مسلم امہ اور مغربی حکمرانوں کا طرزِ عمل

   
۲۵ جولائی ۲۰۰۵ء

لندن بم دھماکوں کے بعد جب برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اپنے ابتدائی ردِعمل میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی موجودہ صورت حال کو ناکافی قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے اسباب کا جائزہ لینے اور انہیں دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا تو دنیا بھر میں اس پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مسٹر ٹونی بلیئر کا ردِعمل نائن الیون کے سانحہ پر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے فوری ردِعمل سے مختلف اور ذمہ دارانہ ہے، لیکن لیبر پارٹی کی پالیسی کانفرنس میں ٹونی بلیئر کے مفصل خطاب نے اس توقع کو مشکوک قرار دے دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسٹر بلیئر بھی مسٹر بش کے ٹریک پر آ گئے ہیں اور انہوں نے بھی وہی زبان بولنا شروع کر دی ہے، جو اس سے قبل امریکی صدر کے ساتھ مخصوص سمجھی جاتی رہی ہے۔

جہاں تک لندن کے ان خود کش دھماکوں کا تعلق ہے، دنیا کے تمام باشعور حلقوں نے ان کی مذمت کی ہے اور پُرامن شہریوں کے خلاف اس قسم کی جان لیوا کارروائیوں کی حمایت سے انکار کر دیا ہے، اس لیے کہ ان حملوں کا شرعی یا اخلاقی طور پر کوئی جواز نہیں ہے۔ اگر یہ دھماکے واقعتاً ان مسلم مزاحمتی گروپوں میں سے کسی نے کیے ہیں، جنہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے تو یہ ان کی بے بصیرتی اور بے حکمتی کی علامت ہے۔ انہوں نے ان دھماکوں کے ذریعے فائدے سے کہیں زیادہ نقصانات اپنے دامن میں بھر لیے ہیں اور ان نقصانات کا دائرہ صرف ان تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیائے اسلام بالخصوص عالم اسلام کے دینی حلقوں کو بہت دیر تک ان نقصانات کے تسلسل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسلام کے اصولِ جنگ میں ویسے ہی جنگ سے لاتعلق لوگوں، بالخصوص عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے اور اس سلسلے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایت موجود ہے، جو انہوں نے جہاد میں جانے والے مجاہدین کو دی تھی کہ ”کسی عورت کو قتل نہ کیا جائے، بچے کو نہ مارا جائے، بوڑھے کی جان نہ لی جائے اور جو شخص جنگ میں براہ راست شریک نہیں اس کی جان سے تعرض نہ کیا جائے۔“ یہ بات اگرچہ تلوار، تیر، نیزے یا زیادہ سے زیادہ گولی کی جنگ کے دور سے تعلق رکھتی ہے کہ ان ہتھیاروں کے ذریعے جنگ کی صورت میں مرد و عورت، بچے و بوڑھے اور جنگ میں براہ راست شریک یا لاتعلق میں فرق کیا جا سکتا تھا، جبکہ فضائی بمباری، لمبے فاصلے سے کی جانے والی گولہ باری، جدید ترین مہلک ہتھیاروں، بالخصوص ایٹم بم کی جنگ میں اس فرق کو ملحوظ رکھنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے، مگر اس حد تک فرق آج کے دور میں بھی ملحوظ رکھا جا سکتا ہے کہ پُرامن شہریوں اور سول آبادیوں کو حملے کا نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔

بہرحال یہ ایک الگ مسئلہ ہے، جس کا ہماری گفتگو سے شاید براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ ہم لندن کے ان خود کش حملوں کے بارے میں برطانوی وزیر اعظم کے ردِعمل کی بات کر رہے ہیں، جن میں غیر متعلق اور پُرامن شہریوں کی ایک بڑی تعداد نشانہ بنی ہے اور خوف و ہراس کی ایک نئی لہر نے پورے برطانیہ کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس پر برطانوی وزیر اعظم جناب ٹونی بلیئر کا ابتدائی ردِعمل خاصا متوازن تھا۔ ہمارے خیال میں چونکہ یہ فوری ردِعمل تھا، اس لیے یہ فطری تھا اور اس کی لہر دل سے اٹھتی نظر آ رہی تھی، مگر اس کے چند روز بعد انہوں نے لیبر پارٹی کی پالیسی کانفرنس میں جو خطاب کیا، وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تھا اور اس میں بہرحال دماغ کی کار فرمائی زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان کے ایک قومی اخبار نے اے ایف پی کے حوالے سے مسٹر ٹونی بلیئر کے اس خطاب کی جو تفصیلات شائع کی ہیں، ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سردست صرف ایک حوالے سے اس کے بارے میں چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔

مسٹر ٹونی بلیئر نے لیبر پارٹی کی کانفرنس سے اپنے مذکورہ خطاب میں یہ کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ صرف ان کی دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف نہیں، بلکہ ان کے نظریات کے خلاف بھی ہے اور دہشت گردوں کے نظریات کی وضاحت انہوں نے اس طرح کی ہے کہ وہ عالم اسلام میں خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں اور مسلم ممالک میں شرعی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ دہشت گرد ہمارے طرز زندگی کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ مگر یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ اس جنگ کا تعلق نظریے سے ہے، طرز زندگی سے ہے، نظام خلافت سے ہے اور شرعی قوانین سے ہے، مسٹر بلیئر کو اصرار ہے کہ یہ تہذیبی کشمکش نہیں ہے۔ خدا جانے مسٹر بلیئر کے ذہن میں تہذیبی جنگ کا تصور کیا ہے اور وہ ثقافتی کشمکش کسے تصور کرتے ہیں، مگر مذکورہ بالا امور کا اعتراف کرتے ہوئے وہ اس کشمکش کو تہذیبی جنگ قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گویا برطانوی وزیر اعظم کے نزدیک اصل مسئلہ مسلم مزاحمتی گروپوں کی مبینہ دہشت گردی نہیں، بلکہ ان کا عقیدہ اور نظریہ ہے اور ان کی اصل جنگ اسی عقیدے اور نظریے کے خلاف ہے، جسے وہ ”بدی کا نظریہ“ قرار دے رہے ہیں اور جسے روکنے کے لیے وہ ہر قیمت پر کامیابی حاصل کرنے کے درپے ہیں۔

اس حوالے سے ہم جناب ٹونی بلیئر سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بعض مسلم مزاحمتی گروپوں کے اس طریقۂ کار سے ہمیں بھی اختلاف ہے، جس کا ایک مظہر لندن کے مذکورہ بم دھماکے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ کار کا اختلاف ہے، ہم عالم اسلام میں خلافت کے نظام کے اَحیا اور مسلم ممالک میں قرآن و سنت کے شرعی قوانین کے نفاذ کو مسلم امہ کی ایک ناگزیر ضرورت تصور کرتے ہیں اور صرف ہم ہی نہیں، بلکہ مسلم امہ کی اکثریت اس ضرورت کی قائل ہے۔ اگر مغربی رہنماؤں کو ہمارے اس دعوے کی واقعیت میں کوئی شبہ ہو تو مسلم ممالک کے خلاف سیاسی، معاشی اور عسکری جبر کا موجودہ شکنجہ ڈھیلا کر کے صرف دس سال کے لیے مسلم ممالک کے عوام کو آزادانہ رائے کے ساتھ اپنے سسٹم اور تہذیب و ثقافت کا فیصلہ کرنے کا موقع دیں، انہیں خود پتہ چل جائے گا کہ مسلم امہ کی غالب اکثریت اسلامی خلافت اور شرعی قوانین کے بارے میں کیا رائے اور جذبات رکھتی ہے۔ البتہ اس بارے میں ہم جبر اور عسکریت کا راستہ اختیار کرنے کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ رائے عامہ، سیاسی جدوجہد اور تعلیم و میڈیا کے ذرائع سے اس کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

برطانیہ خود کو دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن کہتا ہے، اس لیے برطانوی وزیر اعظم سے ہم یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر دنیا کے کسی مسلمان ملک کے عوام اپنی آزادانہ رائے اور خالص جمہوری طریقے سے اپنے لیے قرآن و سنت کے شرعی قوانین کا فیصلہ کرتے ہیں تو برطانوی حکمرانوں کے پاس اس فیصلے کو مسترد کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے اور وہ کسی ملک کے عوام کے اس جمہوری فیصلے کو ”بدی کا نظریہ“ قرار دے کر اس کے خلاف مسلح جنگ لڑنے کا آخر کیا حق رکھتے ہیں؟

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ معاشی اور عسکری بالادستی کی وجہ سے جہاں کنٹرول رکھنے والے مغربی ممالک ایک طرف مسلم ممالک پر معاشی اور عسکری جبر مسلط کیے ہوئے ہیں، وہاں عوام کی آزادانہ رائے سے قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں کے قیام میں خود بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور عالم اسلام میں شخصی بادشاہتوں، فوجی آمریتوں اور جبر کے نظاموں کی پشت پناہی بھی کر رہے ہیں، دوسری طرف اسی جبر کے خلاف اگر کسی جگہ ردِعمل زیادہ سخت ہو جاتا ہے اور عسکریت کا راستہ اختیار کر لیتا ہے تو اسے دہشت گردی قرار دے کر اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ یہ بات انصاف کی نہیں ہے، جمہوریت کی نہیں ہے اور اصول پرستی کی بھی نہیں ہے۔

اسی سے مغربی حکمرانوں کے جمہوری تصورات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ایک طرف تو سپین، کینیڈا اور دوسرے ممالک کی منتخب پارلیمنٹوں کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اگر ہم جنس پرستی کی لعنت کو جواز کی سند دے دیں اور ہم جنس پرستوں کی شادیوں کا قانونی جواز اور استحقاق تسلیم کر لیں تو یہ بالکل درست اور جمہوریت کا تقاضا ہے اور کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے، لیکن دوسری طرف ترکی کی پارلیمنٹ زنا کو جرم قرار دینے کا ارادہ کرے تو وہ اس درجہ قابلِ اعتراض بات قرار پاتی ہے کہ ترکی کے لیے یورپی یونین کی رکنیت کا امکان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ الجزائر کے عوام اسی فیصد اکثریت کے ساتھ ایسے نمائندوں کو منتخب کر لیں جو ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کے خواہاں ہوں، تو پورے مغرب میں خطرے کی گھنٹیاں بج جاتی ہیں اور جمہوریت کے علمبردار الجزائر کے عوام کے جمہوری فیصلے کے خلاف فوجی آمریت اور جبر کی پشت پناہی کو اپنا فرض قرار دے لیتے ہیں۔

جناب ٹونی بلیئر سے صرف اتنی درخواست ہے کہ اگر جنگ عقیدے اور نظریے کی ہے، طرزِ زندگی کی ہے اور قوانین و احکام کی ہے تو پھر مسلم امہ اور مسلم ممالک کے عوام کا یہ حق تسلیم کریں کہ وہ اپنے لیے طرزِ زندگی اور نظام و سسٹم کا خود فیصلہ کریں اور انہیں آزادانہ رائے کے ساتھ اپنے طرزِ زندگی اور سیاسی نظام کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے، کیونکہ جمہوریت کا تقاضا یہی ہے۔ اس سے ہٹ کر مغربی حکمرانوں نے جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے، وہ انصاف اور جمہوریت کے کسی بھی معیار پر پورا نہیں اترتا اور دنیا میں جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار ملک کو کسی طرح زیب نہیں دیتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter