مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی اور مذہب کا مختصر سا خاکہ

   
۲۵ و ۲۶ فروری ۲۰۰۴ء

قادیانی مذہب کے بانی غلام احمد قادیانی ہیں، جنہوں نے یہ دعویٰ کر کے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے، انہیں نبوت و رسالت کے منصب سے نوازا گیا ہے، اب دنیائے انسانیت کی نجات ان کی پیروی میں ہے، انہیں ماننے والے ہی مسلمان کہلائیں گے اور فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہوں گے اور ان کی نبوت اور وحی پر ایمان نہ لانے والے انسان خواہ انہوں نے ان کا نام بھی نہ سنا ہو نجات سے محروم ہوں گے اور جہنم میں جائیں گے۔

مرزا صاحب نے اپنی اس نئی وحی اور نبوت کے اعلان کے ساتھ مسلمانوں کے مندرجہ ذیل اجتماعی عقائد سے انحراف کیا اور کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے یہ عقائد درست نہیں ہیں اور ان کے مقابلہ میں جو عقائد وہ پیش کر رہے ہیں وہی صحیح اور واجب الایمان ہیں، جن پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص نجات کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے:

  • مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر اور رسول ہیں، ان کے بعد قیامت تک کسی کو نئی نبوت نہیں ملے گی۔ جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا کہ نبوت و رسالت کا دروازہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بند نہیں ہوا اور نہ ہی وحی منقطع ہوئی ہے، بلکہ قیامت تک نئے نبی آتے رہیں گے اور وحی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
  • مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نبوت وہبی منصب ہے، یعنی اس میں کسی شخص کی محنت کا دخل نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ساتھ انسانوں میں سے انبیاء کرام علیہم السلام کا خود انتخاب فرمایا ہے۔ جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا کہنا ہے کہ نبوت کسبی چیز ہے، جو محنت اور ریاضت کے ذریعہ بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور کوئی امتی عبادات اور مجاہدات کر کے بھی نبوت کا مقام حاصل کر سکتا ہے۔
  • مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودی سولی پر نہیں چڑھا سکے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر موت ابھی تک نہیں آئی، وہ زندہ حالت میں آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے۔ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، امام مہدی کے ساتھ مل کر خلافت قائم کریں گے، ان کی شادی ہو گی، بچے ہوں گے، پھر مدینہ منورہ میں ان کی وفات ہوگی اور وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر میں دفن ہوں گے، جہاں ان کے لیے قبر کی جگہ اب بھی خالی ہے۔ جبکہ مرزا قادیانی نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور ان کی قبر کشمیر میں ہے۔
  • مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدی دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور حضرت امام مہدی پہلے سے موجود ہوں گے، جو ان کا استقبال کریں گے۔ دونوں کی نشانیاں پوری وضاحت کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و احادیث میں موجود ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دونوں ایک ہی شخصیت ہیں، جو مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں ظاہر ہو چکی ہے اور احادیث میں عیسیٰ اور مہدی کے بارے میں جتنی نشانیاں بھی بیان کی گئی ہیں وہ مرزا قادیانی میں موجود ہیں، اس لیے وہ عیسیٰ ہیں اور وہی مہدی ہیں۔ ان کے علاوہ اب کسی عیسیٰ اور مہدی کا ظہور نہیں ہو گا۔
  • مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جہاد اسلام کے احکام میں سے ہے جو قیامت تک جاری رہے گا اور جب بھی ضرورت پڑے گی مسلمان شرعی احکام کے مطابق کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کے پابند ہوں گے۔ جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا کہ مسلح جنگ کی صورت میں جہاد ان کے آنے کے بعد منسوخ ہو گیا ہے، اب صرف زبان اور قلم کے ذریعہ تبلیغ و دعوت کو جہاد کہا جائے گا اور ان کی نبوت و رسالت کا سب سے بڑا مقصد ہی یہ ہے کہ ہتھیار کے ساتھ جہاد کو ہمیشہ کے لیے منسوخ کر دیا جائے۔

یہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں جن میں مرزا غلام احمد قادیانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے اجتماعی عقائد کے خلاف الگ موقف اختیار کیا اور اس کی بنیاد پر ایک نئے مذہب کا آغاز کیا۔ مرزا قادیانی کی تحریروں میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں، جن کی وجہ سے امت مسلمہ کے علماء کرام نے متفقہ طور پر مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کو دائرہ اسلام سے خارج اور اسلام سے ہٹ کر ایک نئے مذہب کے پیروکار قرار دیا۔

