مولانا صوفی محمد کے ایک بیان کے حوالہ سے اسلام اور جمہوریت پر بحث جاری ہے۔ ’’اوصاف‘‘ میں موصوف کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جسے دیکھنے کے بعد اس سلسلہ میں کچھ معروضات پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
میں اصولی طور پر مولانا صوفی محمد کے اس موقف سے متفق ہوں کہ مغربی جمہوریت کا مروجہ نظام اسلامی نہیں کفریہ ہے۔ مگر موصوف اس مسئلہ کو جس انداز اور تفصیلات کے ساتھ پیش کر رہے ہیں اور جو طرز استدلال انہوں نے اختیار کر رکھا ہے مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ اور علماء کرام سے مجھے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ وہ اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے نہ تو مخاطب کی ذہنی سطح اور نفسیات کا لحاظ رکھتے ہیں اور نہ ہی ایسی زبان بولتے ہیں جو وہ آسانی سے سمجھ سکے۔ اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی بات مخاطب کے قلب و ذہن کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اندر جانے کا کوئی راستہ نہ پا کر واپس لوٹ آتی ہے۔ یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے اور آج کے دور میں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی نظام کے تعارف کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے قرآن کریم کے اسلوب بیان پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھا ہے اور اس کے مطابق روز مرہ چھوٹی چھوٹی مثالوں اور محاوروں کے ساتھ اپنا پیغام ان کے سامنے پیش کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے جو اصول بیان فرمایا ہے وہ فطری ہے کہ گفتگو میں ہمیشہ مخاطب کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھا جاتا ہے ورنہ بات بے مقصد اور ادھوری رہ جاتی ہے۔ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ انہوں نے توحید کی دعوت اور اسلامی احکام کی تشریح میں علمی اور فلسفیانہ اصطلاحات استعمال کرنے کی بجائے مشرکین عرب کو ان کی اپنی زبان میں، خود ان کی اصطلاحات میں، اور ان کے اپنے روز مرہ محاوروں و مثالوں کے ذریعہ بات سمجھائی ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کی نفسیات کا بھی لحاظ رکھا ہے۔
اسلام کا بنیادی کلمہ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے جسے جناب رسول اللہؐ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اسے دنیا و آخرت کی کامیابی کی کنجی قرار دیا اور جنت میں داخلہ کی چابی بتایا۔ لیکن جب اسی کلمہ کے بارے میں ابوجہل اور مکہ کے چند دیگر سرداروں نے حضورؐ سے دریافت کیا تو انہیں آپؐ نے یوں جواب دیا کہ میں ایسا کلمہ پیش کر رہا ہوں کہ اگر تم اسے قبول کر لو تو سارے عرب پر تمہاری حکمرانی قائم ہو جائے گی اور عجم بھی تمہارے تابع ہوگا۔ یہ جواب ان عرب سرداروں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے دیا گیا تھا کہ وہ حکمرانی اور اقتدار کے سوا اور کسی زبان کو سمجھتے ہی نہیں تھے۔ اس لیے ان کے سامنے آنحضرتؐ نے کلمۂ توحید کی افادیت کے اسی پہلو کو اجاگر کیا جو ان کی سمجھ میں با آسانی آسکتا تھا۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسلام کی بات کرتے ہوئے مخاطب کی زبان، ذہنی سطح اور نفسیات تینوں باتوں کا لحاظ رکھا جائے۔ ورنہ بات اس لطیفے والی ہو جائے گی جو عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ ایک صاحب دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔ ان کا علم تازہ تھا اور اس کا احساس بھی تھا۔ کسی ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی تو پلیٹ فارم پر ایک چھابڑی فروش نے گول گپے لگا رکھے تھے۔ مولانا صاحب نے چھابڑی والے کو آواز دی کہ:
ارے میاں! عددًا بیچتے ہو یا وزنًا؟ (گن کر دیتے ہو یا تول کر؟)
چھابڑی والے نے غور سے حضرت کی طرف دیکھا، ایک بار پھر بات کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن جب کچھ پہلے نہ پڑا تو سادگی سے بولا :
صوفی جی! میں تے گول گپے ویچداں۔ (میں تو گول گپے بیچتا ہوں۔)
اب میں جمہوریت اور اسلام کے سلسلے میں دو اصولی باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ جمہوریت کے مروجہ سسٹم کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ سوسائٹی اپنی حکمران خود ہے، اسے اپنے بارے میں ہر قسم کے قوانین و احکام مرتب کرنے کا اختیار حاصل ہے، اور سوسائٹی ہی ہر معاملہ میں فائنل اتھارٹی ہے۔ جبکہ اسلام اس فلسفے کو تسلیم نہیں کرتا اور انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات کا پابند کرتے ہوئے وحی الٰہی کو فائنل اتھارٹی قرار دیتا ہے۔ اس لیے بنیادی فلسفے کے لحاظ سے جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہیں اور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اور صرف جمہوریت ہی نہیں بلکہ جو طرز حکومت بھی آسمانی تعلیمات کی پابندی کو قبول نہیں کرتا اور فائنل اتھارٹی کے اختیارات اپنے پاس رکھتا ہے، سراسر کفر ہے۔ خواہ وہ شخصی ہو، بادشاہت ہو، کسی طبقہ یا جماعت کی حکومت ہو، یا عوام کے منتخب افراد کا مقتدر ڈھانچہ ہو۔ چنانچہ جہاں سوسائٹی کی اکثریت کو ’’حاکم مطلق‘‘ ماننے والی جمہوریت کفر ہے، وہاں وہ شخصی بادشاہتیں بھی اسی درجہ کا کفر ہیں جو بعض مسلمان ملکوں میں اب بھی قائم ہیں۔ اور جن میں اقتدار اعلیٰ شخص واحد کے ہاتھ میں ہے اور اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ جی چاہے تو اسلام کے کسی حکم کو نافذ کر دے اور اس کی صوابدید نہ ہو تو اسی اسلام کے دیگر احکام کو معطل رہنے دے۔ اس لیے جب کسی نظام حکومت کے کفریہ ہونے کی بات کی جائے تو اس میں کفر کی تمام صورتوں کو واضح کرنا ضروری ہے، ورنہ ابہام پیدا ہوتا ہے اور شکوک و شبہات کی فضا قائم ہوتی ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ اسلام حکومت کی تشکیل میں عامۃ الناس کی رائے کو بنیاد تسلیم کرتا ہے اور حکومت کے لیے عوام کے اعتماد کو ضروری قرار دیتا ہے۔ خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ کا انتخاب اسی اصول پر ہوا تھا۔ اور امیر المومنین حضرت عمرٌ بن الخطاب نے اس موضوع پر اپنے ایک طویل خطبے میں واضح طور پر فرمایا تھا کہ ’’جس شخص نے بھی مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو حکمران بنانے کی بات کی اس کی بات ہرگز تسلیم نہ کی جائے‘‘۔ اس خطبے کو امام بخاری نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اس لیے بات کو خلط ملط نہ کیا جائے۔ جہاں ایک اسلامی حکومت کے لیے قرآن و سنت کا پابند ہونا شرط ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اسے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو ۔ چنانچہ آج کے دور میں عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کی واحد صورت ووٹ ہے۔ اس کی شرائط اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن ووٹ اور اکثریت کی مطلقاً نفی درست نہیں ہے اور مولانا صوفی محمد کو اس سلسلہ میں اپنے طرز استدلال پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