سینٹ میں متحدہ حزب اختلاف نے وفاقی وزیر تعلیم جناب جاوید اشرف کے اس بیان کے خلاف تحریک التوا جمع کرا دی ہے جس میں انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیسری جماعت سے آٹھویں جماعت تک بچوں کو چالیس پارے پڑھائے جائیں گے تاکہ انہیں مدرسہ جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ تحریک التوا میں ارکان سینٹ نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم کے اس بیان سے پاکستانی قوم کو شدید دکھ ہوا ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
وفاقی وزیر تعلیم ایک ذمہ دار ریٹائرڈ فوجی آفیسر ہیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم کے منصب پر فائز ہیں جس کے دستور میں یہ درج ہے کہ اسلامی تعلیمات کا فروغ اور ایک صحیح اسلامی معاشرہ کا قیام حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے مگر ان کی اپنی معلومات کا یہ حال ہے کہ انہیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ قرآن کریم کے پارے کتنے ہیں؟ قرآن کریم کے چالیس پاروں کے بارے میں ایک واعظانہ روایت اہل تشیع کے حوالہ سے سنتے آرہے تھے کہ قرآن کریم کے اصل میں چالیس پارے تھے جن میں سے دس پارے بکری کھا گئی اور مکمل قرآن کریم اب صرف امام غائب کے پاس ہے جو اثنا عشریہ اہل تشیع کے عقیدہ کے مطابق ایک غار میں مستور ہیں اور قیامت سے پہلے وہ قرآن کریم لے کر باہر آئیں گے، لیکن اس روایت کو اہل تشیع کی سنجیدہ علمی قیادت بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
۱۹۸۷ء کے دوران حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی ؒ اور مولانا حافظ حسین احمد ایم این اے سمیت ایک وفد کے ہمراہ راقم الحروف کو ایران جانے کا اتفاق ہوا تو ایران کے ایک ذمہ دار اور مقتدر مذہبی راہنما جناب آیت اللہ خزعلی نے ہمارے سامنے قرآن کریم ہاتھ میں لے کر حلف اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ما ایمان داریم کہ این قرآن کریم حق است نہ یک حرف کم نہ زیاد‘‘۔ اس پر مولانا منظور احمد چنیوٹی ؒ اور آیت اللہ خزعلی کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ ایک الگ دلچسپ قصہ ہے مگر اس حوالہ سے اس موقع پر ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ چالیس پاروں والے قصہ کو تو شیعہ کی علمی قیادت بھی قبول نہیں کر رہی، جبکہ ہمارے وفاقی وزیر تعلیم کے ذہن میں کسی دور کی یہ سنی سنائی بات اٹکی ہوئی ہوگی جس کا انہوں نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں اظہار کر دیا ہے اور قوم کے بچوں کو دینی مدارس سے دور رکھنے کی مہم میں آٹھویں جماعت تک بچوں کو ’’چالیس پارے‘‘ پڑھانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہم اس موقع پر اس کے سوا کیا عرض کر سکتے ہیں کہ
کار طفلاں تمام خواہد شد
البتہ اس میں ’’ملاّ ‘‘کی بجائے ’’وزیر ‘‘ پڑھ لیا جائے، اس لیے کہ ملاّ غریب تو بدستور تیس پاروں والے قرآن کریم کو ہی سینے سے لگائے ہوئے ہے اور اس کی حتی الوسع خدمت کر رہا ہے۔