مرزا غلام احمد قادیانی کا خاندان متحدہ ہندوستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والے مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھی تھا اور خود مرزا صاحب نے اپنی کتاب ”تحفہ قیصریہ“ ص ۱۶ میں لکھا ہے کہ

”میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھے اور سرکار انگریزی کے ایسے خیر خواہ اور دل کے بہادر تھے کہ مفسدہ ۱۸۵۷ء میں پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جوان بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ اس گورنمنٹ عالیہ کو مدد دی تھی۔“

۱۸۵۷ء میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی تھی، جسے مرزا قادیانی نے مفسدہ (فساد) قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس معرکہ میں ان کے والد نے پچاس گھوڑوں اور سواروں کے ساتھ انگریزوں کی مدد کی تھی۔

مرزا غلام احمد قادیانی کی ولادت پنجاب کے ضلع گورداس پور کے قصبہ قادیان میں مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر ۱۸۴۰ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم جو زیادہ تر فارسی، عربی اور قرآن و حدیث پر مشتمل تھی مختلف اساتذہ سے حاصل کی۔ جوان ہونے پر کچھ عرصہ والد کا زمینداری میں ہاتھ بٹاتے رہے، پھر ایک واقعہ ہوا جس کی وجہ سے شرمساری کے باعث گھر نہیں گئے اور سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے میں محرر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔ یہ واقعہ مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے اپنی کتاب ”سیرۃ المہدی“ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ

”مرزا غلام احمد قادیانی کو ان کے والد نے اپنی پنشن وصول کرنے کے لیے بھیجا جو اس وقت سات سو روپے سالانہ تھی۔ مرزا صاحب نے اپنے والد کی پنشن وصول کر لی، مگر ان کے ساتھ ایک رشتہ دار مرزا امام دین تھا، جس کے ورغلانے پر انہوں نے وہ رقم اس کے ساتھ ادھر ادھر گھوم پھر کر خرچ کر ڈالی اور پھر شرم کے مارے گھر جانے کی بجائے سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ملازمت اختیار کر لی۔ ملازمت کے دوران مرزا غلام احمد قادیانی کا تعلق سیالکوٹ کے ایک پادری ٹیلر سے ہوا، جو چار سالہ مدت ملازمت کے دوران مسلسل جاری رہا اور اس نے دوستی کی شکل اختیار کر لی۔“

قادیانیوں کی شائع کردہ کتاب ”مسیح موعود کے مختصر حالات“ میں لکھا ہے کہ

”مذہبی معاملات پر دونوں کی گفتگو کئی کئی گھنٹے جاری رہتی تھی۔ پادری ٹیلر کے ہندوستان سے واپس چلے جانے کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ملازمت ترک کر دی اور قادیان واپس جا کر ایک مذہبی مبلغ اور مصلح کے روپ میں زندگی کے نئے دور کا آغاز کیا۔“

مرزا قادیانی نے اپنی مذہبی زندگی اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ایک مبلغ اور مناظر کے طور پر شروع کی اور اشتہارات اور رسائل کے ذریعہ عیسائی پادریوں اور ہندو مبلغوں کو چیلنج دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزا قادیانی کو فلسفیانہ گفتگو اور مناظرانہ طریقوں پر عبور حاصل تھا، اس لیے مسلمانوں میں ان کے لیے دلچسپی پیدا ہونے لگی اور آہستہ آہستہ ایک اچھی خاصی جماعت ان کے ساتھ منسلک ہو گئی۔ چونکہ مقابلہ عیسائی پادریوں اور ہندو مبلغوں سے تھا، اس لیے بہت سے علماء کرام نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی اور جب مرزا صاحب نے دیکھا کہ ان کے ہمدردوں اور ساتھیوں کا ایک حلقہ وجود میں آ گیا ہے تو آہستہ آہستہ دعووں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پہلے یہ دعویٰ کیا کہ ان پر الہام ہوتا ہے، پھر کہا کہ وہ مہدی ہیں، پھر کہا کہ وہ مسیح ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسیح ابن مریم کی دنیا میں تشریف آوری کی خبر دی ہے وہ وہی ہیں، جبکہ عیسیٰ ابن مریم کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا اور کہا کہ ان پر وحی آتی ہے اور انہیں نبوت و رسالت کا منصب عطا کیا گیا ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے دعاوی ان کے اپنے الفاظ میں اس طرح ہیں:

  • ”۔۔۔۔ مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے۔“ (اشتہار ”ایک غلطی کا ازالہ“ بحوالہ تبلیغ رسالت، ص ۱۸)
  • ”۔۔۔۔ میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابوں میں پیش گوئیاں موجود ہیں کہ وہ آخری زمانے میں ظاہر ہو گا۔“ ( تحفہ گولڑویہ، مصنفہ مرزاغلام احمد قادیانی، ۱۹۵)
  • ”جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے اس کا ان ہی حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا ہے کہ وہ نبی ہوگا اور امتی بھی۔“ (حقیقۃ الوحی، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی، ص ۲۶)
  • ”۔۔۔۔ احادیث نبویہ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔“(حقیقۃ الوحی، ص ۳۹۰)
  • ”۔۔۔۔ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ تورات، انجیل اور قرآن کریم پر۔“ (اربعین نمبر ۴، مصنفہ مرزا قادیانی)
  • ”۔۔۔۔ اور خدا کا کلام اس قدر مجھ پر نازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس جزو سے کم نہیں ہو گا۔“ (حقیقۃ الوحی، ص ۳۹)
  • ”۔۔۔۔ آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا ہے اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریمﷺ کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرما دیا کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔“ (تبلیغ رسالت، جلد ۹)
  • ”۔۔۔۔ اور ہمارے نزدیک تو کوئی دوسرا آیا ہی نہیں، نہ نیا نبی اور نہ پرانا، بلکہ خود محمد رسول اللہؐ ہی کی چادر دوسرے کو پہنا دی گئی ہے اور وہ خود ہی آئے ہیں۔“ (ارشاد مرزا غلام احمد قادیانی، منقول از ”جماعت مبایعین کے عقائد صحیحہ“، مطبوعہ قادیان، ص ۱۷)
  • ”۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا، جیسا کہ آیت ”آخرین منھم“ سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمد رسول اللہ ہیں، جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ہیں۔“ (کلمۃ الفضل، مصنفہ مرزا بشیر احمد، ص ۱۵۸)
  • ”۔۔۔۔ اگر میری گردن پر دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم کہو کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا اور کذاب ہے۔ آپؐ کے بعد نبی آ سکتے ہیں اور ضرور آ سکتے ہیں۔“ (انوار خلافت، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود، ص ۶۵)
  • ”۔۔۔۔ حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے ہیں اور ان کا زندہ مع جسم عنصری جانا اور اب تک زندہ ہونا اور پھر کسی وقت مع جسم عنصری زمین پر آ جانا یہ ان پر تہمتیں ہیں۔“ (ضمیمہ براہین احمدیہ، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی، ص ۲۳۰)
  • ”۔۔۔۔ یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں، یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھیں۔“ (کشتی نوح، ص ۱۶)

مسلمانوں کے بنیادی اور اجتماعی عقائد سے اس انحراف کی وجہ سے ملت اسلامیہ کے علماء کرام نے مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کو کافر اور مرتد قرار دیا اور مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے جانشینوں نے بھی مرزا قادیانی کے ان دعووں اور عقائد پر ایمان نہ لانے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ چنانچہ مرزا بشیر الدین محمود نے اعلان کیا کہ

”کل مسلمان جو مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔“ (آئینہ صداقت، ص ۳۵)

اس سے یہ بات دونوں کے نزدیک طے ہو گئی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں کو تسلیم نہ کرنے والے دنیا بھر کے مسلمان الگ مذہب کے پیروکار ہیں اور مرزا قادیانی کو ماننے والے ان سے الگ مذہب رکھتے ہیں۔ چنانچہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات تجویز کی کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ سمجھا جائے اور ایک نئے مذہب کا پیروکار قرار دیا جائے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے یہ بھی کہا کہ قادیانی مذہب یہودیت کا چربہ ہے اور اس کے عقائد کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر پنڈت جواہر لال نہرو سے ان کی خط و کتابت بھی ہوئی اور علامہ اقبالؒ نے پنڈت نہرو کے نام اپنے خطوط میں اپنے موقف کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ اس موقع پر جب پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ علامہ اقبالؒ کی خط و کتابت ہو چکی تھی، قادیانیوں نے لاہور میں پنڈت نہرو کو استقبالیہ دیا اور اس کی وجہ اس وقت کے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے اپنے خطبہ جمعہ میں یہ بیان کی کہ

”اگر پنڈت جواہر لال نہرو اعلان کر دیتے کہ احمدیت کو مٹانے کے لیے وہ اپنی تمام طاقت خرچ کر دیں گے جیسا کہ احرار نے کیا ہوا ہے، تو اس قسم کا استقبال بے غیرتی ہوتا، لیکن اگر اس کے برخلاف یہ مثال موجود ہو کہ قریب کے زمانہ میں ہی پنڈت صاحب نے ڈاکٹر اقبال کے ان مضامین کا رد لکھا ہے جو انہوں نے احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ قرار دیے جانے کے لیے لکھے تھے اور نہایت عمدگی سے ثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے احمدیت پر اعتراض اور احمدیوں کو علیحدہ کرنے کا سوال بالکل نامعقول اور خود ان کے گزشتہ رویہ کے خلاف ہے، تو ایسے شخص کا جبکہ وہ صوبے میں مہمان کی حیثیت سے آ رہا ہو، ایک سیاسی انجمن کی طرف سے استقبال بہت اچھی بات ہے۔“ (اخبار الفضل، قادیان، ۱۱ جون ۱۹۳۶ء)

مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں اور واقعات کا سب سے دلچسپ پہلو وہ ہے جس کا تعلق ان کی پیش گوئیوں سے ہے اور جن کے پورا نہ ہونے پر مرزا قادیانی کو نہ صرف ذلت اٹھانا پڑی، بلکہ طرح طرح کی تاویلیں کر کے انہوں نے اپنے لیے جگ ہنسائی کا سامان فراہم کیا۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت محمدی بیگم والی پیش گوئی نے حاصل کی جو خود مرزا غلام احمد قادیانی کے ایک رشتہ دار مرزا احمد بیگ کی بیٹی تھی اور مرزا قادیانی کے اصرار بلکہ دھمکیوں کے باوجود اس نے محمدی بیگم کا رشتہ مرزا غلام احمد قادیانی کو دینے سے انکار کر دیا تھا، بلکہ اس کی شادی مرزا سلطان احمد سے کر دی تھی۔ اس پیش گوئی کو خود مرزا غلام احمد قادیانی نے ان الفاظ سے بیان کیا کہ:

”خدائے تعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر اس عاجز پر ظاہر فرمایا کہ مرزا احمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیار پوری کی دختر کلاں محمدی بیگم انجام کار تمہارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو، لیکن آخر کار ایسا ہی ہو گا اور فرمایا کہ خدائے تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا، باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔“ (ازالہ اوہام، ص ۳۹۶)

مرزا صاحب نے اس پیش گوئی کو اپنے سچا یا جھوٹا ہونے کا معیار قرار دیا اور کہا کہ

”میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے، اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہو گی اور میری موت آ جائے گی۔ اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ اس کو ضرور پورا کرے گا۔“ (انجام ۔۔۔۔ حاشیہ، ص ۲۱)

مگر مرزا صاحب کی یہ پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی۔ مرزا قادیانی کی وفات سے کافی دیر بعد تک مرزا سلطان احمد زندہ رہا اور محمدی بیگم اس کی بیوی رہی۔ اس کا نکاح مرزا قادیانی سے نہ باکرہ کی حالت میں ہوا، اور نہ ہی بیوہ ہو کر وہ مرزا صاحب کے نکاح میں آئی۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے ذاتی کردار کے حوالہ سے بھی خود قادیانی لٹریچر میں ایسی باتیں موجود ہیں جو کسی بھی شخص کے کردار کو مشکوک بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ مثلاً ”سیرت المہدی“ میں خود مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ

”مرزا صاحب نے گھر میں غیر محرم نوجوان لڑکیاں رکھی ہوئی تھیں۔ نصف شب کو نوجوان مریدنیاں بدن دبایا کرتی تھیں۔ عائشہ نامی پندرہ سالہ لڑکی دو سال تک مرزا قادیانی کی خدمت میں رہی اور اس کے پاؤں دبانے کی عادت مرزا صاحب کو بہت پسند تھی۔“

قادیانی آرگن روزنامہ ”الفضل“ قادیان نے ۳۱ اگست ۱۹۳۸ء کے شمارے میں اس بات کو تسلیم کیا کہ مرزا صاحب کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے تھے اور ایک قادیانی کی کتاب ”خطوط امام بنام غلام“ میں لکھا ہے کہ ”مرزا صاحب ٹانک وائن شراب پیا کرتے تھے۔“

یہ ہے مرزا غلام احمد قادیانی کی شخصیت اور دعووں کا ایک ہلکا سا خاکہ، جو خود قادیانی لٹریچر میں موجود ہے، لیکن قادیانی جماعت کی قیادت سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس جھوٹی نبوت کے ساتھ ابھی تک چمٹے ہوئے ہے، بلکہ ملمع سازی اور فریب کاری کے ذریعہ مرزا قادیانی کی زندگی کے اصل پہلوؤں کو عام لوگوں سے اوجھل رکھ کر دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کو گمراہی اور انہیں جہنم کی طرف دھکیلنے کا سامان کر رہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter