برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے گزشتہ دنوں عراق کے صدر صدام حسین کے خلاف الزامات کے ثبوت میں مبینہ دستاویزات پر مشتمل پچاس صفحات کی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس سے عراق کے خلاف امریکہ کے متوقع حملوں کی مخالفت میں کمی واقع ہو گی اور ٹونی بلیئر کو اپنی پارٹی اور پارلیمان کے ارکان کی مزید حمایت حاصل ہو سکے گی۔
امریکہ عراق پر حملہ کی تیاری کیے بیٹھا ہے اور اس بات پر اس کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ اس کی مرضی کے مطابق عراق کے خلاف سخت ترین قرارداد منظور کرنے میں تاخیر کیوں کر رہی ہے؟ عراق نے ممنوعہ اسلحہ کی تیاری کی نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی معائنہ ٹیموں کو عراق آنے سے روک دیا تھا جس پر امریکہ کو یہ بہانہ ہاتھ آیا کہ وہ اقوام متحدہ سے ایک سخت قرارداد منظور کرا کے اس کی آڑ میں عراق پر دھاوا بول دے، لیکن عراق نے معائنہ ٹیموں کو غیر مشروط طور پر واپس آنے کی اجازت دے کر اس غبارے سے ہوا نکال دی ہے جس کے بعد عالمی رائے عامہ اور یورپی یونین سمیت اکثر ممالک کا یہ اصرار مزید بڑھ گیا ہے کہ عراق پر کوئی حملہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر نہ کیا جائے۔ اب عرب ممالک، یورپی یونین، روس، چین اور عالمی رائے عامہ ایک طرف ہیں کہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر عراق پر حملہ قطعی طور پر غلط اور ناجائز ہوگا، جبکہ امریکہ اور برطانیہ دوسری طرف ہیں کہ عراق پر حملہ تو بہرحال ناگزیر ہے جس کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ کو ان کی مرضی کے مطابق قرارداد منظور کر دینی چاہیے تاکہ وہ اسے عالمی رائے عامہ کے سامنے عراق پر حملے کے جواز کے طور پر پیش کر سکیں۔
امریکہ اور برطانیہ کو پہلے اس بات پر اعتراض تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین اقوام متحدہ کی معائنہ ٹیموں کو عراق میں آنے اور اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے رہے جو ہٹ دھرمی ہے، ضد ہے اور اقوام متحدہ کے ۔۔۔۔ کی خلاف ورزی ہے، لیکن اب غصہ اس بات پر ہے کہ صدام حسین نے اقوام متحدہ کی ٹیموں کو واپس آنے اجازت کیوں دے دی ہے؟ اور امریکہ اور برطانیہ کے ہاتھ سے یہ پیمانہ کیوں چھین لیا ہے جس کی آڑ میں وہ ایک بار پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے تھے؟
اس پر مجھے ایک کہاوت یاد آ گئی ہے جو ادب کی کتابوں میں موجود ہے کہ ایک شیر کسی نہر سے پانی پی رہا تھا اور اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک بکری بھی پیاس بجھانے میں مصروف تھی۔ شیر اس طرف تھا جدھر سے پانی آ رہا تھا اور بکری ڈھلوان کی جانب تھی، جدھر پانی بہہ رہا تھا۔ بکری کو دیکھ کر شیر کی نیت خراب ہو گئی اور اس نے بہانے کے طور پر بکری کو ڈانٹا کہ جب میں پانی پی رہا ہوں تو تم اس پانی کو خراب کیوں کر رہی ہو؟ بکری نے جواب میں کہا کہ بادشاہ سلامت! میں تو ڈھلوان کی جانب ہوں جبکہ پانی آپ کی طرف سے آ رہا ہے، اس لیے میں آپ کے پانی کو کس طرح خراب کر رہی ہوں؟ اس پر شیر غراتے ہوئے یہ کہہ کر بکری پر جھپٹ پڑا کہ ”اچھا! آگے سے بولتی بھی ہو؟“
موجودہ تناظر میں صدر صدام حسین کا یہی جرم نظر آتا ہے جو ”جنگل کے بادشاہ“ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے اور لگتا ہے کہ بکری کو آگے سے بولنے کے اس جرم کی سزا بہرحال بھگتنا ہی پڑے گی۔ اب اس ”فرد جرم“ پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے جو امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے جاری کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ
- عراق کے صدر صدام حسین نے فوجی منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور وہ ۴۵ منٹ کے نوٹس پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔
- صدام حسین کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحہ کے ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں اور اسے استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں، جس سے خطہ میں تباہی پھیل سکتی ہے اور عالمی استحکام کو خطرہ ہے۔
- رپورٹ میں صدام حسین کا ایک صدارتی محل بھی دکھایا گیا ہے اور اس کا بکنگھم پیلس سے کم رقبہ میں موازنہ کیا گیا ہے۔
- صدام حسین نے ۱۹۹۱ء کی خلیج کی جنگ کے بعد پابندی کے باوجود کیمیاوی، حیاتیاتی اور ایٹمی اسلحہ اور درمیانے فاصلے پر مار کرنے والے میزائل تیار کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔
- موجودہ عراقی حکومت اندرون ملک یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ایٹمی اسلحہ تیار کیا جا سکے۔ تاہم رپورٹ میں اس بات کا اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ عراق کو بم بنانے سے قبل اہم سامان کی ضرورت ہے اور اگر اقتصادی پابندیاں جاری رہتی ہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر وہ غیر ملکی ذرائع سے یہ سامان حاصل کر لے تو ایک دو سال کے دوران ایٹمی اسلحہ تیار کر سکتا ہے۔
- صدام حسین نے غیر قانونی طور پر ۲۰ الحسین میزائل پاس رکھے ہوئے ہیں جو ۶۵۰ کلومیٹر دور تک مار کر سکتے ہیں اور کیمیاوی یا حیاتیاتی ہتھیار وار ہیڈ تک لے جا سکتے ہیں۔
- اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی ملک میں عدم موجودگی کے دوران عراق نے السمود سیکوڈ پریولنٹ میزائل کی رینج ۲۰۰ کلومیٹر تک بڑھانے کی کوشش کی۔
یہ اس رپورٹ کے چند اہم نکات ہیں جس میں برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے عالمی رائے عامہ کو اور اپنے ملک کی پارلیمنٹ کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عراق کے صدر صدام حسین کا مجرم ہونا طے ہو گیا ہے اور ان کے خلاف مزید کسی تحقیق اور ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لیے دنیا کو آنکھیں بند کر کے عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے متوقع حملے کی حمایت کرنی چاہیے۔ لیکن اس رپورٹ سے صورتحال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی اور عراق کے وزیر ثقافت حمید یوسف حمادی نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور سارے الزامات وہی ہیں جو پہلے سے دہرائے جا رہے ہیں اور جن کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف برطانوی پارلیمنٹ کے اندر بھی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی اس رپورٹ کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیبر ممبر پارلیمنٹ جارج گیلوے نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور انٹیلی جینس سروسز کا تیار کردہ ’’افسانہ‘‘ ہے جس پر برطانوی عوام یقین نہیں رکھتے اور ان کی اکثریت عراق پر متوقع حملے کی مخالف ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سابق وزیر اعظم جان میجر بھی اس حملے کی مخالفت کر رہے ہیں، جبکہ سابق وزیر خارجہ لارڈکیر نگٹن نے کہا ہے کہ صدام حسین کا معاملہ دنیا کے ان دوسرے ڈکٹیٹروں سے مختلف نہیں ہے جو اپنے ملکوں کے ۔۔۔۔۔ کو دبائے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں یورپ اور ایشیا کے پچیس رہنماؤں کے تین روزہ اجلاس کے اعلامیہ میں بھی اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر عراق پر حملے کی مخالفت کی گئی اور خبردار کیا گیا ہے کہ یکطرفہ کارروائی سے عرب خطہ سنگین بحران سے دوچار ہو جائے گا۔
اقوام متحدہ میں امریکہ اور برطانیہ کی خواہش کے مطابق قرارداد منظور ہوتی ہے یا نہیں اور امریکہ عراق پر حملے کے حوالہ سے عالمی رائے عامہ کی پرواہ کرتا ہے یا نہیں، یہ بات چند روز تک واضح ہو جائے گی۔ لیکن اس ساری بحث سے قطع نظر ہم ایک اور حوالہ سے اس مسئلہ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ یہ سارا تنازعہ تو صرف ایک نکتے پر ہے کہ امریکہ کو عراق پر حملہ اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر نہیں کرنا چاہیے اور اگر اقوام متحدہ کوئی ۔۔۔۔