اقوام متحدہ نے گزشتہ دنوں ’’ملالہ ڈے‘‘ منایا اور مختلف ممالک میں اس حوالہ سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ خود ملالہ یوسف زئی نے بھی ایک بڑی تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ وہ نوجوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف کی جگہ قلم اور کتاب پکڑانا چاہتی ہیں۔ یہ خواہش بہت معصوم سی ہے اور ملالہ جیسی بھولی بھالی بچیوں کی زبانوں پر ہی آسکتی ہے، جبکہ مغرب اس بچی کی معصومیت اور اس کی معصوم خواہش کو ایکسپلائیٹ کر کے جو فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے اور کر رہا ہے، محاورے کی زبان میں اس کی ملالہ یوسف زئی کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوگی۔
آج مولانا محمد شریف چترالی کی کتاب ’’تحریکات حریت‘‘ پڑھتے ہوئے ’’میوند‘‘ کی جنگ میں برطانوی استعمار کے خلاف لڑنے والی ایک خاتون ’’ملالئے‘‘ کا تذکرہ نظر سے گزرا، جی چاہا کہ ملالہ کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ملالئے کا کردار بھی قوم کی نظر میں رہنا چاہیے، کیونکہ قلم اور کلاشنکوف کا اپنا اپنا میدان ہے اور اپنی اپنی ضرورت ہے۔ توازن دونوں کرداروں کو سامنے رکھ کر ہی قائم ہو سکتا ہے اور یہی توازن اس وقت امت مسلمہ کی ضرورت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ چترالی صاحب کیا لکھتے ہیں:
’’قندھار کے قریب واقع میوند کی بستی کے ساتھ غیرت مند افغان مسلمانوں کی جرأت و شجاعت اور جانثاری اور دلیری کی حسین یادیں وابستہ ہیں۔ یہ وہ میدان ہے ، جہاں غاصب و ظالم انگریز فوج کے ۱۲ ہزار مسلح جنگجو ملت افغان کے غراتے ہوئے شیروں کے نرغے میں آگئے تھے اور پورے لشکر میں سے صرف ۲۵ آدمی بھیس بدل کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اس جنگ کا مختصر احوال تاریخ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
کابل اور اس کے اطراف کی طرح جنوبی افغانستان میں بھی انگریز کے خلاف عوامی غم و غصے کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ ہرات میں مجاہدین کے دستے جمع ہوگئے اور قندھار پر حملہ کرنے کے لیے منصوبے سوچے جانے لگے۔ پورے ملک کی سطح پر کوئی غیر متنازع اور ولولہ انگیز قیادت نہ ہونے کی وجہ سے ملت افغان کی اجتماعی قوت منتشر تھی، جس سے انگریز فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اسی اثناء میں شمالی افغانستان سے ایک عام کمانڈر اور معمولی حیثیت کے سردار عبد الرحمن خان نے انگریزوں کے خلاف پورے افغانستان کے مسلمانوں کو متحد کر کے فیصلہ کن جنگ کرنے کا اعلان کیا اور اپنی فطری صلاحیتوں کی بنا پر بہت جلد اس کی دعوت کا شہرہ پورے افغانستان میں ہونے لگا۔ ہرات کے مجاہدین نے اس دعوت کی خبر سن کر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا اور ہرات میں حکومت کرنے والے محمد ایوب خان کے گورنر کو اعلان جنگ کرنے پر ابھارا۔ اس کے مسلسل انکار اور ٹال مٹول پر مجاہدین نے اس کو قتل کر دیا اور اس کے نائب حفیظ اللہ کی قیادت میں ہرات سے قندھار کی جانب کوچ کیا۔ محمد ایوب خان نے بھی حالات کی نزاکت کے پیش نظر ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ۱۲ ہزار مجاہدین کا قافلہ فراہ اور گرشک کے راستے سے روانہ ہوا جس کے ساتھ راستے میں ادھر ادھر کے دیہات کے مجاہدین بھی ملتے گئے۔ ۲۰ جولائی کو یہ قافلہ قندھار کے قریب میوند کے بے آب و گیاہ اور خشک میدان میں پہنچا۔ قندھار میں متعین انگریز فوج کا ۱۲ ہزار کا لشکر قندھار کے کٹھ پتلی حکمران شیر علی کے دستوں اور بھاری توپ خانے کے ساتھ مقابلے کے لیے پہنچا۔
انگریز فوج نے مجاہدین کو میوند کے میدان میں روکنے کا فیصلہ کیا جو ہر لحاظ سے مجاہدین کے لیے تکلیف دہ تھا۔ قدرت کا کرشمہ یہ ہوا کہ شیر علی کے بہت سے ساتھی بھی اس قوی جنگ میں شرکت کے لیے مجاہدین کے ساتھ آملے اور انگریزوں کو پہلے ہی مرحلے میں نفسیاتی شکست ہوئی۔ انگریزوں میں مجاہدین پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں تھی اس لیے وہ مجاہدین کو پانی اور رسد کی مشکلات میں پھنسا کر اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں تھے۔ لیکن مجاہدین نے اس چیلنج کا بھی مقابلہ کیا اور ۶ ہزار مجاہدین نے میوند کے میدان میں ایک پرانی کاریز صاف کر کے مرمت کی جس سے مجاہدین کے لیے پانی جاری ہوگیا۔ انگریز اور مجاہدین آمنے سامنے ہوئے اور انگریزوں نے جنگ سے بچنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے لیکن ناکام ہوئے۔ شروع شروع میں چھ دن تک معمولی معمولی جھڑپیں ہوتی رہیں اور آخر کار ساتویں روز دشمن کے توپ خانے سے آگ برسنی شروع ہوئی۔ صبح سے دوپہر تک جنگ ہوتی رہی اور دونوں جانب کے ۵۰۰ آدی مقتول اور ۸۵۰ زخمی ہوئے۔ مجاہدین کے کمانڈر حفیظ اللہ نے اچانک اپنی فوج کو ’’پروت پوزیشن‘‘ اختیار کرنے کا حکم دیا اور ان میں سے ۴ ہزار مجاہدین کو مختلف اطراف میں نکلنے کا حکم دیا۔
انگریز یہ سمجھے کہ مجاہدین نے پسپائی اختیار کی ہے، اس لیے انگریزوں نے اپنے سامنے لڑنے والے مجاہدین پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اسی اثناء میں مجاہدین نے تینوں اطراف سے انگریزوں کے عقب پر حملہ کیا۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی اور انگریز چاروں طرف سے گھیرے میں آگئے۔ آگ اور خون کے درمیان سے صرف چھ سو انگریز فرار ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن مجاہدین نے ان کا پیچھا بھی نہ چھوڑا اور ایک باغ کی چار دیواری میں چھپے ہوئے ان انگریزوں کا بھی صفایا کر دیا۔ شیر علی صرف ۲۵ انگریزوں کو افغانیوں کا لباس پہنا کر قندھار پہنچانے میں کامیاب ہوا اور پوری انگریز فوج کے مجاہدین کے ہاتھوں ختم ہونے کی خبر قندھار میں جنرل پریموز کو دی۔
اس جنگ میں بھی افغان خواتین نے نمایاں کردار ادا کیا، ان خواتین میں سے ایک خاتون ’’ملالئے‘‘ کے نام سے آج بھی اپنی جرأت و بہادری کی بنا پر مشہور ہے۔ اس خاتون نے مجاہدین کے جھنڈے اٹھانے والے کمانڈر کو شہید ہوتا دیکھ کر فورًا اس کے پاس پہنچی اور اپنی جان کی بازی لگا کر مجاہدین کا جھنڈا اٹھایا اور اسے سرنگوں ہونے نہیں دیا۔ ملالئے جہادی شاعرہ بھی تھی، اس کے دل گرما دینے والے اشعار آج بھی افغانوں کی زبانوں پر ہیں۔ میوند کے میدان میں مجاہدین کا لہو گرمانے کے لیے اس نے یہ شعر پڑھا تھا:
کہ پہ میوند کی شہید نہ شوئی
خدا یگو لالیہ پہ ننگے تہ دی ساتینہ
(اگر تم میوند میں شہید نہ ہوئے تو سمجھو کہ بے غیرتی کی زندگی گزارو گے۔)یہ خاتون اپنی آرزو اور جذبات کے مطابق میوندد ہی میں شہید ہوئی اور وہیں آسودہ خاک ہوئی۔‘‘