متفرق رپورٹس

   
رپورٹس
-

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کی ریلی

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے آج گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ختم نبوت ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قیام کا فیصلہ مینار پاکستان کی گراؤنڈ میں ہوا تھا اور کل سات ستمبر کو قوم پاکستان کو بچانے کے لیے اسی میدان میں جمع ہو رہی ہے۔ کل قوم پاکستان کی نظریاتی، تہذیبی اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے تجدیدِ عہد کرے گی اور عقیدہ و ایمان کے بقا اور ترویج کی جنگ کے نئے دور کا آغاز ہو گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(از: حافظ دانیال عمر ۔ سیکرٹری مرکز مطالعہ خلافت راشدہ گوجرانوالہ ۔ ۷ ستمبر ۲۰۲۴ء)

۷ ستمبر ۲۰۲۴ء مینار پاکستان ختم نبوت کانفرنس پر مبارک باد اور مولانا فضل الرحمٰن کا جواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سات ستمبر کو مینار پاکستان لاہور کی گراؤنڈ میں ختم نبوت گولڈن جوبلی کا عظیم الشان اور تاریخ ساز اجتماع ہماری دینی جدوجہد کی تاریخ کا ایک عظیم باب ہے جس نے دنیا پر ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے وطن کی نظریاتی شناخت، دستور کی اسلامی اساس، اور امت مسلمہ کے اجتماعی عقائد، روایات اور تہذیب و ثقافت پر ہمیشہ کی طرح آج بھی پوری استقامت اور دل جمعی کے ساتھ قائم ہیں اور اس سلسلہ میں تمام تر ابہامات اور خدشات کو پوری قوت کے ساتھ مسترد کر رہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

پاکستان شریعت کو نسل کے امیر حضرت مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی دامت برکاتہم اور ان کی قیادت میں پاکستان شریعت کونسل اس موقع پر تحریک ختم نبوت میں اس شاندار پیشرفت پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت خواجہ ناصر الدین خاکوانی دامت برکاتہم، اور دیگر تمام قائدین، رفقاء کرام اور شرکاء کانفرنس کو مبارک باد پیش کرتی ہے، اور کانفرنس کے فیصلوں اور اعلانات کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتی ہے۔

راقم الحروف باضابطہ دعوت کے باوجود گھٹنوں کے شدید درد کے باعث کانفرنس میں حاضر نہیں ہو سکا، جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے تمام راہنماء اور کارکن ختم نبوت گولڈن جوبلی کانفرنس کی تیاریوں اور کامیابی کی جدوجہد میں ہر سطح پر لمحہ بہ لمحہ شریک چلے آرہے ہے ہیں اور آئندہ بھی شریک رہیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اس کے علاوہ ملک بھر میں کسی جگہ بھی یوم ختم نبوت کے حوالے سے کسی بھی جماعت، حلقہ اور طبقہ کی طرف سے جو اجتماعات منعقد ہوئے ہیں، ان سب کے منتظمین اور شرکاء کو پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے ہدیہ تبریک و تشکر پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمارے ان جذبات و احساسات اور حمیت دینی کو ہمیشہ قائم رکھیں اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا ذریعہ بنا دیں، آمین یا رب العالمين۔

ابو عمار زاہد الراشدی
سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کو نسل
۸ ستمبر ۲۰۲۴ء

مفکر اسلام مولانا زاہدالراشدی صاحب کے خط کے جواب میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا جوابی میسج: ’’آپ کا بہت شکریہ اور یوم الفتح کی عدیم المثال کانفرنس کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ رب العزت قبولیت سے سرفراز فرمائے، آمین۔

(جاری کردہ: مولانا مفتی محمد نعمان پسروری (امیر)، مولانا محمد عثمان رمضان (سیکرٹری جنرل) پاکستان شریعت کونسل پنجاب)

انٹرویو ’’یادِ حیات‘‘

ان دنوں میں اپنے دو عزیز پوتوں طلال خان اور ہلال خان کے حصار میں ہوں، وہ میرے حالاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ دینی و تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو کر رہے ہیں۔ تین چار نشستیں کر چکے ہیں اور رفتار بتا رہی ہے کہ مزید کئی نشستیں درکار ہوں گی۔ اس پر ربع صدی قبل کا ایک منظر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا کہ ایک فرانسیسی صحافی مائیکل اسکاٹ نے پاکستان آمد کے موقع پر گوجرانوالہ میں چند روز قیام کے دوران میرا تفصیلی انٹرویو کیا تھا اور میرے دو بیٹوں عمار خان اور عامر خان نے ترجمانی کا کردار ادا کیا تھا، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

(از: ابدال خان ناصر۔ ۹ ستمبر ۲۰۲۴ء)

بابائے جمہوریت کی یاد میں

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی بارہ ستمبر کو کمیٹی گراؤنڈ علی پور مظفرگڑھ میں منعقدہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کے لیے جاتے ہوئے خان گڑھ میں رکے، جامعہ عثمانیہ میں علماء کرام سے ملاقات کرنے کے بعد بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ مفتی محمد عثمان جتوئی اور حافظ شاہد میر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کے مشکل حالات میں نواب صاحب بہت یاد آتے ہیں، اللہ پاک ان کے درجات جنت میں بلند فرمائیں اور ملک و قوم کے بارے میں ان کے عزائم اور جدوجہد کو تکمیل نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(از: حافظ شاہد الرحمٰن میر، شریکِ سفر۔ ۱۲ ستمبر ۲۰۲۴ء)

توہینِ رسالت اور آزادئ رائے

استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی کا معمول ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورہ حدیث کے طلبہ کو جمعرات کے روز ایک پیریڈ میں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے عالمی منشور کے حوالے سے لیکچر دیتے ہیں۔ آج ۱۲ ستمبر ۲۰۲۴ء کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی ۱۸ویں دفعہ زیر بحث تھی، جس میں آزادی رائے کی بات کی گئی ہے۔

استاذ محترم نے فرمایا کہ بین الاقوامی اداروں کا ہم سے مسلسل تقاضا چلا آ رہا ہے کہ ناموس رسالت کے تحفظ کے قوانین کو ختم کریں کیونکہ وہ ان کے نزدیک آزادی رائے کے انسانی حق کے منافی ہیں۔ جبکہ ہمارا عالمی حلقوں سے مطالبہ ہے کہ وہ توہین رسالت کو جرم تسلیم کریں کیونکہ جب دنیا کے ہر ملک میں کسی بھی عام شہری کی توہین جرم ہے اور اسے جرم قرار دے کر کوئی نہ کوئی سزا مقرر کی گئی ہے تو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت اس سے کہیں بڑا جرم ہے۔
دوسرا یہ کہ محترم شخصیات کی توہین سے ان کے لاکھوں معتقدین کے جذبات بھی مجروح ہوتے ہیں، جو اپنی جگہ ایک مستقل جرم سمجھا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ مغرب کا ہم پر یہ الزام بھی ہے کہ ہم اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے جبکہ ہمارا مغربی دانشوروں سے شکوہ ہے کہ وہ اختلاف اور توہین میں فرق نہیں کرتے اور آزادی رائے کے عنوان سے مقدس مذہبی شخصیات بالخصوص حضرات انبياء كرام عليہم السلام کی اہانت کو جائز قرار دیتے ہیں۔

استاذ محترم نے کہا کہ اس پس منظر میں ہمارا بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ سے مطالبہ ہے کہ توہین رسالت اور توہین مذہب کو جرم تسلیم کیا جائے اور عالمی سطح پر اس کے بارے میں قانون سازی کی جائے۔

استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ اس سلسلہ میں وہ اپنے احباب سے یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ اگر عالمی اداروں نے ہماری بات کو تسلیم کر کے توہین رسالت کو بین الاقوامی ماحول میں جرم قرار دے دیا اور اس کے مطابق قانون سازی کی گئی تو قانون میں نبی اور رسول کی قانونی تعریف بھی کی جائے گی اور وہ بین الاقوامی ماحول اور مسلّمات میں کی جائے گی، اس کے لیے ہمارے معیارات کو بنیاد نہیں بنایا جائے گا بلکہ جس شخص کو بھی انسانی آبادی کا کوئی معتد بہ حصہ نبی مانتا ہے وہ اس دائرہ میں شامل ہوگا اور بین الاقوامی قانون میں اس کی توہین جرم قرار پائے گی۔ اس کا سچا اور جھوٹا ہونا الگ بات ہے مگر جس شخص کی اہانت اس کے پیروکاروں کے جذبات و احساسات کے مجروح ہونے کا ذریعہ بنے گی اس کی توہین کو اس قانون کی رو سے جرم سمجھا جائے گا۔

اس لیے دوسرے مذاہب کے راہنماؤں کے بارے میں توہین آمیز لب و لہجہ اختيار کرنے والوں کو اس کا خیال کرنا پڑے گا کہ ایسا کوئی قانون بن جانے کے بعد کہیں وہ خود اس کی زد میں نہ آجائیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ دوسروں کے پیشواؤں کی توہین اپنے بزرگوں کی توہین کا سبب بنے گی جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ دوسروں کے باطل معبودوں کو برا نہ کہو تاکہ وہ دشمنی میں تمہارے سچے خدا کو برا نہ کہہ سکیں۔

(حافظ فضل اللہ راشدی۔ شریک دورہ حدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ ۔ ۱۵ ستمبر ۲۰۲۴ء)

گستاخ رسولؐ کا قتل اور مروجہ قانون

استاذ محترم مفکر اسلام علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی جامعہ مدینۃ العلم جناح کالونی گوجرانوالہ میں بھی ہفتہ میں چند دن بخاری شریف کے چند ابواب پڑھاتے ہیں۔ آج ۱۵ ستمبر کو جب حضرت کلاس میں تشریف لائے تو طلبہ نے عرض کیا کہ آج سبق پڑھانے کے بجائے گستاخ رسولؐ کے قتل کے حالیہ واقعہ کے بارے میں کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ طلبہ کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے حضرت نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

جہاں تک گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کا تعلق ہے تو وہ موت ہی ہے، مگر یہ موت قانون کے ذریعے ہونی چاہیے۔ کسی عام شخص کا قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ قانون کے ذریعے ہی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔

سوال ہوا کہ قانون تو اس حوالے سے مؤثر ثابت نہیں ہو رہا اور ثابت شدہ گستاخان رسولؐ کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے ہی لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں؟ اس پر استاذ جی نے فرمایا: یہ بات درست ہے کہ قانون کا عملدرآمد نہ ہونا ہی قانون کو ہاتھ میں لینے کا باعث بن جاتا ہے۔ اس صورتحال کے ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں، مگر اس کے باوجود قانون کو ہاتھ میں لینے کی حمایت نہیں کی جا سکتی، قانون کی پابندی ہی صحیح راستہ ہے۔

ایک دوست نے سوال کیا کہ اگر کوئی مسلمان جذبہ غیرت سے مغلوب ہو کر گستاخ رسولؐ کو موقع پر ہی قتل کر دے اور قانون اسے گرفتار کر لے تو ایسی صورت میں کیا ہونا چاہیے؟

استاد محترم نے جواب دیا: فوری اشتعال کے تحت کیے جانے والے قتل پر تو قانون میں بھی بعض معاملات میں گنجائش ہے، مگر بعد میں پلاٹنگ کر کے قتل کی کاروائی شاید اس دائرے میں نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ہمارے ہاں قضا کے نظام میں مثال موجود ہے کہ قاضی کا فیصلہ اگر قانون اور شریعت کے اصل تقاضا سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو وہ قضاً‌ تو نافذ ہو جاتا ہے مگر دیانتاً‌ نہیں۔ یہاں بھی کچھ اس قسم کی ہی صورتحال محسوس ہوتی ہے۔

(از: محمد مزمل، جامعہ مدینۃ العلم، گوجرانوالہ ۔ ۱۶ ستمبر ۲۰۲۴ء)

مولانا فضل الرحمٰن اور موجودہ سیاسی منظر

۱۷ ستمبر کو چناب نگر میں مجلسِ احرار اسلام کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے دورانِ سفر پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی سے قائد جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان کی موجودہ سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سن ۷۳ء میں دستور پاکستان کی تشکیل کے دوران دستور کو اسلامی جمہوری اور وفاقی بنانے کے لیے حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، جبکہ جناب یوسف رضا گیلانی کے دورِ حکومت میں دستور پر نظر ثانی کے موقع پر دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے لئے مولانا فضل الرحمٰن نے اس کردار کا تسلسل قائم رکھا، اور اب وہ دستور کی وفاقی حیثیت کو بچانے اور قوم کے متفقہ دینی و ملی فیصلوں کو سبوتاژ ہونے سے بچانے کی تگ و دو کر رہے ہیں، ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں، اللہ پاک اس مہم میں بھی انہیں سرخرو فرمائیں، آمین یارب العالمین۔

