’’آن لائن‘‘ کے حوالے سے شائع شدہ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان سمیت بیشتر ممالک کے دینی مدارس اور سکول بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں اور امریکہ کو ان کے بارے میں تشویش ہے۔ یہ بات انہوں نے امریکی کانگریس کی خارجہ تعلقات کے بارے میں کمیٹی کے اجلاس میں دینی مدارس کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔ کولن پاول نے کہا کہ امریکی حکومت نے اس مسئلے پر متعلقہ ممالک سے متعدد بار بات چیت کی ہے، اس کے علاوہ ان مدارس میں کار آمد تعلیمی پروگرام متعارف کرانے کے لیے فنڈز مہیا کیے گئے ہیں۔ ان مدارس میں دی جانے والی تعلیم کا نظریہ تبدیل کیا جانا ضروری ہے، چنانچہ امریکی حکومت ان دینی مدارس میں کار آمد تعلیم کی فراہمی اور اصلاحات لانے کے معاملات پر صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی اے ایف پی کی اس خبر پر بھی نظر ڈال لیں کہ سعودی حکومت نے اپنے تعلیمی نصاب میں یہودیوں اور مسیحیوں کے خلاف مواد کی نشاندہی اور اسے نصاب سے خارج کرنے کے لیے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جس کی اطلاع امریکی حکومت کو بھی کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل جدہ کے اکنامک فورم سے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے اس خطاب کو بھی سامنے رکھ لیں، جس میں انہوں نے اس خطاب کی پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ کہا تھا کہ سعودی عرب کو اپنے نصاب تعلیم میں عقیدے اور کمٹمنٹ کے مواد پر نظر ثانی کرنا ہو گی، اس کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کو مخلص ساتھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں امریکہ کا اصل اعتراض یہ ہے کہ اس میں ’’نظریے‘‘ کی تعلیم دی جاتی ہے، عقیدہ پڑھایا جاتا ہے اور اپنے دین کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ کا ذہن تیار کیا جاتا ہے، جو امریکہ کے نزدیک بنیاد پرستی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اسی کی کوکھ سے دہشت گردی جنم لیتی ہے۔
مغربی حکمرانوں کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ جس طرح یہودیت، مسیحیت ، بدھ مت، ہندو ازم اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے اپنی مذہبی اقدار اور روایات سے صرف نظر کرتے ہوئے آج کے اس عالمی کلچر کو قبول کر لیا ہے جسے مغرب نے تشکیل دیا ہے اور جو مغرب کی قیادت میں دنیا میں فروغ پا رہا ہے، اسی طرح مسلمان بھی اس مغربی اور عالمی کلچر میں ضم ہونے کے لیے اپنے مذہب کی تعلیمات کو نظر انداز کر دیں۔ اسے آج کی زبان میں ’’رواداری‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے اور ایک مشترکہ عالمی کلچر کی تشکیل کے لیے اسے ناگزیر قرار دے کر اسے رو بہ عمل لانے کے لیے پیشرفت کی جا رہی ہے۔ مگر اسلام کے حوالے سے یہ صورت بوجوہ باقی مذاہب کے معاملات سے مختلف ہے، جس سے مغرب کو پریشانی اور تشویش کا سامنا ہے، مثلاً:
- اسلام کے پاس قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کی شکل میں آسمانی تعلیمات کا محفوظ اور مکمل ذخیرہ موجود ہے، جو کسی اور مذہب کے پاس نہیں۔ اس لیے اسلام کی کوئی ایسی تعبیر و تشریح مسلم معاشرے میں قابل قبول قرار نہیں پا رہی جو قرآن و سنت کے اس علمی اور محفوظ ذخیرے سے مطابقت نہیں رکھتی۔
- باقی مذاہب میں بنیادی معاملات میں تغیر و تبدل کی روایات موجود ہیں، مگر اسلام میں قرآن و سنت کی تصریحات میں رد و بدل، کمی بیشی یا ان میں نئی ترجیحات قائم کرنے کا نہ کسی کے پاس اختیار ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی اتھارٹی موجود ہے۔ بلکہ مسلمانوں کا یہ راسخ عقیدہ ہے کہ قرآن و سنت میں جن امور کی صراحت کر دی گئی ہے، ان میں رد و بدل کا قیامت تک کوئی مجاز نہیں ہے اور وہ جوں کے توں رہیں گے۔
- عام مسلمانوں کی اپنے مذہب کے علمی مآخذ اور سرچشموں تک رسائی باقی تمام مذاہب کے پیروکاروں کی نسبت زیادہ ہے اور دینی مدارس کی وجہ سے آسان بھی ہے۔ اس لیے عام مسلمانوں کو دین کی بنیادی باتوں سے منحرف کرنا، بلکہ بے خبر رکھنا بھی انتہائی مشکل امر ہے۔
- باقی تمام مذاہب معاشرتی اور اجتماعی کردار سے دستبردار ہو کر عقائد و عبادات اور اخلاقیات تک خود کو محدود کر چکے ہیں، اس طرح کسی تہذیب و ثقافت کی قیادت اور نسل انسانی کی اجتماعی رہنمائی ان کے بس کی بات نہیں رہی، جبکہ اسلام اپنے معاشرتی اور اجتماعی کردار اور مستقبل میں انسانی معاشرے کی قیادت کے دعوے سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ بلکہ اس وقت انسانی معاشرے میں نسل انسانی کے مستقبل کی قیادت کے دعوے کے ساتھ اگر کوئی مذہب، ایک مذہب اور دین کے طور پر میدان میں کھڑا ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ اسی لیے دوسرے مذاہب کے پیروکار اسے میدان سے ہٹانے کے لیے باہمی اشتراک کے ساتھ سرگرم عمل ہو گئے ہیں اور ساری تگ و دو اسی دائرے میں گردش کر رہی ہے۔
جہاں تک قرآن و سنت میں یہود و نصاریٰ کے خلاف مواد کی نشاندہی کا تعلق ہے، وہ کوئی مخفی امر نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے یہودیوں، مسیحیوں اور مشرکوں کے عقائد، تاریخی کردار اور کلچر و ثقافت تینوں کو کھل کر موضوع بحث بنایا ہے اور صراحت کے ساتھ چند باتیں کہی ہیں، مثلا:
- یہودیوں اور مسیحیوں نے تورات، زبور اور انجیل میں تحریف کر کے انبیائے کرام علیہم السلام کی اصل تعلیمات کو بگاڑ دیا ہے۔ یہ ایسی کھلی حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور اس سلسلے میں تازہ ترین شہادت گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مسیحی جریدے ماہنامہ ’’کلام حق‘‘ نے فروری ۲۰۰۴ء کے شمارے میں اس رپورٹ کے ذریعے فراہم کر دی ہے کہ ’’چرچ آف پاکستان‘‘ نے بائبل کا جو انگریزی متن شائع کیا ہے، اس میں چالیس سے زیادہ مقامات پر بائبل کی آیات یا ان کے اہم جملوں کو حذف کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں ان آیات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے، جو مذکورہ انگلش ترجمے میں اس تحریف اور رد و بدل کا نشانہ بنی ہیں۔
- قرآن کریم کہتا ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنے والے یہودی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنے والے مسیحی عقیدۂ توحید سے منحرف ہو چکے ہیں اور اس شرک کے مرتکب ہیں جس کی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمیت تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔
- قرآن کریم نے مسلمانوں کو متعدد مقامات پر واضح طور پر ہدایت کی ہے کہ وہ یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکوں کی باتوں میں نہ آئیں، ان کی پیروی نہ کریں اور ان کے نقش قدم پر نہ چلیں، کیونکہ وہ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے اور مسلمانوں کے حوالے سے ان سب کا ہدف اور ایجنڈا ایک ہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو ان کے دین سے منحرف کر دیا جائے۔
ان اصولی باتوں کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے یہودیوں اور عیسائیوں کے عقیدۂ توحید اور اپنے اصل دین سے انحراف کی پوری تاریخ کھول کر بیان کر دی ہے اور مسلمانوں کے خلاف ان کے عزائم اور سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔
ظاہر بات ہے کہ مسلمانوں کے جس مدرسے یا سکول میں دین کی تعلیم دی جائے گی، اس کا آغاز قرآن کریم سے ہوگا اور جہاں قرآن کریم کی تعلیم ہو گی، وہاں یہ سب باتیں ہوں گی۔ یہ بات تو کسی کے بس اور اختیار میں نہیں ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھاتے ہوئے کچھ باتوں کی تعلیم دے اور کچھ آیات سے یہ کہہ کر خاموشی کے ساتھ گزر جائے کہ چونکہ یہ آیات آج کے عالمی کلچر کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور ان سے مختلف مذاہب کے درمیان رواداری کی فضا مجروح ہو رہی ہے، اس لیے ان آیات کا مطلب سمجھنے یا ان کی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔
مغربی حکمرانوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ جس طرح ان کے ہاں بائبل میں رد و بدل اور اس کی آیات میں ترامیم و اضافے کی روایت موجود ہے اور اس تحریف و تغیر کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جاتا ہے، اسی طرح شاید مسلمانوں میں بھی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ قرآن و سنت کی وہی باتیں تعلیمی نصاب میں شامل رہیں جو مغرب کے لیے کسی بھی حوالے سے تکلیف کا باعث نہ ہوں اور باقی آیات و احادیث کو ادھر ادھر کر دیا جائے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے اور ہمارے عقیدے اور ایمان کے مطابق قیامت تک ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
مغرب نے اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مسلم حکومتوں کو ذریعہ بنایا ہے اور طاقت اور دباؤ کا راستہ اختیار کیا ہے، جو نیا نہیں ہے بلکہ اس سے قبل یہ تمام حربے آزمائے جا چکے ہیں:
- جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے تسلط اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد دینی تعلیم کے نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا گیا تھا، مگر قانون اور فوج کی تمام تر طاقت کے باوجود دینی تعلیم جوں کی توں باقی ہے، بلکہ اس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
- ترکی میں قانون اور پارلیمنٹ کی طاقت سے دینی تعلیم اور دینی اقدار و روایات کو ترک معاشرے سے بے دخل کر دیا گیا تھا، لیکن دینی تعلیم اور دینی اقدار کے ساتھ محبت وہاں بھی بدستور موجود ہے اور اسے دبانے کے لیے مغرب کو ہمیشہ فوج کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
- وسطی ایشیا میں روس نے کمیونزم کا آہنی پنجہ گاڑ کر ریاستی قوت کے ذریعے مذہبی تعلیم اور مذہبی اقدار کا جنازہ نکال دیا تھا، مگر پون صدی کے جبر و تشدد کا پردہ ہٹتے ہی دینی تعلیم اور دینی اقدار و روایات وہاں نہ صرف موجود پائی گئی ہیں، بلکہ مسلسل آگے بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔
اب امریکہ بھی یہی تجربہ دہرانا چاہتا ہے اور سابقہ تجربات سے سبق حاصل کرنے کی بجائے دینی مدارس، مذہبی تعلیم اور اسلامی اقدار کے خلاف یلغار کے لیے ایک نئے راؤنڈ کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کولن پاول پاکستان تشریف لانے والے ہیں اور امریکی ذرائع کے مطابق وہ ایک مضبوط اور جامع ایجنڈا لے کر پاکستان آ رہے ہیں، جس میں یقیناً دینی مدارس کا نصاب بھی شامل بلکہ سرفہرست ہو گا۔ اس موقع پر ہم محترم کولن پاول سے بصد ادب و احترام یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک ناکام تجربے کو دہرانے میں اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع نہ کریں۔ یہ درست ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہ ر ہے ہیں اس سے دینی تعلیم کا اہتمام کرنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا، وہ آزمائش اور تکالیف کے ایک نئے مرحلے سے بھی دو چار ہوں گے اور انہیں شاید اپنے نظام اور پروگرام کو باقی رکھنے کے لیے نئے راستے اختیار کرنے پڑیں، لیکن کولن پاول صاحب یقین رکھیں کہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔ مسلم معاشرے میں قرآن کریم کی تعلیم اسی طرح باقی رہے گی اور سنت نبویؐ اسی طرح پڑھائی جاتی رہے گی۔ اس میں نہ کوئی رد و بدل ہو گا، نہ کوئی ترمیم و اضافہ کر سکے گا اور نہ ہی کوئی اسلامی اصول و احکام کو نئے معانی پہنانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ اس لیے محترم کولن پاول سابقہ تجربات کے نتائج کا ہی مطالعہ کر لیں اور اس سعئ لاحاصل میں اپنا وقت، صلاحیتیں اور سرمایہ ضائع نہ کریں تو ان کے اور مسلمانوں، دونوں کے لیے فائدے کی بات ہو گی۔