گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ نے ۱۲ مئی کو ”مغربی فکر و فلسفہ کا چیلنج اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا، جس کی صدارت شعبہ کے صدر پروفیسر چودھری محمد شریف نے کی اور اس سے گفٹ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر طاہر اقبال کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی، پروفیسر ڈاکٹر مدثر احمد، پروفیسر زاہد احمد شیخ، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک اور راقم الحروف نے بھی خطاب کیا، جبکہ پروفیسر ریاض احمد نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے۔ شرکاء میں یونیورسٹی کے ایم فل کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ شہر کے مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی شامل تھے۔ خاصے عرصہ کے بعد ایک اچھی علمی و فکری نشست میسر آئی، جس میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر اقبال صاحب کی توجہ و سرپرستی اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک اور ان کے رفقاء کی محنت جھلک رہی تھی۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو معروضات پیش کیں، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ایک اچھی علمی و فکری محفل میں ممتاز اربابِ فکر و دانش کے ساتھ مل بیٹھنے اور کچھ سننے سنانے کا موقع فراہم کرنے پر گفٹ یونیورسٹی کے اربابِ حل و عقد کا شکر گزار ہوں اور اپنے پیش رو مقرر پروفیسر ڈاکٹر مدثر احمد صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مغربی فکر و فلسفہ کے حوالہ سے چند اہم سوالات اٹھا کر گفتگو کا رخ متعین کر دیا ہے اور خاص طور پر میرے لیے کچھ عرض کرنا آسان ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر مدثر احمد صاحب نے مغربی فکر و فلسفہ اور مسلمانوں کے درمیان فکری و تہذیبی کشمکش کے موجودہ تناظر کے ایک اہم پہلو پر بات کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس وقت مغربی فکر و فلسفہ کو غلبہ حاصل ہے اور ہم اس کی باتیں ایک ایک کر کے قبول کرتے جا رہے ہیں۔
- مغرب جمہوریت کی بات کرتا ہے تو ہم بھی جمہوریت کی بات شروع کر دیتے ہیں اور اس کے حوالے اسلامی تعلیمات میں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔
- مغرب انسانی حقوق کی بات کرتا ہے تو ہم بھی اسی لہجے میں انسانی حقوق کا تذکرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔
- مغرب آزادئ اظہارِ رائے کا نعرہ لگاتا ہے تو ہم بھی اسلامی تاریخ سے آزادئ اظہار کے حوالے دینا ضروری سمجھ لیتے ہیں۔
اس طرح معروضی صورت حال یہ ہے کہ ہم ظاہری طور پر مغرب کے فکر و فلسفہ سے مرعوب دکھائی دیتے ہیں اور مغرب نے ہمیں اپنی ”پچ“ پر کھلانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اس مرعوبیت کے ماحول سے نکلیں اور مغرب کی ”پچ“ پر کھیلنے کی بجائے اس سے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات کی روشنی میں مکالمہ کریں۔
ڈاکٹر مدثر احمد صاحب کا یہ ارشاد بہت اہم ہے، جس پر ہم سب کو سنجیدہ توجہ دینی چاہیے اور میں بھی اسی پہلو پر کچھ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ میں بڑے ادب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب محترم کی اس بات سے اختلاف کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے محاذ پر ہم مغرب کی پچ پر نہیں کھیل رہے، بلکہ انسانی حقوق، آزادئ رائے اور عوام کے سیاسی حقوق کی یہ پچ خود ہم نے بچھائی تھی، جس پر مغرب نے قبضہ کر لیا ہے اور ہماری کوشش یہ ہے کہ اس پچ کو مغرب کے قبضہ سے آزاد کرائیں۔
اندلس پر مغرب کے قبضہ اور مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمہ سے پہلے ہم نے مغرب کو شہری حقوق اور آزادئ رائے کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کا سبق پڑھایا تھا اور مغرب نے اس حوالہ سے جو پیشرفت کی ہے، اس کی بنیاد مسلم اسپین ہے، جس کا اعتراف آج بھی مغربی دانش ور کر رہے ہیں۔ مگر ہم مغرب کے دروازے پر انسانی حقوق، شہری آزادی، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بساط بچھا کر بدقسمتی سے سیاسی اور عسکری محاذ پر شکست کھا گئے تھے اور اقتدار سے محروم ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے ہماری پھیلائی ہوئی بساط اور بچھائی ہوئی پچ پر مغرب نے کھیلنا شروع کیا اور ابھی تک اسی پچ پر کھیلے جا رہا ہے۔ اگر ہم اندلس میں اپنی بدقسمتی اور بدنصیبی کے باعث سیاسی محاذ پر شکست نہ کھاتے اور ہماری قائم کردہ ثقافتی اور سائنسی بنیادوں کو خود ہم آگے بڑھا سکتے تو آج دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوتا، مگر ہماری سیاسی اور عسکری نااہلی نے میدانِ جنگ میں فرڈیننڈ اور ازابیلا کے ہاتھوں شکست کھا کر پورا نقشہ ہی بدل ڈالا اور ہماری فکری، تہذیبی اور سائنسی تگ و دو اور سعی و محنت خود ہمارے خلاف استعمال ہو گئی۔
اس لیے جب ہم اپنی تاریخ میں اور اسلامی تعلیمات میں آزادئ رائے، انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور اس قسم کے دیگر حوالوں سے اصول و قوانین اور واقعات کی نشان دہی کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم مغرب کے فکر و فلسفہ کی تائید کر رہے ہیں یا اس کو سپورٹ کر رہے ہیں، بلکہ اس کا مقصد بلکہ نتیجہ بھی یہ ہوتا ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ مغرب نے ہماری تہذیبی اور فکری روایات و اقدار کا سرقہ کر کے اس پر اپنی تہذیب و ثقافت کی عمارت کھڑی کر رکھی ہے۔ میں اس کی وضاحت کے لیے مثال کے طور پر چند امور کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفۂ اول منتخب ہونے کے بعد جو پہلا خطبہ ارشاد فرمایا، وہ میرے خیال میں ”پالیسی خطاب“ تھا اور اس میں حضرت صدیق اکبرؓ نے اور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ فرمایا کہ ”اگر میں قرآن و سنت کے مطابق صحیح چلوں تو تم پر ضروری ہے کہ میری مدد کرو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو تمہارا حق ہے کہ تم مجھے سیدھا کرو۔“ اسی بات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے خطبہ میں دہرایا تو ایک اعرابی نے مجمع میں کھڑے ہو کر تلوار لہرائی کہ اگر تم ٹیڑھے چلے تو اس تلوار کے ساتھ تمہیں سیدھا کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے اس پر ناراضی کا اظہار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میری رعیت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھے سیدھا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
یہ عوام کا حقِ احتساب ہے، جس کا ہمارے پہلے دونوں خلفاء نے اعلان کیا اور عوام نے یہ حق استعمال بھی کیا۔ ہم اسے مغرب کے کھاتے میں کیوں ڈالیں اور اس حقیقت کا اظہار کیوں نہ کریں کہ عوام کے اس حقِ احتساب کا اعلان سب سے پہلے ہم نے کیا تھا، جسے مغرب اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے؟
- مغرب عورت کی رائے کے حق کی بات کرتا ہے اور اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کو رائے دینے کا حق حاصل نہیں ہے اور عورت کو یہ حق مغرب نے دیا ہے، جبکہ اصل صورت حال مختلف ہے۔ بہت سے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا اسلام عورت کو حق رائے دہی دیتا ہے؟ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ صرف رائے کا نہیں، بلکہ اسلام عورت کو ”مجادلہ“ کا بھی حق دیتا ہے، اس لیے کہ عورت کی نفسیات مختلف ہے اور صرف رائے دینے کے حق سے اس کی تسلی نہیں ہوتی۔ اس لیے قرآن کریم میں ”المجادلۃ“ کے نام سے مستقل سورۃ موجود ہے، جس میں ایک عورت کے مجادلہ کا ذکر ہے، جو اس نے کسی اور سے نہیں، بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا اور اس کا فیصلہ اس عورت کے حق میں صادر ہوا تھا۔ قرآن و حدیث میں عورت کی رائے کے حق کا مختلف حوالوں سے تذکرہ کیا گیا ہے، اسے ہم مغرب کے کھاتے میں کیوں ڈالیں؟
- مغرب ویلفیئر اسٹیٹ (رفاہی ریاست) کی بات کرتا ہے اور شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کو ریاست کی ذمہ داریوں میں شمار کرتا ہے، مگر یہ اس نے کہاں سے لیا ہے؟ یہ تاریخی حقیقت ہے جس کے اعتراف میں مغرب کے انصاف پسند مؤرخ بھی بخل سے کام نہیں لیتے کہ رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ کا یہ تصور اور صرف تصور نہیں، بلکہ اس کا عملی ڈھانچہ مغرب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لیا ہے۔ اور میری طالب علمانہ رائے میں اس کی بنیاد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی پر ہے، جو امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے کہ ”جو شخص مال اور دولت چھوڑ کر فوت ہوا، اس کا مال وارثوں کو ملے گا اور جو شخص قرضہ اور بے سہارا اولاد چھوڑ کر فوت ہوا تو ”فالی و علی“ یعنی وہ میرے پاس آئے گا اور میری ذمہ داری میں ہو گا۔“ میرے خیال میں حضرت عمرؓ کا یہ تاریخی جملہ بھی اسی پس منظر میں ہے کہ ”اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کی ذمہ داری عمر پر ہو گی۔“
مجھ سے بعض دوست سوال کرتے ہیں کہ اسلام نے انشورنس کا کیا تصور دیا ہے؟ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ بیت المال کے ہوتے ہوئے ایک مسلم سوسائٹی کو انشورنس کے کسی دوسرے سسٹم کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ریاست اور بیت المال کی ذمہ داریاں ہی سب سے بڑی انشورنس ہیں، جس کے ہوتے ہوئے ہمیں اور کوئی انشورنس کا ادارہ نہیں چاہیے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ہم اپنی شان دار تعلیمات اور تابناک روایات کو خود اپنے ہاتھوں مغرب کے حوالے کیوں کریں؟
میں نے بطورِ نمونہ دو تین باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، ورنہ اس سلسلہ میں بیسیوں روایات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے جو بات ہمارے کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ہم دنیا پر یہ واضح کریں کہ مغرب نے ہماری پچ پر قبضہ کیا اور ہماری روایات و اقدار اور محنت کو سرقہ کر کے اپنے کھاتے میں ڈال لیا، البتہ یہ تبدیلی کی کہ قواعد و ضوابط بدل ڈالے۔ ہماری روایات و اقدار اور محنت کی بنیاد آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی پر ہے، جبکہ مغرب نے وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات سے بغاوت کر کے سوسائٹی کی خواہشات کو بنیاد بنا لیا۔ مغرب کی سب سے بڑی اور بنیادی غلطی یہی ہے اور اس کا ہمارے ساتھ فکری اور تہذیبی تنازع بھی یہی ہے کہ ہم یہ سب کچھ آسمانی تعلیمات، وحی الٰہی اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی ہدایات کے دائرے میں کرتے آ رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں، مگر مغرب نے انسانی سوسائٹی کی خواہشات کے دائرے میں لا کر اس سب کچھ کی افادیت کو ختم کر دیا ہے۔
میرے نزدیک مغرب کے ساتھ مکالمہ و مجادلہ کا اصل دائرہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی مخالفت کے شوق میں خود اپنی روایات و اقدار کی نفی میں نہ لگ جائیں، بلکہ دنیا پر مغرب کی اصل غلطی کو واضح کریں اور بتائیں کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور سیاسی و معاشرتی ارتقاء سب انسانی سوسائٹی کے لیے ضروری ہیں، لیکن ان کو صحیح رخ پر رکھنے کے لیے وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی بالادستی ضروری ہے، اس کے بغیر یہ تہذیبی اور سائنسی ترقی انسانی معاشرے کے لیے فائدہ کی بجائے نقصان اور تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