چناب نگر جانے والے قافلہ میں مولانا حافظ محمد عمیر چنیوٹی، مولانا عامر حبیب، مولانا دانیال عمر، مولانا حماد ارشد، اور حافظ شاہد الرحمٰن میر بھی شامل تھے۔

(منجانب: حافظ نصر الدین خان عمر ۔ امیر پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ ۔ ۱۷ ستمبر ۲۰۲۴ء)

بین الاقوامی عرف و تعامل اور اسلامی تعلیمات

اٹھارہ ستمبر کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں انسانی حقوق کے عالمی منشور پر لیکچر کے دوران استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ بین الاقوامی عرف و تعامل کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ نہ ساری باتیں قابل قبول ہیں اور نہ ہی سب کو مسترد کیا جائے گا۔ اپنے دور کی بہت سی ایسی باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسترد فرما دی تھیں مگر کچھ قبول بھی فرمائی ہیں۔ مثلاً‌:

(۱) بادشاہوں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھنے کے لیے اسی اصول کے مطابق مہر بنوائی اور خطوط براہ راست بادشاہوں تک پہنچانے کی بجائے ان کے طریق کار کے مطابق ان کے صوبائی حکام کو پیش کیے گئے۔

(۲) اسی طرح مسیلمہ کذاب کے دو نمائندے اس کا خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کے سامنے آپ کے رسول اللہ ہونے کا اقرار کرتے ہوئے مسیلمہ کو بھی اللہ کا رسول کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سفیروں کو قتل نہ کرنے کا عرف نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ختم نبوت کے عقیدے سے انحراف کی وجہ سے وہ دونوں مرتد اور واجب القتل تھے مگر بین الاقوامی عرف و تعامل کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے احتراز فرمایا اور وہ دونوں زندہ واپس چلے گئے۔

(از: حافظ ثوبان الراعی، جامعہ محمدیہ فیصل آباد۔ ۱۹ ستمبر ۲۰۲۴ء)

مولانا فضل الرحمان حضرت مفتی محمودؒ کے نقشِ قدم پر

استاد محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ نے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمان صاحب کی موجودہ سیاسی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جمعیۃ علمائے اسلام کے قائد کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمان صاحب موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اور معاملہ فہمی سے جو کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، بالکل ایسا کردار ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں حضرت مفتی محمود رحمہ اللہ نے بطور قائد جمعیۃ ادا کیا تھا۔ ان انتخابات میں جمعیۃ علماء اسلام کو صوبہ سرحد کی اسمبلی میں چالیس کے ایوان میں چار نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور دو آزاد ارکان الیکشن کے بعد جمعیۃ میں شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح جمعیت کے پاس چالیس میں چھ سیٹیں تھیں اور صوبائی حکومت کے لیے اصل مقابلہ نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ کے درمیان تھا۔ یہ دونوں جماعتیں شروع سے سیاسی حریف چلے آ رہے تھے۔ اس لیے دونوں نے جمعیۃ علماء اسلام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مولانا مفتی محمودؒ نے موقع کی نزاکت کا اچھی طرح اندازہ کر لیا اور تعاون کے لیے درج ذیل شرائط عائد کیں:

(۱) وفاق میں دستور ساز اسمبلی میں دستور پاکستان کی ترتیب و تدوین کے دوران اسلامی امور میں جمعیۃ سے تعاون۔

(۲) صوبہ بھر میں اسلامی قوانین و احکام کے نفاذ کو بنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
(۳) صوبہ میں وزیر اعلیٰ جمعیۃ علماء اسلام کا ہو گا۔

یہ شرائط دونوں نے منظور کر لیں لیکن جمعیۃ علماء اسلام نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر صوبہ سرحد میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا، اور نہ صرف مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے بلکہ اسلامی اصلاحات کے نفاذ اور سادگی کے ساتھ حکومت کرنے کی جو مثال اس دس ماہ کے دوران قائم کی وہ ان کی شخصیت اور جمعیۃ کی تاریخ کا ایک نمایاں باب بن گیا۔

(از: احمد فدا۔ شریک دورۂ حدیث جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ۔ ۱۹ ستمبر ۲۰۲۴ء)
2016ء سے
Flag Counter