کیا یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے درپے نہیں تھے؟

   
۱۵ جون ۲۰۰۴ء

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ نسل انسانی کے گناہوں کے کفارے میں سولی چڑھ گئے تھے اور انہیں سولی کی یہ سزا یہودیوں نے دلوائی تھی۔ اہل اسلام کے نزدیک یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہو سکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں سولی دیے جانے سے قبل ہی زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ اسی وجہ سے صلیب مسیحیوں کا مذہبی شعار ہے، جو ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کی علامت ہے۔ اسی لیے گزشتہ تقریباً دو ہزار برس سے مسیحی حلقوں میں یہ بات اہتمام اور سنجیدگی کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قاتل ہیں اور اس بنا پر یہودیوں و مسیحیوں کے مابین دشمنی اور عداوت کا ایک طویل دور تاریخ کا حصہ ہے، جو گزشتہ صدی کے آغاز تک جاری رہا اور جس میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد مسیحیوں کے ہاتھوں اسی غصے میں تہ تیغ ہوتی رہی-

مگر گزشتہ ایک صدی سے حالات نے پلٹا کھایا اور یہودیوں کے ساتھ مسیحیوں کی روایتی اور تاریخی دشمنی بتدریج دوستی میں بدلتی گئی۔ اس وقت عالمی صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مسیحیوں اور یہودیوں کا گٹھ جوڑ وقت کی سب سے بڑی حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، حتیٰ کہ یہودیوں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کرنے کا الزام بھی ازسرنو بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ مغرب کے بہت سے مسیحی علماء اس کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ یہودیوں کو اس الزام سے بری الذمہ ثابت کیا جائے۔

جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے، اس میں دو باتوں کا وضاحت کے ساتھ تذکرہ ہے:

  1. ایک حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کی پاکدامنی کے حوالے سے یہودیوں کے ناپاک الزام کا رد ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام دونوں پاک دامن اور راستباز تھے، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ ولادت کا مطلب وہ نہیں جو یہودی کہتے ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہے کہ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو ماں باپ دونوں کے بغیر اللہ رب العزت نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی باپ کے بغیر پیدا ہوئے۔
  2. دوسری بات یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل، یعنی اس وقت کے یہود کی طرف مبعوث ہوئے تھے، مگر یہودی علماء نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ان کی جان کے درپے ہو گئے۔ اگرچہ وہ انہیں سولی تک تو نہ پہنچا سکے، مگر اپنی طرف سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس معصوم پیغمبر کو مصلوب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے درپے ہونے اور انہیں طرح طرح کے الزامات کا نشانہ بنانے کے اس یہودی طرز عمل کا گزشتہ انیس سو برس تک مسیحی دنیا بھی اعتراف کرتی رہی ہے۔ لیکن یہ مسلم دشمنی کا کرشمہ ہے یا یہودی سازشوں نے مسیحی دنیا کو حقائق سے اس قدر غافل کر دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے بنیادی تاریخی حقائق سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار ہو گئے ہیں، اور مغربی کلیساؤں کے متعدد رہنماؤں کی صلاحیتیں اور توانائیاں یہود کو اس الزام سے بری ثابت کرنے میں صرف ہو رہی ہیں۔

گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مسیحی جریدہ ماہنامہ ’’کلام حق‘‘ نے مئی ۲۰۰۴ء کے شمارے میں اس مہم کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، جس کا خلاصہ خود اس کے الفاظ میں اس طرح ہے:

’’آج کل مغربی کلیساؤں میں ایک نئی بحث جاری ہے، جس کا موضوع ہے: ?Who Killed Jesus اس بحث کا مقصد یہودیوں کو خداوند یسوع مسیح کے خون سے بری کرنے کی کوشش ہے۔ اس بحث میں نام نہاد مسیحی علماء بہت شدومد سے یہودیوں کے حق میں اور رومیوں کے خلاف دلائل دے رہے ہیں، لیکن یہ لوگ اس انجیلی حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح تو روز اول ہی سے یہودی مذہبی قیادت کی نفرت کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور ان کو قتل کرنے کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔‘‘

اس کے بعد بائبل کی متعدد عبارات نقل کر کے ’’کلام حق‘‘ نے ان کا یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مندرجہ جات سے ہم صرف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہودی خداوند یسوع مسیح کی خدمت کے آغاز ہی سے انہیں قتل کرنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے سازش کی۔ یہوداہ اسکریوتی کو خریدا، خداوند یسوع مسیح کو رات کے وقت گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف موت کا فتویٰ دیا گیا، اور پیلاطس پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خداوند یسوع مسیح کو مصلوب کرے۔ یہودیوں کے پاس سنگسار کرنے کا حق تو تھا، لیکن رومی حکومت نے ان کو کسی اور مسئلے پر موت کی سزا دینے کا اختیار نہیں دیا تھا، اس لیے خداوند یسوع مسیح پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ خود کو یہودیوں کا بادشاہ کہتا ہے، جو رومی سلطنت کے خلاف ایک کھلی بغاوت سمجھی جاتی تھی، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ خداوند یسوع مسیح کو رومی طریقہ کار کے مطابق درد ناک اور خوفناک صلیبی موت کا سزاوار ٹھہرا کر مروا دیا جائے۔

پیلاطس جانتا تھا کہ خداوند یسوع مسیح کے خلاف یہ الزام ’’حسد‘‘ کی وجہ سے لگایا گیا ہے، اس لیے وہ اس کو موت کی سزا دینے میں پس و پیش سے کام لے رہا تھا۔ اس پر یہودیوں نے اس کو چھپی ہوئی دھمکی دی کہ اگر وہ یسوع مسیح کو مصلوب نہیں کرتا تو وہ قیصر روم کا بھی مجرم بنتا ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ خداوند یسوع مسیح کے لیے صلیبی موت کی سزا خود یہودیوں کی تجویز کردہ تھی۔ یہودی مذہبی قیادت نے لوگوں کو بھی بھڑکایا اور یوں پیلاطس کو مجبور کیا گیا کہ وہ خداوند یسوع مسیح کو صلیب دے۔ بے شک خداوند یسوع مسیح نے صلیبی موت مرنا تھا، لیکن دنیاوی طور پر خداوند یسوع مسیح کو مار ڈالنے کی سازش، فتویٰ اور مطالبہ یہودیوں کا تھا۔ رومی حکومت نے اس فتوے پر عمل کیا، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو یروشلم میں بلوے کا خطرہ پیدا ہو چکا تھا، لہٰذا ہم بڑے یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح کے قاتل یہودی تھے۔

اب دو ہزار سال کے بعد اگر مغربی کلیسائیں یہودیوں کو خداوند یسوع مسیح کی موت سے بری الذمہ قرار دیتی ہیں تو اس کی کوئی مذہبی اور تاریخی اہمیت نہیں۔ یہ تمام پراپیگنڈہ یہودیوں کے ایما پر ان کو خوش کرنے، سیاسی و معاشی فائدہ اٹھانے، موجودہ سلطنت اسرائیل کی بقا اور عام مسیحی کی ’’برین واشنگ‘‘ (Brainwashing) کرنے کے لیے ہے، تاکہ وہ یہودیوں کو معصوم مان لیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہودی قوم کی گردن پر اور ان کی اولاد کی گردن پر خداوند یسوع مسیح کا خون ہے، جس کا خمیازہ وہ دو ہزار سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک بھگت رہے ہیں اور خداوند یسوع مسیح کی واپسی تک بھگتتے رہیں گے۔

ہمیں ماہنامہ ’’کلام حق‘‘ گوجرانوالہ کے اس تجزیے سے اتفاق ہے کہ اگرچہ ہمارے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی تک نہیں پہنچایا جا سکا تھا اور وہ اس سے قبل ہی آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے، لیکن اس وقت کے یہود نے انہیں قتل کرنے اور سولی پر چڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی اور یہودی مذہبی قیادت کا رویہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شروع سے معاندانہ تھا، مگر اب یہودیوں کو ایک مظلوم اور معصوم قوم ثابت کرنے اور اسرائیلی ریاست کو جواز اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے مسیحی دنیا کی مغربی مذہبی قیادت بنیادی حقائق اور عقائد سے انحراف کی حد تک آگے بڑھ گئی ہے۔ بات اگر سیاسی طالع آزماؤں اور لامذہب مسیحی دانشوروں کی ہوتی تو کسی حد تک قرین قیاس قرار پا سکتی تھی کہ انہیں مذہبی حقائق سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، لیکن یہ سب کچھ مسیحی دنیا کی مذہبی قیادت کی طرف سے ہو رہا ہے۔ یہ بات سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کی متقاضی ہے اور مسیحی دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیں کہ اس ”یہود نوازی“ میں مسیحی دنیا کا آخر کون سا مفاد وابستہ ہے کہ اس کی خاطر مذہبی اور تاریخی حقائق کو سراسر جھٹلانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا؟

   
2016ء سے
Flag Counter