بنگلہ دیش کی سیکولر مصنفہ تسلیمہ نسرین ایک بار پھر بولی ہیں اور اب کے ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نمازوں کی تعداد پانچ سے کم کر کے ایک کر دیں۔ ایک عرصہ قبل انہوں نے قرآن کریم پر (نعوذ باللہ) نظر ثانی اور مروجہ عالمی نظام و قوانین کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ضروری ترامیم کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس پر ان کے خلاف بنگلہ دیش میں ’’توہین مذہب‘‘ کا مقدمہ درج ہوا اور دینی حلقوں نے عوامی سطح پر احتجاج کا اہتمام کیا۔ اس پر وہ گرفتار ہوئیں مگر یورپین یونین کی مداخلت پر انہیں رہائی دلا کر یورپ کے ایک ملک میں سیاسی پناہ دے دی گئی۔
قرآن کریم میں (نعوذ باللہ) ترامیم کا یہ مطالبہ بہت پرانا ہے۔ حتیٰ کہ اس کا ذکر خود قرآن کریم میں موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقاضہ کیا گیا کہ ائت بقرآن غیر ھذا او بدلہ اس کے علاوہ کوئی قرآن لائیں یا اس میں رد و بدل کر دیں۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دلوایا کہ ما یکون لی ان ابدلہ من تلقآء نفسی مجھے اس بات کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے کہ قرآن کریم میں اپنی طرف سے کوئی رد و بدل کر سکوں۔
نمازوں کی پابندی کے حوالہ سے بھی اس قسم کے تقاضے ابتدا سے چلے آرہے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ بار بار یہ اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اور ان کے اوقات و ترتیب و کیفیات بھی قرآن و سنت میں طے شدہ ہیں۔ لیکن جب فتح مکہ کے بعد طائف کے بنو ثقیف کا وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو اس نے اسلام قبول کرنے کے لیے چند شرائط پیش کیں جن میں ایک شرط یہ تھی کہ ہم نمازوں کی پابندی نہیں کر سکیں گے۔ جبکہ دوسری شرائط میں کہا گیا تھا کہ شراب، سود اور زنا کا چھوڑ دینا بھی ہمارے بس میں نہیں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرائط مسترد کر دیں جس پر بنو ثقیف کے سرداروں نے ان سے دستبردار ہو کر غیر مشروط طور پر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔
اس سلسلہ میں یہ دلچسپ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب اور نبوت ہی کا دعویٰ کرنے والی خاتون سجاح نے مسلمانوں کے لشکر کے مقابلہ میں اتحاد کا فیصلہ کیا، اور حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے دوران باہمی نکاح کر کے اپنی فوجوں کو متحد کر لیا۔ جب سجاح سے اس کے قبیلہ کے لوگوں نے مہر کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا کہ یہ بات کرنا میں بھول گئی تھی۔ اس لیے مسیلمہ سے دوبارہ رجوع کیا گیا تو اس نے مہر کے طور پر سجاح کو پانچ نمازیں معاف کرنے کا تحفہ دیا اور کہا کہ یہی تمہارا مہر ہے۔
اکبر بادشاہ نے متحدہ ہندوستان میں بعض درباری علماء کے ورغلانے پر دین کی تشکیل نو (ری کنسٹرکشن) کا اعلان کیا تو اس کے خود ساختہ ’’دین الٰہی‘‘ کے ڈھانچے میں نمازوں کے نظام میں رد و بدل بھی شامل تھا۔ جبکہ کم و بیش اسی دوران بلوچستان کے ساحلی علاقہ مکران میں ملا نور محمد اٹکی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور دیگر بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ نمازوں کی معافی اور ان کی جگہ چند مخصوص اذکار کی ترویج کا اعلان کر دیا۔ اس کے پیروکار صدیوں سے اس خطہ میں چلے آرہے ہیں جو ’’ذکری‘‘ کہلاتے ہیں اور ان کے اس ٹائٹل کی وجہ یہی ہے کہ وہ نمازوں کے منسوخ ہو جانے کے قائل ہیں اور ان کے بدلے میں صبح و شامل چند مخصوص اذکار کرتے ہیں۔
اہل تشیع نے نمازوں کی تعداد تو کم نہیں کی البتہ ان کے اوقات محدود کر رکھے ہیں۔ وہ پانچ اوقات میں الگ الگ نماز ادا کرنے کی بجائے ظہر و عصر ایک وقت میں ’’ظہرین‘‘ کے نام سے اور مغرب و عشاء ایک وقت میں ’’مغربین‘‘ کے عنوان سے ادا کرتے ہیں۔ یوں ان کے نمازوں کے اوقات پانچ کی بجائے تین ہوگئے ہیں۔ چند سال قبل مصر اور ترکی کے علمی حلقوں میں یہ بحث چلی کہ فقہاء نے ضرورتاً دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنے کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں، جن میں ایک جمع صوری بھی ہے کہ ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو ابتدائی وقت میں ادا کیا جائے تاکہ دونوں نمازوں کو ایک وقت میں پڑھا جا سکے۔ اسی طرح مغرب کو آخری وقت میں اور عشاء کو ابتدائی وقت میں ادا کر کے ان دونوں کو بھی ایک وقت میں جمع کر دیا جائے۔ حنفی فقہاء کے ہاں صرف اسی صورت کی گنجائش ہے۔ اس پر سوال کھڑا ہوا کہ جب ’’جمع صوری‘‘ کو فقہاء احناف بھی ضرورتاً جائز کہتے ہیں تو کیا دفتری اور کاروباری مصروفیات کو ضروریات کے درجہ میں شمار کر کے ظہرین اور مغربین کی طرز پر ان کے مستقل اوقات مقرر کیے جا سکتے ہیں؟ یہ سوال ہمارے پاس بھی آیا جس پر ہم نے عرض کیا کہ ضرورت کو ضرورت کے درجہ میں ہی رکھا جانا چاہیے، اسے مستقل نظام اور معمول کے دائرے میں لے آنا ان الصلٰوۃ کانت علی المؤمنین کتابًا موقوتًا کے قرآنی حکم سے مطابقت نہیں رکھتا۔
خیر اس ساری بحث سے ہٹ کر تسلیمہ نسرین کا یہ مطالبہ تو قرآن کریم میں رد و بدل اور ترامیم کے حوالہ سے ہے جس پر قرآن کریم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح اعلان موجود ہے کہ مجھے قرآن کریم کے احکام میں رد و بدل کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لیے جب احکام خداوندی میں رد و بدل کا حضورؐ کو اختیار نہیں تھا تو پھر دنیا میں اور کون سی اتھارٹی موجود ہے جو قرآن و سنت کے صریح احکام میں کسی قسم کا رد و بدل کر سکے؟ البتہ تسلیمہ نسرین طرز کے دانشور نہ صرف نماز بلکہ قرآن کریم کے دیگر بہت سے احکام کے بارے میں بھی رد و بدل کی وقتاً فوقتاً بات کرتے رہتے ہیں جسے دماغی خلل ہی کہا جا سکتا ہے۔