لال مسجد کا سانحہ اور ہماری ذمہ داریاں

   
تاریخ : 
اگست ۲۰۰۷ء

لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے سانحے نے پوری قوم کو غم اور صدمہ سے دو چار کر دیا ہے اور جس شخص کے سینے میں بھی گوشت کا دل ہے وہ اس المیہ پر مضطرب اور بے چین ہے۔ ۱۰ جولائی کی صبح کو عین اس وقت جبکہ حکومت اور غازی عبدالرشید شہیدؒ کے درمیان مذاکرات ایک مثبت نتیجے پر پہنچ چکے تھے، ان مذاکرات کو ملک کی مقتدر شخصیت نے ویٹو کر دیا اور پھر مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوتے ہی جس بے دردی اور سنگدلی کے ساتھ لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے اندر موجود افراد بالخصوص طالبات اور بچوں کو مسلح آپریشن کا نشانہ بنایا گیا وہ ملک کی تاریخ میں وحشت اور درندگی کے ایک افسوسناک باب کے عنوان کے طور پر ہمیشہ موجود رہے گا۔ تاریخ میں چنگیز خان، ہلاکو خان، مسولینی اور ہٹلر کے مظالم کی داستانیں پڑھتے تھے تو بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کوئی انسان اس انتہا تک بھی جا سکتا ہے مگر اکیسویں صدی کے نام نہاد مہذب دور میں جس طرح لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ میں بے شمار افراد، عورتوں اور بچوں کو بھنتے، کٹتے اور جلتے ہوئے دیکھا گیا ہے اس نے وحشت و بربریت کے ان نامور ہیروز کو بھی شرما کر رکھ دیا ہے۔

یہ ایک حقیقت واقعہ ہے کہ ۹ اور ۱۰ جولائی کی درمیانی شب تک وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے راہنماؤں کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان، ان کے متعدد وزراء اور حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے مذاکرات کے نتیجے میں ایک ایسے فارمولے پر اتفاق رائے ہو چکا تھا جسے ٹیلی فون پر سننے کے بعد غازی عبدالرشید شہیدؒ نے بھی اس سے اتفاق کر لیا تھا۔ اور اس رات چند ایسے لمحات ضرور آئے تھے جب فریقین میں لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے تنازعہ کے عملی حل کے سلسلے میں کوئی اصولی اختلاف باقی نہیں رہ گیا تھا لیکن خدا جانے کس منحوس کی نظر بد آڑے آئی کہ اسی رات کو صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے اسلام آباد دھماکوں سے لرز رہا تھا اور لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے در و دیوار گولیوں اور بموں سے چھلنی ہو رہے تھے۔

راقم الحروف اس رات اسلام آباد میں تھا اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے راہنماؤں مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر عادل خان اور دیگر حضرات کے ہمراہ چودھری شجاعت حسین، جناب محمد اعجاز الحق، جناب محمد علی درانی اور جناب طارق عظیم کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھا کہ اچانک ان مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا کر دیا گیا اور پھر اچانک مسلح آپریشن کے آخری راؤنڈ کا پوری شدت کے ساتھ آغاز ہوگیا، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ قوم کے سامنے ہے اور قوم کے دل و جگر پر لگنے والا یہ زخم خدا جانے کب رستا رہے گا۔

سانحہ لال مسجد کے اسباب و عوامل کیا تھے اور معاملات کو اس افسوسناک مرحلہ تک پہنچانے میں کس کس کا کیا کردار ہے؟ اس کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فل بینچ قائم کر دیا ہے جو اپنے کام کا آغاز کر چکا ہے، جوں جوں اس کی کاروائی آگے بڑھے گی بہت سے چہرے بے نقاب ہوتے چلے جائیں گے اور کئی سربرستہ راز منظر عام پر آئیں گے۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہٹ کر بھی اس صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر دینی حلقوں کے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا اس حوالہ سے انہیں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا یا جو کردار وہ ادا کر سکتے تھے کیا ان کا ضمیر اس کردار کی ادائیگی کے بارے میں مطمئن ہے؟ یہ بہت حساس سوال ہے جس کا پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ نہ لیا گیا تو آئندہ اس قسم کے المیوں کو روکا نہیں جا سکے گا۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں غزوۂ احد کو اس لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ اس میں آنحضرتؐ خود بھی زخمی ہوئے بلکہ ستر صحابہ کرامؓ نے جام شہادت نوش کیا اور مسلمانوں کی واضح فتح وقتی طور پر ہزیمت میں بدل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، اس کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کی ہے، اس پر ڈانٹ ڈپٹ کی ہے اور پھر معافی کا اعلان بھی فرمایا ہے لیکن ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اپنی ناکامی اور ہزیمت کے اسباب کو ضرور دیکھو، عوامل کی نشاندہی کرو اور کسی رعایت کے بغیر جس کی جو غلطی ہے اسے اس سے آگاہ کرو تاکہ آئندہ اس سے بچا جا سکے۔ قرآن کریم کا یہ اسلوب ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا اپنا احتساب بھی کریں اور اس حوالہ سے اپنی کوتاہیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کی تلافی کی کوشش کریں۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے خلاف مسلح آپریشن کی مذمت کرتے ہیں، اس دوران جام شہادت نوش کرنے والوں کے لیے بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں وفاق المدارس العربیہ کے ان مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں کہ:

  • کھلی عدالتی انکوائری کے ذریعہ لال مسجد کے سانحے کے اسباب و عوامل اور ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کیا جائے۔
  • شہداء کی لاشیں ان کے ورثاء کے حوالہ کی جائیں۔
  • گمشدگان اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور ان کے اہل خاندان کو اعتماد میں لیا جائے۔
  • جامعہ حفصہؓ اور جامعہ فریدیہ کے دینی مدرسہ کے طور پر باقی رہنے کی ضمانت دی جائے اور ان کی حیثیت تبدیل نہ کرنے کا واضح اعلان کیا جائے۔
  • تمام جھوٹے مقدمات واپس لیے جائیں اور مولانا عبدالعزیز سمیت تمام گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے۔
  • اس سانحہ کی آڑ میں ملک کے دینی مدارس کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
   
2016ء سے
Flag Counter