتھ مجھے بھی شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جمعیۃ علماء ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمود اسعد مدنی نے یہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اعلامیہ درج ذیل ہے:

’’ہند و بیرون ہند کے ممتاز علمائے کرام، دانشوران اور رہنمایانِ ملک و ملت کا یہ عالمی اجلاس برصغیر ہند کی آزادی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، ان کے رفقاء اور تمام مجاہدین آزادی کی سنہری خدمات و بے مثال قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے اور حضرت شیخ الہند کے عطا کردہ رہنما خطوط کی روشنی میں اپنے اس عہد کا اعلان کرتا ہے کہ:

  1. ہم انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالمی امن کے قیام کے لیے ہر سطح پر دوستانہ تعلقات اور صلح و آشتی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے۔
  2. اپنے اپنے ملک کی سالمیت اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی خوشحالی اور خیر سگالی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
  3. ہر قسم کے تنازعات کا پر امن ذرائع سے حل تلاش کرنے کے لیے ذہن سازی اور کوشش کریں گے۔
  4. اسلام کی نظر میں ہر طرح کا فتنہ و فساد، بد اَمنی و خوں ریزی اور بے قصوروں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانا، بد ترین انسانیت سوز جرم ہے، اس لیے ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ اور اس بارے میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ اور تمام انصاف پسندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف دہشت گردی سے برأت کریں، بلکہ ان اسباب و محرکات کو بھی ختم کرنے کی فکر کریں، جن کی وجہ سے دنیا میں دہشت گردی پنپتی ہے۔
  5. اقلیتوں، ناداروں، کمزور طبقات اور خواتین کے حقوق کی پاسداری کے بغیر خوشحالی، ترقی اور امن کا تصور ناممکن ہے۔ اس لیے ہم انہیں ان کے حقوق دلانے اور سماجی انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔
  6. اخلاق سوز رسم و رواج، فضول خرچی اور جرائم سے پاک معاشرہ کی تشکیل; خاص کر شراب نوشی، منشیات، عیش پرستی، فحاشی، عریانیت اور جنین کشی کے خلاف تحریک چلانے کے لیے ہم تمام مذاہب کے رہنماؤں اور مصلحانہ تنظیموں کو اشتراک اور تعاون کی دعوت دیتے ہیں۔
  7. ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ مسلکی تنازعات میں تشدد اور خوں ریزی اسلامی تعلیمات کے قطعاً خلاف ہیں۔ ہم اس معاملے میں تشدد کی سخت مذمت کرتے ہوئے عہد کرتے ہیں کہ مسلکی تشدد کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
  8. حضرت شیخ الہندؒ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے موقع پر جو وقیع خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اس کی روشنی میں ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ملت سے دینی و دنیوی جہالت دور کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے; خاص طور پر اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی ہر ممکن جدوجہد کریں گے، جیسا کہ جمعیۃ علماء ہند کے سابق صدر محترم امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ اس موضوع کو مشن بنا کر پورے عالم میں پھیلاتے رہے۔
  9. ہم یہ بھی عہد کرتے ہیں کہ اہل حق کے تمام دینی اداروں اور تحریکات میں ایک دوسرے کے معاون بن کر رہیں گے۔‘‘

کانفرنس میں اس اعلامیہ پر عملدرآمد اور اس کے مطابق مختلف ممالک میں شیخ الہندؒ کے افکار کے مطابق کام کو منظم کرنے کے لیے ’’شیخ الہند عالمی امن فورم‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور مولانا سید محمود اسعد مدنی کی پیش کردہ یہ تجویز متفقہ طور پر منظور کر لی گئی:

’’تحریک شیخ الہند صد سالہ تقریبات کے موقع پر منعقدہ عظیم الشان امن عالم کانفرنس ضرورت محسوس کرتی ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ کے افکار و نظریات کے حوالہ سے منعقد اس کانفرنس کے اعلامیہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شیخ الہند عالمی امن فورم قائم کیا جائے۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter