پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان ہندوستان کو تقسیم کر کے بنا ہے۔ جب انگریز برصغیر میں آئے تھے تو متحدہ ہندوستان اورنگزیب کے زمانے سے ایک ملک چلا آ رہا تھا جو اَب چار ملکوں میں تقسیم ہو گیا ہے یعنی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور برما۔ جب انگریزوں نے یہاں قبضہ کیا تو
- پہلے انہوں نے برما کو الگ کیا۔
- اس کے بعد ہندوستان کی آزادی کے وقت یہاں کی سیاسی پارٹیوں میں دو نقطۂ نظر سامنے آ گئے کہ مسلمانوں کے لیے الگ ملک ہونا چاہیے، اس پر آپس کی تقسیم بھی ہوئی اور اختلافات بھی ہوئے لیکن بہرحال پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو الگ الگ آزاد ریاستیں تسلیم کی گئیں۔
- پھر پاکستان میں دو حصے شامل تھے، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان، ایوب خان کے زمانے میں پاکستان کے یہ دو بڑے صوبے تھے۔ پھر یحییٰ خان کے زمانے میں یہ دو حصے الگ ہو گئے، مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا، اور مغربی پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے الگ ملک بنا۔
یوں اس تقسیم میں چار الگ الگ ملک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔
پاکستان بن جانے کے بعد نفاذِ اسلام کی جدوجہد کن مراحل سے گزری اور کیا پیشرفت ہوئی؟ ۱۹۴۷ء میں پاکستان بنا تو بنگلہ دیش بھی مشرقی بنگال کے طور پر ہمارا حصہ تھا۔ اس وقت پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بھی دونوں حصوں سے تھی۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان سے منتخب نمائندوں سے متفقہ دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی جس نے یہ طے کرنا تھا کہ پاکستان کا دستور اور آئین کیا ہو گا اور پاکستان کا نظام کیا ہو گا۔ دستور ساز اسمبلی کے طور پر ملک میں انتخاب ہوا اور ملک کے مختلف حصوں سے نمائندے منتخب ہو کر آئے۔ ان میں مشرقی پاکستان سے سلہٹ کے علاقے سے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جو جمعیت علماء اسلام کے سربراہ تھے منتخب ہو کر دستور ساز اسمبلی میں آئے اور دستور سازی کا آغاز ہو گیا۔
پاکستان بننے کے بعد دستور ساز اسمبلی میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گا یا سیکولر ریاست ہو گا؟ ملک کے دستور اور آئین کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق ہو گا یا نہیں ہو گا؟ دستور ساز اسمبلی میں دستور کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ بحث شروع ہو گئی۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم تھے، وزیراعظم خان لیاقت علی خان مرحوم تھے، وزیر قانون جوگندر ناتھ ہندو تھے، اور وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی تھا۔ یہ ایک مخلوط سی وزارت تھی۔ دستور ساز اسمبلی میں سب سے پہلا مسئلہ یہ پیش آیا کہ پاکستان اسلامی ریاست ہو گی یا سیکولر ریاست ہو گی؟ مشرقی پاکستان سے بہت سے ہندو بھی نمائندے تھے، اور مسلم لیگی یا دوسروں میں بھی بہت سے سیکولر لوگ تھے جو پاکستان کو ایک مسلمان ریاست تو تسلیم کرتے تھے لیکن اسلامی ریاست تسلیم نہیں کرتے تھے۔ یہ بہت بڑا حلقہ تھا جو اَب بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے بنا ہے، اسلام کے لیے نہیں بنا۔ مسلمانوں کو ہندوؤں کی بالادستی سے بچانے کے لیے ہم نے الگ ملک لیا تھا، اسلام کا نفاذ اور اسلام کا قانون اور دستور ہمارے پیشِ نظر نہیں تھا۔ ایک بڑا حلقہ یہ کہتا ہے۔
لیکن چونکہ قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہم اللہ تعالیٰ جو کہ تحریک پاکستان کے بنیادی لیڈروں میں سے تھے، ان کے واضح اعلانات موجود ہیں کہ پاکستان میں اسلام کا نظام نافذ ہو گا، قرآن و سنت کے نفاذ کے لیے ہم نے یہ ملک لیا ہے، پاکستان ایک اسلامی، رفاہی اور نظریاتی ریاست ہو گی۔ اس پر لوگوں نے قربانیاں دی تھیں جو کہ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس لیے سیکولر لوگ اپنی بات پر زیادہ زور نہ دے سکے اور بالآخر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی کوششوں سے خان لیاقت علی خان نے مضبوط موقف اختیار کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اسمبلی کے اندر بنیادی طور پر محنت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم کی تھی، جبکہ اسمبلی سے باہر مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے رائے عامہ منظم کرنے کے لیے محنت کی۔ ان میں جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی محمد شفیعؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ، اہلِ حدیث رہنما مولانا داؤد غزنویؒ اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، بریلوی علماء میں سے دو بڑے اکابر مولانا حامد بدایونیؒ اور پیر صاحب آف مانکی شریفؒ شامل تھے۔ ان حضرات نے عوام میں محنت کی کہ ملک کا دستور اسلامی ہونا چاہیے۔ کچھ عوامی دباؤ سے اور کچھ اسمبلی میں مضبوط نمائندگی سے کہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ خود اسمبلی میں موجود تھے، انہوں نے یہ مہم سر کر لی کہ دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ پاس کر کے ہمیشہ کے لیے یہ طے کر دیا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہو گا، اور اس میں دستور اور قانون کی تشکیل میں اسلام، قرآن مجید اور سنتِ رسول کو بنیادی حیثیت حاصل ہو گی۔
قراردادِ مقاصد کیا ہے؟ یہ ذکر کرنے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ نفاذِ اسلام کے لیے دو تین اہم سوال ہمارے سامنے آ گئے تھے جن کا فیصلہ کیے بغیر پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دینا مشکل تھا۔
ایک بات یہ تھی کہ پاکستان کا نظامِ حکومت کیسا ہو گا؟ دنیا میں دو تین قسم کے نظامِ حکومت چلتے آ رہے ہیں: ایک تصور یہ تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ چونکہ بانئ پاکستان ہیں، اس لیے انہیں بادشاہ تسلیم کر لیا جائے اور ان کی جو اولاد ہے وہ ملک کی قیادت کرتی رہے۔ یعنی شخصی خاندانی حکومت کہ باپ کے بعد بیٹا، پھر دوسرا بیٹا، پھر بھائی وغیرہ۔ جبکہ دوسرا تصور یہ تھا کہ ملک میں جمہوری حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے قائم کی جائے۔
اسلامی ریاست بنانے کا مسئلہ پیش آیا تو اس وقت یہ دو آئیڈیل دستور ساز اسمبلی کے سامنے تھے۔ ایک خلافت عثمانیہ کا نمونہ ہمارے سامنے تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ۱۹۲۴ء میں ہوا اور پاکستان ۱۹۴۷ء میں بنا۔ خلافتِ عثمانیہ جو تقریباً چار سو سال سے زیادہ عرصہ گزار کر دنیا سے رخصت ہوئی تھی، وہ ماڈل بھی سامنے تھا، لیکن وہ نظام خاندانی اور نسلی تھا اس لیے وہ آج کے دور میں قابلِ قبول نہیں تھا۔ اور اس کے بعد عالمِ اسلام میں جو ماڈل آیا تھا وہ سعودی عرب کا تھا۔ آلِ سعود نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سعودی عرب کی تشکیل کی تھی اور حکومت قائم کی تھی۔ سعودی عرب نے اگرچہ یہ اعلان کیا تھا کہ ہم قرآن و سنت کے مطابق حکمرانی کریں گے لیکن حکومتی نظام بادشاہی ہو گا۔ حتیٰ کہ شاہ عبد العزیز مرحوم کو ہمارے بعض اکابر ہندوستانی علماء کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی تھی کہ آپ خلافت کا اعلان کریں، ہم آپ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کریں گے۔ لیکن انہوں نے کہا تھا کہ نہیں! سعودی عرب میں نظامِ حکومت بادشاہی ہو گا، البتہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہو گا۔ چنانچہ سعودی عرب کا نظام بھی ایک خاندانی بادشاہی نظام تھا، جو پاکستان میں قابلِ عمل نہیں تھا۔ سعودی عرب میں بادشاہ کون ہو گا، اس کا فیصلہ وہاں کے عوام نہیں کرتے بلکہ آلِ سعود کا خاندان اس کا انتخاب کرتا ہے۔
چنانچہ دستور ساز اسمبلی کے سامنے جو سوالات رکھے گئے، ان میں یہ سوال تھا کہ آپ خاندانی نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو یہ دو ماڈل خلافتِ عثمانیہ اور آلِ سعود آپ کے سامنے ہیں۔ یہ دونوں پاکستان کے اس وقت کے حالات کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں تھے اور آج کے حالات میں بھی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ تو نہیں ہو سکتا تھا، پھر کیا کیا جائے؟
لہٰذا قراردادِ مقاصد نے یہ طے کیا کہ نظامِ حکومت تو جمہوری ہو گا لیکن نظامِ مملکت قرآن و سنت کے تابع ہو گا۔ یوں ہی سمجھ لیجیے جیسے سعودی عرب میں قوانین شرعی ہوں گے اور حکومت بادشاہی ہو گی۔ بالکل اسی نہج پر یہاں یہ طے کیا گیا کہ قوانین شرعی ہوں گے اور حکومت جمہوری ہو گی۔ خلافت کا عنوان نہ سعودی عرب نے اختیار کیا اور نہ پاکستان نے اختیار کیا۔
قراردادِ مقاصد کی تین بنیادیں ہیں جس میں یہ باتیں طے کر دی گئیں:
- پہلا اصول قراردادِ مقاصد میں طے کیا گیا کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ جمہوریت کی بنیادی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے‘‘۔ یعنی حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی ہو گی، عوام جو فیصلہ کر دیں ، فائنل اتھارٹی سوسائٹی ہے۔ لیکن قراردادِ مقاصد میں طے ہوا کہ پاکستان میں حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
- قرارداد مقاصد میں دوسرا اصول یہ طے ہوا کہ نظامِ حکومت نہ بادشاہی ہو گا اور نہ خاندانی ہو گا بلکہ عوام کی رائے کی بنیاد پر جمہوری حکومت ہوگی۔
- تیسرا اصول یہ طے کیا گیا کہ حکومت اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے تابع ہوں گے۔ حکومت اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے منافی کوئی فیصلہ نہیں کر سکے گی۔
جب قراردادِ مقاصد پاس ہو گئی تو یہ کہا گیا کہ پاکستان نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ جیسے کوئی آدمی کلمہ پڑھ لیتا ہے تو وہ مسلمان ہو جاتا ہے، آگے اس کا تعلق اعمال سے ہے، لیکن کلمہ پڑھنے سے بہرحال وہ مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست تسلیم کیا گیا اور بالکل اسی طرح دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا جیسے کوئی آدمی کلمہ پڑھ کر خود کو مسلمانوں کی فہرست میں شامل کر لیتا ہے۔
قراردادِ مقاصد کے تعین میں جو اصول طے ہوئے، اس میں جن لوگوں کا کردار ہے ان کا اعتراف ہونا چاہیے۔ پاکستان بننے کے بعد جو نفاذِ شریعت کی دستوری اور قانونی جدوجہد میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم رہنما بھی ہمارے ساتھ شریک رہے ہیں۔ ان میں بطور خاص اے آر کارنیلس جو بعد میں پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی ہوئے ہیں، وہ عیسائی تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں مسلسل نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتے رہے۔ وہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں جاتے تو پاکستان کے نظریاتی تشخص کا دفاع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ پاکستان چونکہ مسلمانوں کی اکثریت کا ملک ہے اور اسلام کے نام پر بنا ہے اس لیے پاکستان میں نفاذِ اسلام پاکستانیوں کا حق ہے اور میں ان کے حق کی تائید کرتا ہوں۔ دوسرے عیسائی رہنما آنجہانی جوشو افضل دین جو مسیحیوں کے بڑے لیڈروں میں سے تھے اور مغربی پاکستان کی اسمبلی کے منتخب رکن تھے۔ وہ یہ آواز لگایا کرتے تھے کہ پاکستان میں اسلام اور شریعت کا نظام نافذ ہونا چاہیے، ہم عیسائیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ہمیں خوشی ہو گی کہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات اور شریعتِ اسلامیہ کے مطابق نظام قائم ہو، ہم پورا ساتھ دیں گے۔ یہ دونوں رہنما پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے غیر مسلم حلقوں کی طرف سے بڑی مضبوط آواز تھے۔
ان کے علاوہ اسمبلی میں خان لیاقت علی خان اور عوامی محاذ پر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا عبد الحامد بدایونی، مولانا سید داؤد غزنوی، مولانا مفتی محمد حسن، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی اور پیر صاحب آف مانکی شریف رحمہم اللہ تعالیٰ تمام مکاتبِ فکر کے ان سرکردہ حضرات نے ملک میں یہ راہ ہموار کرنے کے لیے محنت کی، اور یہ ان کی مجموعی محنت کا نتیجہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کر کے پاکستان کی ریاستی اسلامی نظریاتی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا۔
اس کے بعد دوسرا مسئلہ پیش آ گیا۔ سیکولر حلقوں نے یہ سوال اٹھا دیا کہ پاکستان میں کس کا اسلام نافذ ہو گا؟ دیوبندیوں کا؟ بریلویوں کا؟ اہلِ حدیثوں کا؟ یا شیعوں کا؟ اس وقت یہ چار بڑے فرقے تھے، اب بھی یہی فرقے ہیں۔
شیعہ اس ملک میں بڑی تعداد میں ہیں، ان کی آبادی تین چار فیصد بتائی جاتی ہے۔ ان کا یہ دعوٰی ہے کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ شیعہ تھے، اس لیے ہم زیادہ حق رکھتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ خاندانی طور پر تو شیعہ ہی تھے، جو بعد سنی ہو گئے تھے یا نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے۔ بہرحال شیعہ حضرات کا دعوٰی ہے کہ پاکستان کے بانی ہم ہیں تو ہمارا استحقاق زیادہ ہے۔
سنی کہلانے والوں میں دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث تین مکاتبِ فکر تھے۔ بلکہ میں تو اکثر کہا کرتا ہوں کہ جس وقت ہم نفاذِ اسلام کی جنگ کا آغاز کر رہے تھے تو ہمارے ہاں چار نہیں بلکہ ساڑھے چار مکاتبِ فکر تھے۔ جماعتِ اسلامی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اگرچہ کسی فرقے میں ہونے کے دعویدار نہیں تھے لیکن یہ مستقل مکتبِ فکر تھا۔ وہ ان چار میں کسی فرقے کے دعویدار نہیں لیکن ان کا وجود ہے اور محنت ہے، اس لیے میں ساڑھے چار مکاتبِ فکر کہتا ہوں۔
اب یہ اشکال سامنے تھا کہ تعبیرات کس کی ہوں گی؟ قرآن و سنت کے قوانین نافذ ہوں گے تو دیوبندی تعبیر کے مطابق ہوں گے یا شیعہ تعبیر کے مطابق؟ بریلوی تعبیر کے مطابق ہوں گے یا اہلِ حدیث تعبیر کے مطابق؟ یا مولانا مودودیؒ کی تعبیرات کے مطابق؟ یہ ایک نیا مسئلہ کھڑا کیا گیا کہ اسلام کا نفاذ فرقہ وارانہ مسئلہ ہے، اس لیے اس کو چھوڑ دیا جائے تاکہ کوئی فرقہ دوسرے پر حاوی نہ ہو سکے اور فرقہ وارانہ کشمکش سے نجات ملے۔ یہ بہت بڑا اشکال تھا جس نے ملک میں خلفشار پیدا کر دیا کہ یہاں اسلام نافذ کرنا ہے تو کون سا اسلام؟
اللہ تعالیٰ ان حضرات کو جزائے خیر دیں جنہوں نے اس کے لیے محنت کی اور اس اعتراض کا دوٹوک جواب مہیا کیا۔ ان محنت کرنے والوں میں ایک سردار مولا بخش سومرو تھے۔ ہم اپنے حلقے کے علاوہ باقی لوگوں کو بھول جایا کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔ ابھی پچھلی قومی اسمبلی میں احمد میاں سومرو تھے، ان کے والد مولا بخش سومرو سندھ کے بڑے سرداروں میں سے تھے۔ وہ مولانا احمد علی لاہوریؒ کے مرید اور بہت دیندار آدمی تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں منسٹر رہے ہیں۔ پرانے بزرگوں میں سے تھے۔ تحریک چلانے والوں میں مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا متین خطیبؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ تھے، انہوں نے ملک بھر میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء سے رابطہ قائم کر کے سال ڈیڑھ سال اس مسئلے پر محنت کی کہ ہم سب مل کر دستوری حوالے سے ایک متفقہ فارمولہ دے دیں کہ ہم اس پر متفق ہیں اور ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارے اختلافات دستور اور قانون کے مسائل پر نہیں ہیں، کچھ اور مسائل پر ہمارے اختلافات ہیں، دستور اور قانون کے دائرے پر ہم متفق ہیں، اس کو نافذ کر دیا جائے۔ اس کے لیے کراچی میں سردار مولا بخش کی کوٹھی پر کئی دن میٹنگیں ہوتی رہیں۔ ایک بہت بڑا نام جنہوں نے ان سب میٹنگوں کی صدارت کی تھی مولانا علامہ سید محمد سلیمان ندویؒ ہیں۔ اس میں ایک نو مسلم ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ والے علامہ محمد اسدؒ بھی شریک تھے۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کی ایک پوری ٹیم تھی۔
اکتیس سرکردہ علماء کرام اکٹھے ہوئے جنہوں نے بائیس دستوری نکات مرتب کیے۔ ان نکات پر سب متفق تھے، سب نے دستخط کیے اور یہ اعلان کیا کہ یہ بائیس نکات متفق علیہ ہیں۔ جس پر دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، جماعتِ اسلامی اور شیعہ کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس میں تمام طبقوں کی اعلیٰ ترین قیادت شریک ہوئی۔ شیعہ حضرات کی طرف سے مولانا مفتی جعفر حسینؒ، علامہ حافظ کفایت حسینؒ جو ان کی ٹاپ کی لیڈرشپ تھی، بریلوی حضرات میں مولانا حامد بدایونیؒ، پیر صاحب آف مانکی شریفؒ اور سندھ کے بڑے پیر صاحب تھے۔ اہلِ حدیث حضرات میں مولانا داؤد غزنویؒ، مولانا اسماعیل سلفیؒ اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، اور جماعت اسلامی کے مولانا مودودیؒ بھی اس میں شامل تھے۔ یعنی چاروں پانچوں مکاتب فکر کی اس وقت کی جو موجود اعلیٰ قیادت تھی وہ شریک ہوئے اور سب نے متفقہ طور پر بائیس نکات منظور کر کے بتایا کہ دستور اور قانون کے مسائل پر ہمارا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ہم ان بائیس نکات پر متفق ہیں اس کو نافذ کر دیا جائے۔ یہ دوسرا معرکہ ہمارے بزرگوں نے اس طرح سَر کیا۔ چنانچہ ہمارا قانونی اور دستوری اسلام متفقہ ہے، باقی ہمارے اختلافات الگ نوعیت کے ہیں۔
چند سال پہلے یہ مسئلہ پھر نئے سرے سے کھڑا ہوا۔ اِس وقت ہمارا ایک مشترکہ فورم ہے ”ملی مجلس شرعی“ کے نام سے۔ بریلوی مکتبِ فکر کے مفتی محمد خان قادری اس کے صدر ہیں، میں اس کا نائب صدر ہوں، ڈاکٹر محمد امین سیکرٹری جنرل، اور مولانا عبدالغفار روپڑی بھی نائب صدر ہیں۔ ہم نے ایک بار پھر ملک گیر اجتماع کیا۔ لاہور میں تمام مکاتبِ فکر کے چوٹی کے ستاون اکابر علماء کو جمع کیا اور مشترکہ قومی کنونشن میں آج کے اکابر علماء سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی سب نے اکٹھے ہو کر اعلان کیا کہ بائیس نکات پر آج بھی ہمارا اتفاق ہے اور اس کے ساتھ ہم پندرہ نکات کا اضافہ کر رہے ہیں۔ اس میں الحمد للہ میرا بھی حصہ ہے، میں اس کا متحرک رکن ہوں۔ اس میں ہم نے دو کام کیے۔ ایک تو پھر سے بائیس نکات کی توثیق کرا دی، اور دوسرا اُن کی وضاحت میں پندرہ نکات کا اضافہ کیا ۔
یہ بہت بڑا معرکہ تھا جو سَر کیا گیا اور ان لوگوں کا منہ بند کیا گیا جو کہتے تھے کہ کس کا اسلام نافذ کرنا ہے؟ علماء نے جواب دیا کہ ہم سب کا اسلام ایک ہے۔ اور یہ اعلان کیا کہ ہم آج بھی وہی کھڑے ہیں، جہاں ۱۹۵۱ء میں کھڑے تھے۔