سانحہ لال مسجد، جامعہ حفصہ اور علماء ایکشن کمیٹی

   
۱۵ جولائی ۲۰۰۸ء

لال مسجد کے سانحہ کو ایک سال گزر گیا ہے، مگر اس سے متعلقہ مسائل ابھی تک جوں کے توں ہیں۔ عوام نے تو اپنا فیصلہ الیکشن میں صادر کر دیا تھا کہ لال مسجد کے آپریشن کی ذمہ داری میں شریک جماعتوں اور ان کے حامیوں کو مسترد کر کے لال مسجد کے سانحہ پر غم و غصے کا اظہار کرنے والی جماعتوں اور رہنماؤں کو اپنے اعتماد سے نوازا۔ یہ الیکشن خاتون شہداء کے نام پر جیتا گیا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ووٹ حاصل کیے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شہدائے لال مسجد کا کارڈ استعمال کیا، جس کا پاکستان مسلم لیگ (ق) کے متعدد رہنماؤں نے واضح اعتراف کیا کہ ان کی شکست کا باعث لال مسجد کا آپریشن ہے، جبکہ راولپنڈی کی فضاؤں میں انتخابی مہم کے دوران بلند کیے جانے والے اس نعرے کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے کہ ”ووٹ کس کا؟ لال مسجد کا یا لال حویلی کا؟“ مگر الیکشن گزر جانے کے بعد لال مسجد کسی کو یاد نہ رہی اور جامعہ حفصہ کی طالبات ابھی تک قومی رہنماؤں کا منہ تک رہی ہیں کہ الیکشن جیت جانے کے بعد بھی کسی کی زبان پر لال مسجد کا نام آ رہا ہے یا نہیں؟

لال مسجد کے حوالہ سے توجہ طلب مسائل واضح ہیں کہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خلاف اس وحشیانہ آپریشن کی ذمہ داری کس پر ہے، جس میں سینکڑوں معصوم بچیوں کو آگ اور خون میں تڑپا دیا گیا؟ سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی رٹ زیر سماعت ہے، مگر عدالت عظمیٰ کا اپنا بحران کسی طرف لگے تو لال مسجد جیسے مسائل کو اس کی توجہ حاصل ہو۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر اور جامعہ فریدیہ کی تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کا حکم دے رکھا ہے، مگر دونوں فیصلوں پر عملدرآمد کی طرف کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دے رہی۔

مولانا عبد العزیز کی بیشتر مقدمات میں ضمانت منظور ہو چکی ہے، مگر جو ایک دو باقی ہیں ان میں تاریخ دی جا رہی ہے۔ اس طرح ان کی رہائی کا بظاہر مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حالانکہ اسی نوعیت کے مقدمات اور سرگرمیوں کے الزام میں مولانا صوفی محمد صوبہ سرحد کی حکومت کے ساتھ باقاعدہ معاہدے کے تحت رہا ہو چکے ہیں، بلکہ انہیں پرامن رہنے کے وعدے پر نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے لیے سرگرمیوں کی اجازت بھی دے دی گئی ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اسی قسم کا معاہدہ مولانا عبد العزیز کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا، جو اس بحران کے پرامن خاتمے کی طرف پیشرفت ہوتا، مگر اربابِ حل و عقد اس رخ پر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کچھ پس پردہ قوتیں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملات کو بدستور جوں کا توں رکھنا چاہتی ہیں، تاکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر وہ مقاصد حاصل ہوتے رہیں، جن کے لیے اس سب کچھ کا اہتمام کیا گیا تھا۔

اس پس منظر میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے علمائے کرام نے ”لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی“ قائم کر کے اس مسئلے پر رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے احتجاجی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ۶ جولائی کو لال مسجد اسلام آباد میں پہلا احتجاجی جلسہ منعقد کر کے اپنی جدوجہد کا آغاز بھی کر دیا۔ اس سلسلے میں دوسرا جلسہ ۱۰ جولائی کو کوئٹہ میں ہو چکا ہے اور تیسرا جلسہ ۱۰ اگست کو لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ۷ جولائی کے جلسے میں جمعیت علمائے اسلام، وفاق المدارس، کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا اور ان مطالبات کو دہرایا، جن کا ہم سطور بالا میں تذکرہ کر چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی مسمار شدہ جامعہ حفصہ کی زمین پر خیموں میں طالبات کی تعلیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اخباری اطلاعات اور تصویروں کے مطابق علامتی طور پر اس جگہ خیمے میں طالبات کی کلاس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ لال مسجد کے قائم مقام خطیب مولانا عبد الغفار اور ان کے نائب مولانا عامر صدیق بھی اس جدوجہد میں ”لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی“ کے ساتھ شریک ہیں اور سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ مولانا عبد العزیز کی اہلیہ محترمہ ام حسان صاحبہ نے، جو اپنی رہائی کے بعد سے مسلسل ملک کے مختلف حصوں میں خواتین کے اجتماعات سے خطاب کر رہی ہیں، دو روز بعد لال مسجد میں ہی خواتین کا اجتماع منعقد کر کے ۶ جولائی کی ”شہدائے لال مسجد کانفرنس“ کے اعلانات اور مطالبات کی تائید کر دی ہے، جو اس حوالے سے یقیناً قابلِ اطمینان بات ہے کہ لال مسجد کی تحریک اور اس کے خلاف آپریشن کے دوران غازی عبد الرشید شہید کے خاندان اور ملک کی معروف دینی جماعتوں کے درمیان عدمِ اعتماد کی فضا قائم کرنے اور پھر اسے برقرار رکھنے کی بطور خاص کوشش کی گئی تھی اور ایک مخصوص حلقے نے مسلسل اس پر محنت کی تھی کہ غازی عبد الرشید شہید کے خاندان کے معروف دینی قیادت بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اسی طرح اسلام آباد اور راولپنڈی کے علمائے کرام کے ساتھ اس قسم کے روابط اور باہمی اعتماد کی وہ کیفیت نہ رہے کہ دونوں ایک دوسرے کے کام آ سکیں۔

اسی ہفتے کے دوران بعض اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوشش اب تک جاری ہے اور اس کے لیے فرضی شکوک و شبہات کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں، لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی کے علمائے کرام پر مشتمل ”لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی“ کی ۶ جولائی کی کانفرنس میں وفاق المدارس کی قیادت اور دیگر دینی جماعتوں کے قائدین کی شرکت و خطاب اور اس کے بعد محترمہ ام حسان کی طرف سے خواتین کے اجتماع میں ۷ جولائی کی کانفرنس کے فیصلوں پر اعتماد اور اطمینان کا اظہار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ باہمی غلط فہمیوں کے بادل چھٹ رہے ہیں اور مطلع بتدریج صاف ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر ”لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی“ کے فورم پر جمعیت علمائے اسلام، وفاق المدارس، کالعدم سپاہ صحابہ اور دوسری جماعتوں کے ساتھ غازی عبد الرشید شہید کا خاندان اور مولانا عبد العزیز کا مشاورتی حلقہ بھی شریکِ کار ہو جائیں اور پالیسی ترجیحات باہمی مشاورت و اعتماد کے ساتھ طے کر لیں، تو لال مسجد کے حوالے سے مطالبات کی جدوجہد کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکتا اور نفاذِ شریعت کی تحریک کے لیے بھی ایک اچھی بنیاد فراہم ہو سکتی ہے۔ بلکہ ہم تو اس سے بھی آگے جدوجہد کے دائرے کو مزید وسعت دیے جانے کے خواہشمند ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے مذہبی مکاتب فکر اور طبقات بالخصوص سیاسی جماعتوں اور وکلاء کو بھی اعتماد میں لینے اور شریکِ کار بنانے کی ضرورت ہے اور لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔

ان گزارشات کے ساتھ آج کے کالم میں ہم ایک اور بات کا ذکر بھی کرنا چاہتے ہیں، جو اگرچہ غیر متعلقہ ہے، لیکن اس میں مزید تاخیر کو مناسب نہ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ ہی اس کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

راقم الحروف کو گزشتہ دنوں لاہور میں سول سیکرٹریٹ کے ساتھ ایک معروف اشاعتی ادارے ”دارالسلام“ میں جانے کا موقع ملا، جو اہل حدیث مکتب فکر کے معروف عالم دین مولانا عبد المالک مجاہد نے ریاض (سعودی عرب) میں قائم کیا تھا اور اب اس کا دائرہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلتا جا رہا ہے۔ قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم، احادیث نبویہؐ کی مستند کتابوں اور دیگر دینی علوم میں معیاری کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے اس ادارے نے عالمی شہرت حاصل کر لی ہے اور چونکہ مولانا عبد المالک مجاہد کا تعلق پاکستان سے ہے، اس لیے ان کا یہ ادارہ پاکستان کی نیک نامی کا باعث بھی بن رہا ہے۔

ہمارے ہاں دینی لٹریچر کی طباعت کا معیار کبھی بھی بین الاقوامی معیار کی برابری نہیں کر سکا، اس کی ایک وجہ دینی حلقوں کی قوتِ خرید کی بے بسی بھی ہے کہ علمائے کرام اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد مہنگی کتابیں خریدنے کی متحمل نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں کی اپنی ترجیحات بھی اس کا باعث ہیں کہ کم سے کم محنت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا رجحان ہماری روایت بنتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی طباعت کے بارے میں حکومت کو مداخلت کرنا پڑی کہ ایک متعینہ معیار سے کم معیار کے کاغذ پر قرآن کریم کی طباعت کو قانوناً جرم قرار دے دیا گیا، جو اگرچہ دوسرے قوانین کی طرح عملاً زیادہ مؤثر نہیں ہے، لیکن ہمارے اجتماعی مزاج اور ذوق کی ضرور نشاندہی کرتا ہے۔ ”دارالسلام“ اس مزاج اور ذوق سے بغاوت کا نام ہے اور دینی لٹریچر کی بین الاقوامی معیار کے مطابق عمدہ طباعت و اشاعت کے لیے اس کی محنت دوسرے اشاعتی اداروں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دارالسلام میں اپنے پرانے دوستوں پروفیسر محمد یحییٰ اور مولانا حافظ ارشاد احمد کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اول الذکر متحدہ طلباء کونسل میں اور ثانی الذکر تحریک ختم نبوت میں ہمارے سرگرم ساتھی رہے ہیں اور اب دارالسلام کی علمی اور اشاعتی سرگرمیوں میں اس کے ساتھ شریکِ کار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو مزید ترقی سے نوازے اور دیگر اشاعتی اداروں کو بھی دارالسلام کے تجربات سے استفادہ کرنے کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter