ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان

   
تاریخ : 
جون ۱۹۸۸ء

روزنامہ جنگ لاہور ۹ جون ۱۹۸۸ء میں صفحۂ اول پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ایم آر ڈی (موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی) کے راہنما مولانا فضل الرحمان نے کوئٹہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم آر ڈی کے کنوینر مسٹر معراج محمد خان نے ایم آر ڈی کے پروگرام پر مشتمل جن ۲۰ نکات کا اعلان کیا ہے ان کے ساتھ ایک ۲۱ واں نکتہ بھی طے پایا تھا جو ان نکات سے حذف کر دیا گیا ہے اور وہ نکتہ اسلامی نظام کے بارے میں تھا۔ مولانا موصوف نے مذکورہ خطاب میں یہ شکایت بھی کی ہے کہ ایم آر ڈی کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں جنیوا معاہدہ کی حمایت یا افغان مہاجرین کو نکالنے کا تذکرہ تک نہیں ہوا تھا مگر جاری کردہ قراردادوں میں اسے شامل کر لیا گیا ہے۔ روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے ان شکایات کا ذکر کرنے کے بعدخبردار کیا ہے کہ اس قسم کی باتیں اس عظیم اتحاد کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے جن امور کو اپنی شکایات کی بنیاد بنایا ہے وہ نئے نہیں بلکہ ایک عرصہ سے مختلف عنوانات پر قوم کے سامنے آرہے ہیں۔ یہی وہ امور ہیں جن کے باعث جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم نے ایم آر ڈی میں شرکت سے انکار کر دیا تھا اور مولانا فضل الرحمان نے اس مومنانہ بصیرت کو غیر سیاسی رویہ قرار دیتے ہوئے ایم آر ڈی میں شمولیت کی خاطر علماء حق کی عظیم قوت کو دولخت کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ قارئین گواہ ہیں کہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے قائدین کی طرف سے ایم آر ڈی میں شامل نہ ہونے کی بنیادی وجوہ یہی بیان کی جاتی رہی ہیں کہ

  • ایم آر ڈی اسلامی نظام کو اپنے پروگرام کے بنیادی نکتہ کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
  • ایم آر ڈی کے ذمہ دار قائدین نے کھلم کھلا قادیانیت کی حمایت کی ہے۔
  • دیت، پردہ، شہادت اور دیگر مسائل میں قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے خلاف ایم آر ڈی کے قائدین بیان بازی میں مصروف ہیں۔

ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان نے ان وجوہ کو دور کرنے اور ایم آر ڈی کی قیادت کو اس قسم کی باتوں سے گریز پر آمادہ کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اور بالآخر انہیں یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ

  • ایم آر ڈی کی قیادت نے اسلامی نظام کے بارے میں (مولانا فضل الرحمان کے بقول) طے شدہ نکتہ کو بھی پروگرام کے نکات میں شال کرنا گوارا نہیں کیا،
  • اور افغان مجاہدین کی مخالفت اور جنیوا معاہدہ کی حمایت کو قراردادوں میں شامل کر لیا ہے۔

یہ دو امور وہ ہیں جن کی نشاندہی مولانا فضل الرحمان نے کی ہے، ان کے ساتھ ہم ایک اور نکتہ کی نشاندہی بھی ضروری سمجھتے ہیں جس پر مولانا موصوف نے توجہ نہیں دی یا اسے گول کرنے میں عافیت سمجھی ہے کیونکہ ایم آر ڈی کے ۲۰ نکات میں ۱۶ نکتہ یہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ

’’(۱۶) خواتین کے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم کر دیے جائیں گے‘‘۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۷ جون ۱۹۸۸ء)

پردہ، دیت، شہادت اور دیگر معاملات میں شریعت اسلامیہ نے مرد اور عورت کے احکام میں جو واضح فرق کیا ہے اس کے بارے میں ایم آر ڈی کے ذمہ دار لیڈروں کے سابقہ بیانات کو سامنے رکھا جائے تو اس نکتہ کا واضح مطلب یہ بنتا ہے کہ ایم ار ڈی کی لیڈرشپ عورت کی نصف گواہی، نصف دیت اور پردہ جیسے شرعی احکام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور ان میں سے جو احکام اس وقت (برائے نام سہی) نافذ ہیں انہیں بھی ختم کر دینا چاہتی ہے۔

یہ ہے وہ منطقی نتیجہ اس نظریاتی کشمکش کا جو ایم آر ڈی میں شمولیت یا عدم شمولیت کے بارے میں گزشتہ آٹھ برس سے جمعیۃ علماء اسلام کے نام پر ملک میں جاری ہے۔ اور یہ بات اب بالکل بے غبار ہو کر سامنے آگئی ہے کہ حضرت درخواستی دامت برکاتہم،جمعیۃ علماء اسلام پاکستان سے وابستہ علماء و کارکنوں کی غالب اکثریت اور ملک کے علمی و دینی حلقوں نے ایم آر ڈی میں شامل نہ ہونے کا جو موقف اختیار کیا تھا وہ بالکل درست اور حق تھا۔ اور ایم آر ڈی کی قیادت کے آٹھ سالہ مسلسل طرز عمل نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔

مولانا فضل الرحمان اور ان کے رفقاء اس کے بعد بھی اگر ایم آر ڈی سے وابستہ رہنے اور اس ہٹ دھرمی کو ’’سیاست کا تقاضا‘‘ قرار دینے پر مصر ہیں تو ان کی مرضی، ورنہ انصاف کی پکار یہی ہے کہ وہ اپنے آٹھ سالہ طرز عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی صفوں میں واپس آجائیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو ایم آر ڈی پر ضائع کرنے کی بجائے علماء حق کی عظیم دینی و سیاسی قوت کو متحد اور مستحکم کرنے پر صرف کریں۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
   
2016ء سے
Flag Counter