اسرائیل کے قیام کا مقصد اور ’’عرب منصوبہ‘‘

   
۳ اپریل ۲۰۰۲ء

بیروت میں منعقد ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس نے سعودی عرب کے امن منصوبہ کو منظور کر لیا ہے اور کانفرنس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے کہا ہے کہ اب اس امن منصوبے کو ’’عرب منصوبے‘‘ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کے ذریعہ امن و سلامتی کے لیے اسرائیل کو ۱۹۶۷ء سے قبضہ کیے گئے فلسطینی علاقے خالی کرنے کے عوض معمول کے تعلقات قائم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔

اس سے قبل جب سعودی ولی عہد شہزادہ عبد اللہ کی طرف سے ۱۹۶۷ء کے مقبوضہ علاقے خالی کر دینے کی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی تو ہم نے اس کالم میں عرض کیا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس سے سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے ۱۹۴۸ء کے تحریر کردہ خط میں صاف طور پر انکار کر دیا تھا۔ اور اب عرب سربراہ کانفرنس میں اس منصوبے کو منظور کر لینے کے بعد پوری عرب دنیا اس اسٹیج پر آگئی ہے جہاں کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے ذریعہ مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل کو تسلیم کر کے اور فلسطین کی تقسیم کے عمل کو قبول کر کے فلسطینیوں کی خود ان کے وطن کے بڑے حصے سے بے دخلی کو سندِ جواز فراہم کر دی تھی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق امریکہ نے عرب لیگ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عرب لیڈروں نے بیٹھ کر اسرائیل سے امن کے لیے بات چیت کی۔ گویا امریکی اطمینان کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اسے اسرائیل کا وجود تسلیم کرانے اور عربوں اور یہودیوں کو ایک میز پر بٹھانے کے مشن میں کامیابی کے امکانات دکھائی دینے لگے ہیں جس کے لیے امریکہ گزشتہ نصف صدی سے بے چین تھا۔

مگر دوسری طرف اسرائیل نے امن منصوبے کو مسترد کر دیا ہے اور فلسطینی ہیڈکوارٹرز پر تازہ حملوں کی دھمکی دی ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے وزیراعظم شیرون کے مشیر نے کہا ہے کہ منصوبہ موجودہ شکل میں ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل کی طرف سے امن منصوبے کو مسترد کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اسے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیے جانے والے علاقے خالی کرنے کے لیے کہا گیا ہے جس میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔ کیونکہ ۱۹۶۷ء کی جنگ سے قبل بیت المقدس اردن کے کنٹرول میں تھا اور اسرائیل نے حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا تھا۔ جبکہ اسرائیل کے نزدیک اس کی اب تک کی جدوجہد اور تگ و دو کا سب سے بڑا مقصد بھی بیت المقدس کا قبضہ تھا جس کے لیے صیہونی لیڈرشپ صدیوں سے منصوبہ بندی کر رہی تھی اور جس کے بغیر اسرائیلی ریاست کا مقصدِ وجود ہی ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے اور امریکہ سمیت بہت سے مغربی ممالک ذہنی طور پر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے ہوئے ہیں جس کے رسمی اعلان کے لیے کوئی مناسب موقع تلاش کیا جا رہا ہے۔

ادھر فلسینی مجاہدین کی تنظیم حماس نے بھی اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے اور اسرائیل کے خلاف فدائی حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ لندن سے شائع ہونے والے عربی اخبار ’’القدس‘‘ کی خبر کے مطابق عرب مجاہد اسامہ بن لادن نے اس منصوبے کو امریکی سازش قرار دیا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صیہونی ریاست کے خلاف جہاد کریں۔

اس پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’’سعودی امن منصوبہ‘‘ یا عرب سربراہ کانفرنس کی منظوری کے بعد ’’عرب منصوبہ‘‘ علاقہ کی صورتحال میں کسی عملی تبدیلی کا باعث تو شاید نہ ہو کیونکہ خطہ کے اصل ممالک یعنی دونوں فریقوں اسرائیل اور حماس نے اسے مسترد کر دیا ہے اور عسکری کشمکش جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ اس سے ’’ڈپلومیٹک تبدیلی‘‘ ضرور عمل میں آئی ہے کہ اس کے ذریعے امریکہ نے اسرائیل کو اس کے موقف اور پوزیشن پر بدستور برقرار رکھتے ہوئے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کو ان کے سخت موقف سے پیچھے ہٹا کر کیمپ ڈیوڈ کی پوزیشن پر لے جانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اسی وجہ سے امریکی حکام نے عرب سربراہ کانفرنس کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

اب صورتحال پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجیے کہ اسرائیل تو ۱۹۶۷ء کی پوزیشن پر واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہے مگر سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک ۱۹۴۸ء سے قبل کے ’’متحدہ فلسطین‘‘ کے موقف سے دستبردار ہو کر اس کے بعد کے منقسم فلسطین تک آگئے ہیں۔ گویا عربوں اور اسرائیل کے درمیان سیاسی جنگ کا مورچہ ۱۹۴۸ء سے آگے بڑھ کر ۱۹۶۷ء کی ’’کراس لائن‘‘ پر پہنچ گیا ہے۔ اور تنازعہ اب اس بات کا رہ گیا ہے کہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان مفاہمت اور مصالحت ۱۹۶۷ء کی جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر ہوگی یا اس کے بعد کی پوزیشن پر۔ اس طرح امریکہ اب اس پوزیشن میں آگیا ہے کہ بیت المقدس کو مسلمانوں یا یہودیوں میں سے کسی ایک کے کنٹرول میں دینے کی فیصلہ کن سیاسی قوت اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ حسب موقع دونوں میں سے کسی ایک پر دباؤ بڑھا کر اس قضیے کو نمٹا سکتا ہے۔

اس مرحلہ پر اگر مسئلہ کے ایک اور پہلو کو بھی سامنے رکھ لیا جائے تو ہمارے خیال میں امریکی عزائم کو سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں رہے گی۔ وہ یہ کہ بیت المقدس پر صرف مسلمانوں اور یہودیوں کا ہی دعوٰی نہیں بلکہ مسیحی امت بھی بیت المقدس پر اسی طرح کے استحقاق کا دعوٰی رکھتی ہے جیسا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کا ہے۔ اور بیت المقدس کے ساتھ مسیحیوں کی نہ صرف بڑی عقیدت وابستہ ہے بلکہ ایک طویل عرصہ تک بیت المقدس ان کی تحویل میں بھی رہا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں بیت المقدس کا قبضہ مسیحی امت سے حاصل کیا تھا اور اس کے بعد مسیحیوں نے دوبارہ بیت المقدس پر قبضہ کیا تو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے ان سے جنگ کر کے بیت المقدس کو پھر واگزار کرایا تھا۔ اس لیے بیت المقدس کے بارے میں حتمی فیصلے کے موقع پر مسیحی امت کے اس دعوے اور دلچسپی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بالخصوص ایسی صورت میں کہ مسئلہ کے سیاسی حل کی کنجی بھی کیتھولک عقیدہ رکھنے والی مسیحی حکومت اور قوم کے ہاتھ میں ہے۔ اور کیتھولک فرقہ کے سربراہ پوپ پال ابھی کچھ عرصہ قبل فلسطین اور بیت المقدس کا دورہ کر کے اس دلچسپی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔

چنانچہ ہمارے خیال میں امریکی عزائم اور پروگرام کی عملی شکل اس طرح سامنے آسکتی ہے کہ مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی مشترکہ کونسل بنا کر بیت المقدس کو ان کی مشترکہ تحویل میں دے دیا جائے اور اسے بین الاقوامی شہر قرار دے کر اس کے انتظامی کنٹرول کے لیے اقوام متحدہ کو آگے کر کے ریموٹ کنٹرول اختیارات خود امریکہ سنبھال لے۔ اس طرح بیت المقدس کا کنٹرول عملی طور پر پھر صلیبی قوتوں (وقت کی سپر پاور) کے ہاتھ میں چلا جائے گا اورا س پر اقوام متحدہ کے تحت مسلمانوں و یہودیوں و مسیحیوں کی مشترکہ مذہبی کونسل کا ظاہری پردہ عالمی رائے عامہ کو مطمئن یا کم از کم خاموش کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ لیکن یہ سب باتیں ڈپلومیسی اور سیاست کی سطح کی ہیں جو دونوں حربی قوتوں یعنی اسرائیل اور عرب مجاہدین حماس وغیرہ کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گی کیونکہ اسرائیل جس طرح بیت المقدس کو مسلمانوں کی تحویل میں نہیں دیکھ سکتا اسی طرح مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں کا مشترکہ کنٹرول بھی اس کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ اسرائیل کے مقصدِ وجود کے خلاف ہے اور یہودی امت کی صدیوں کی طویل جدوجہد کو اس کے مطلوبہ نتائج سے محروم کر دینے کے مترادف ہے۔ بالکل اسی طرح یہ بات دیندار مسلمانوں اور غیرت مند عربوں کے لیے بھی قطعی طور پر ناقابل قبول ہوگی اور مسلم ممالک کے حکمران کچھ بھی کرتے رہیں مگر مسلم دنیا کے راسخ العقیدہ مسلمان اور دینی حلقوں کے لیے بیت المقدس سے دستبردار ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر امریکہ وقتی طور پر دباؤ اور دھونس کے ذریعہ کوئی حل مسلط کر دیتا ہے تو بھی یہ بیت المقدس اور فلسطین کے مسئلہ کا دیرپا حل نہیں ہوگا، مسلمانوں کی طرف سے مزاحمت کی تحریک جاری رہے گی اور جس طرح سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے پون صدی کے بعد بیت المقدس کو صلیبی قبضے سے بالآخر آزاد کرالیا تھا اسی طرح حماس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کی کوکھ سے کوئی اور صلاح الدین ایوبی جنم لے گا جو بیت المقدس پر ایک بار پھر اسلامی پرچم لہرا دے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter