فیصل آباد میں شہباز احمد نامی ایک نئے مہدی کے ظہور نے امام مہدی کی آمد کے بارے میں بحث و گفتگو کا بازار ایک بار پھر گرم کر دیا ہے اور ملک بھر میں دینی محافل میں اس کا تذکرہ پھر سے ہونے لگا ہے۔ جہاں تک قیامت سے پہلے نسل انسانی کے آخری دور میں کسی مصلح شخصیت کے ظہور کا تعلق ہے یہ انتظار کم و بیش ہر مذہب کے پیروکاروں کو ہے البتہ اس کے عنوانات مختلف ہیں۔
امریکہ میں اب سے پون صدی قبل ایک سیاہ فام مصلح ماسٹر فارد محمد کے پیروکاروں نے اس کے بارے میں یہ عقیدہ ظاہر کیا کہ ۱۹۳۴ء میں امریکہ کے شہر ڈیٹرائٹ میں سیاہ فاموں کی اصلاح کے لیے ماسٹر فارد محمد نامی جو شخصیت ظاہر ہوئی تھی وہ اصل میں (نعوذ باللہ) خود اللہ تعالیٰ تھا جو ماسٹر موصوف کی شکل میں نمودار ہوا۔ یہ وہی موسیٰ ہے جس کا یہودیوں کو انتظار ہے، وہی عیسٰی مسیح ہے جس کے عیسائی منتظر ہیں اور وہی مہدی ہے جس کا مسلمانوں کو انتظار ہے۔ اس عقیدہ کے مطابق ماسٹر فارد محمد آلیج محمد کو اپنا نمائندہ بنا کر خود واپس آسمانوں پر چلا گیا ہے اور اب آلیج محمد دنیا کا نجات دہندہ ہے۔ یہ آلیج محمد جسے عالیجاہ محمد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے نبوت و رسالت کے دعوے کے ساتھ ۱۹۷۵ء تک زندہ رہا اور اس کی وفات کے بعد اس کی جماعت ’’نیشن آف اسلام‘‘ کی قیادت معروف سیاہ فام امریکی لیڈر لوئیس فرخان کے ہاتھ میں ہے۔ لوئیس فرخان کی نگرانی میں شائع ہونے والے نیشن آف اسلام کے ترجمان جریدے ’’دی فائنل کال‘‘ میں اب بھی یہ عقیدہ اس تفصیل کے ساتھ مسلسل شائع ہو رہا ہے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا عقیدہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں مشترک طور پر موجود ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسٰیؑ سولی پر چڑھ گئے تھے، ان پر موت وارد ہوگئی تھی جو عیسائیوں کے بقول نسلِ انسانی کے گناہوں کا کفارہ تھی، وہ تین دن تک قبر میں رہے تھے اور پھر زندہ ہو کر آسمانوں کی طرف اٹھا لیے گئے تھے۔ جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ صلیب پر نہیں لٹکے تھے بلکہ قرآن کریم کے بقول ان کے شبہ میں کسی اور شخص کو سولی دے دی گئی تھی اور عیسٰی علیہ السلام موت وارد ہوئے بغیر آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے۔ اس کے بعد دونوں گروہ اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ دوبارہ تشریف لائیں گے اور نسل انسانی کی ایک بار پھر قیادت کریں گے۔ بائبل کی کتاب ’’رسولوں کے اعمال‘‘ میں لکھا ہے:
’’یسوع مسیح جو تمہارے پاس سے آسمانوں پر اٹھایا گیا اسی طرح پھر آئے گا جس طرح تم نے اس کو آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔‘‘
جبکہ اسی بائبل میں مذکور پولس رسول کے ایک خط میں کہا گیا ہے:
’’مگر ہمارا وطن آسمان پر ہے اور ہم ایک مسیح یعنی خداوند یسوع مسیح کے وہاں سے آنے کے انتظار میں ہیں۔‘‘
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے اور دوبارہ دنیا میں نازل ہونے کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے ارشادات منقول ہیں جن کے بارے میں حافظ ابن کثیرؒ نے تفسیر ابن کثیر (ج ۴ ص ۱۳۲) میں صراحت کی ہے کہ یہ متواتر درجے کی روایات ہیں۔ جبکہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے ایک مستقل تصنیف میں ان متواتر روایات کو جمع کر دیا ہے۔ ان روایات کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارے پر نازل ہوں گے، اس وقت صبح کی نماز کا وقت ہوگا اور مسلمانوں کے امام، جو مہدی ہوں گے، حضرت عیسٰیؑ سے نماز پڑھانے کے لیے کہیں گے۔ مگر وہ یہ کہہ کر انکار فرما دیں گے کہ یہ اعزاز اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے رکھا ہے۔ ان روایات کے مطابق حضرت عیسٰیؑ امام مہدی کے ساتھ مل کر دنیا پر اسلام کی حکومت قائم کریں گے، قبیلہ ازد کی ایک خاتون سے شادی کریں گے، کم و بیش ۴۵ سال دنیا میں رہنے کے بعد ان کی وفات ہوگی اور وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے روضے میں مدفون ہوں گے جہاں ایک قبر کی جگہ آج بھی خالی موجود ہے۔
البتہ اسلامی روایات میں حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ ایک اور شخصیت کا تذکرہ بھی موجود ہے جنہیں امام مہدی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ حضرت عیسٰیؑ سے الگ شخصیت ہوگی۔ معروف محدث امام ابوداؤدؒ نے سنن ابی داؤد میں امام مہدی کے حوالے سے الگ عنوان قائم کر کے متعدد روایات ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت سے قبل میری امت میں ایک شخص ایسا ضرور آئے گا جس کا نام میرے نام پر ہوگا، اس کی والدہ کا نام میری والدہ کے نام پر ہوگا اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا۔ وہ میرے خاندان سے ہوگا، حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے ہوگا، سات سال دنیا پر حکومت کرے گا اور دنیا کو جو اس سے قبل ظلم و جور سے پر ہوگی عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ جناب نبی اکرمؐ نے مہدی کا نام، ان کی والدہ اور والد کا نام تک بتایا ہے اور نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ صراحت بھی کر دی ہے کہ وہ خود مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کرے گا بلکہ ایک حکمران کی موت پر اختلافات نمودار ہوں گے تو وہ مدینہ منورہ سے چھپ کر مکہ مکرمہ چلا جائے گا اور لوگوں سے چھپتا پھرے گا حتیٰ کہ لوگ علامات سے اسے پہچان کر اس کی مرضی کے خلاف اس سے بیعت کریں گے اور اسے اپنا حکمران بنا لیں گے۔
مگر اس کے باوجود طالع آزماؤں نے ہر دور میں جناب رسول اللہؐ کی اس پیشین گوئی سے غلط فائدہ اٹھانے اور مہدی ہونے کے دعوے کے ساتھ اپنا کاروبار چمکانے کی کوشش کی ہے۔ اسلامی تاریخ میں سینکڑوں افراد گزرے ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور عجیب و غریب باتیں کر کے اپنے گرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا کر لیا۔ گزشتہ صدی کے ایک معروف عالم اور محقق مولانا ابوالقاسم محمد رفیق دلاوریؒ نے ’’ائمہ تلبیس‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب میں ایسے سینکڑوں طالع آزماؤں کے حالات بیان کیے ہیں جنہوں نے جناب رسول اکرمؐ کی اس پیشین گوئی کے حوالے سے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز کردار مرزا غلام احمد قادیانی کا رہا ہے جس نے بیک وقت مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور دونوں کو ایک شخصیت قرار دے کر ان کے بارے میں جناب نبی اکرمؐ کی فرمودہ علامات کو خود پر فٹ کرنے کے لیے ایسی ایسی تاویلیں کیں کہ عقل سر پیٹ کر رہ گئی۔ ان تاویلات میں سے صرف ایک کو سامنے رکھ کر باقی کو اس پر قیاس کر لیجئے کہ مرزا صاحب موصوف کو مسیح اور مہدی بننے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ مرزا صاحب سے کہا گیا کہ وہ مسیح بن مریم ہونے کے دعوے دار ہیں تو ان کے بارے میں آنحضرتؐ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ وہ دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارے پر اتریں گے مگر آپ قادیان میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس پر مرزا صاحب نے قادیان میں ’’مینارۃ المسیح‘‘ کی تعمیر کا اعلان کر دیا اور اس کے لیے ملک بھر میں اپنے عقیدت مندوں سے چندے کی اپیل کی مگر وہ اس مینار کی تعمیر اپنی زندگی میں مکمل نہ کر سکے اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشینوں نے یہ مینارہ مکمل کیا۔ گویا مسیح آکر چلا بھی گیا مگر جس مینارے پر اس نے اترنا تھا وہ اس کی وفات کے بعد تکمیل پذیر ہوا۔
ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ جس مہدی کی سب سے بڑی علامت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ خود مہدی ہونے کا دعوے دار نہیں ہوگا بلکہ لوگوں سے چھپتا پھرے گا اور لوگ اسے تلاش کر کے اس کے ہاتھ پر زبردستی بیعت کریں گے، اس مہدی کے ٹائٹل کو سینکڑوں لوگوں نے دعوے کی بنیاد بنایا اور مخلوقِ خدا کے ایک بڑے حصے کی گمراہی کا سامان مہیا کیا۔ فیصل آباد میں مہدی ہونے کا دعوے دار پولیس کے ساتھ مسلح تصادم کے بعد گرفتار ہونے والا شہباز احمد دراصل مہدویت کے ایک دعوے دار ریاض گوہر شاہی کا تربیت یافتہ ہے جس نے ماضی میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے اس دعوے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں بڑے بڑے بینروں اور دیواروں پر اشتہارات کے ذریعے پاکستان کے مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی گئی کہ ’’مسلمانو! مبارک ہو امام مہدی کا ظہور ہوگیا ہے‘‘۔ ریاض گوہر شاہی کا کہنا تھا کہ چاند پر اس کی تصویر دکھائی گئی ہے بلکہ خانہ کعبہ کے حجرِ اسود پر کئی مرتبہ اس کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ اور یہ کہ امریکہ کے ایک ہوٹل میں اس کی حضرت عیسٰیؑ سے ملاقات ہو چکی ہے اور ان کے ساتھ مستقبل کا پروگرام طے ہوگیا ہے۔ مگر اس غریب کو خبر نہیں تھی کہ مستقبل کا پروگرام جس کے ہاتھ میں ہے اس نے اس کے بارے میں کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا ہے، چنانچہ اجل کے اس فیصلے نے اس کے سارے خواب چکناچور کر دیے۔ شہباز احمد بھی اسی کا تربیت یافتہ ہے اس نے بھی اپنے استاد کے نقش قدم پر چل کر دنیا سے خود کو امام مہدی منوانے کا پروگرام ترتیب دیا اور اسلحہ کی نمائش کے ساتھ اپنے مہدی ہونے کا اعلان کیا لیکن وہ اپنے استاد کا کچا شاگرد نکلا۔ استاد نے تو مہدی کے دعوے کے ساتھ کچھ دن گزار لیے تھے مگر شاگرد دعوے کے پہلے روز ہی اپنے اناڑی پن کے ہاتھوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا ہے۔
جہاں تک امام مہدی کا تعلق ہے وہ تو بہرحال اپنے وقت پر آئیں گے مگر ان کے نام پر اپنے اپنے خودساختہ مذہبوں کی دکانیں چمکانے والوں کے کرتب بھی تاریخ کے ایک دلچسپ باب کا عنوان بن گئے ہیں۔