پاکستان شریعت کونسل اسلام آباد و راولپنڈی کے سرکردہ رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس ۳ اپریل ۲۰۱۴ء کو اسلام آباد میں کونسل کے مرکزی امیر مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کی قیام گاہ پر ان کی زیرِ صدارت منعقد ہوا، جس میں مرکزی نائب امیر مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی اور سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ مولانا عبد المجید ہزاروی، مولانا محمد رمضان علوی، مفتی محمد سیف الدین، جناب صلاح الدین فاروقی، مولانا قاری محمد الیاس، مولانا محمد ادریس لدھیانوی، حافظ سید علی محی الدین، جناب سعید اعوان، مولانا محمد ادریس علوی، مولانا ثناء اللہ غالب، پروفیسر ڈاکٹر احمد خان، مولانا محمد ادریس ڈیروی، مولانا سلطان محمود ضیاء، مولانا مفتی عبد القدوس، حافظ محمد معاویہ اور حافظ محمد زبیر نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے چند اہم مسائل پر ارکان پارلیمنٹ کو توجہ دلانے کے لیے مندرجہ ذیل عرضداشت پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
”بگرامی خدمت معزز ارکان پارلیمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
”پاکستان شریعت کونسل“ جو کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے غیر انتخابی فکری و علمی فورم کے طور پر ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہے، وطن عزیز کی تازہ ترین صورت حال کے حوالہ سے قوم کے منتخب نمائندگان کو اس عرضداشت کے ذریعہ توجہ دلانا چاہتی ہے۔ امید ہے کہ معزز ارکان پارلیمنٹ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرما کر ایوان میں انہیں مناسب صورت میں پیش کرنے کی زحمت فرمائیں گے۔
- کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ حکومتی مذاکرات میں بظاہر محسوس ہونے والی پیشرفت اطمینان بخش ہے، جس سے یہ توقع بڑھتی جا رہی ہے کہ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ حکومتی رٹ کے قیام کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بالادستی، نفاذِ شریعت، امن عامہ کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے مقاصد ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور حاصل ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان مذاکرات کو وطن عزیز کے نظریاتی تشخص کے تحفظ، مکمل استحکام و سلامتی اور امن عامہ کی مکمل بحالی کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
ہم فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد اور بہتر مستقبل کی خاطر ان مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو، آمین۔
- گزشتہ دنوں قومی اسمبلی آف پاکستان نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانون سازی کے لیے متعلقہ ایوانوں میں پیش کرنے کی جو قرارداد منظور کی ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور وزارت قانون سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی دستوری و قانونی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کرے، تاکہ ملکی قوانین کو دستور کے مطابق قرآن و سنت کے مطابق بنانے کا مبارک عمل جلد از جلد مکمل کیا جا سکے۔
نیز اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دینے کے بارے میں سندھ اسمبلی کی حالیہ قرارداد ”پاکستان شریعت کونسل“ کی نظر میں افسوسناک اور پاکستان کے دستور کی نظریاتی اساس سے بے خبری اور بے پروائی کا نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی اس تجویز کے مطابق قانون سازی کو یقینی بنانے کے لیے جید علماء کرام اور قانون دانوں پر مشتمل ایک کونسل کو پارلیمنٹ کے ساتھ شریک کار ہونا چاہیے، تاکہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے دائرہ میں قانون سازی کے لیے اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کر سکے۔ اس لیے ہم سندھ اسمبلی کے معزز ارکان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ نفاذ اسلام کے سلسلہ میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے خطبات کا مطالعہ کریں اور دستور پاکستان کے اسلامی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ناگزیر فورم کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کے وجود و کردار کی نفی کرنے کی بجائے قومی اسمبلی کی قرارداد کے مطابق کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کے لیے پیشرفت کریں۔
- ملک کے قومی نظامِ تعلیم اور نصاب میں اس وقت پائی جانے والی تقسیم در تقسیم نے جو فکری خلفشار اور ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ سکولوں اور کالجوں کی طبقاتی درجہ بندی کے ساتھ ساتھ مختلف بلکہ متضاد نصاب ہائے تعلیم قومی یک جہتی کے لیے زہر قاتل کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں، جبکہ حکومتی پالیسیوں کا رخ اس خلفشار کو ختم کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی طرف دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے قومی وحدت اور ہم آہنگی کا اولین تقاضہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور قوم کو مختلف طبقات اور ثقافتی دائروں میں تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے دستور پاکستان کے مطابق اسلامی تعلیمات کی اساس پر یکساں تعلیمی نظام و نصاب تشکیل دیا جائے، تاکہ ملک کے تہذیبی و نظریاتی تشخص کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قومی وحدت اور ملکی استحکام کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
- دینی مدارس اس وقت ملک بھر میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے جو خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ انتہائی قابلِ قدر ہیں اور قومی تعلیمی نظام میں دینی علوم کی تعلیم کے فقدان کے پس منظر میں ملک کی ایک اہم قومی ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ان کا موجودہ معاشرتی کردار اس وجہ سے محفوظ بنیادوں پر مصروف کار ہے کہ وہ سرکاری کنٹرول سے باہر رہتے ہوئے عوام کے رضاکارانہ تعاون کے ساتھ آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں، جبکہ ماضی میں محکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف کی تحویل میں لیے جانے والے بیسیوں دینی مدارس (مثلاً جامعہ عباسیہ بہاولپور اور جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ وغیرہ) اپنا وجود اور تشخص کھو چکے ہیں، اور غالباً اسی وجہ سے دینی مدارس کے وفاق اپنے نظام و نصاب کے حوالہ سے کسی سرکاری مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو مذکورہ بالا پس منظر میں بالکل بجا نظر آتا ہے۔
پاکستان شریعت کونسل یہ سمجھتی ہے کہ دینی مدارس کے نظام و نصاب کا سرکاری کنٹرول سے الگ رہنا ان کے تعلیمی و دینی کردار کے تسلسل اور ان پر عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے، جبکہ انہیں سرکاری کنٹرول میں لانے کے نتیجے میں موجودہ حالات میں ان مدارس کے موجودہ تعلیمی، دینی اور رفاہی کردار کو خدانخواستہ باقی نہیں رکھا جا سکے گا۔ اس لیے معزز ارکان پارلیمنٹ سے درخواست ہے کہ وہ دینی مدارس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کریں اور دینی مدارس کے نظام کو خطرات و خدشات سے دو چار کرنے کی بجائے ان کی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے میں ان سے تعاون کریں۔
دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالہ سے ضروری اصلاحات کی اہمیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ سرے سے ان کے نظام و نصاب کے بنیادی ڈھانچے کو ہی معرضِ خطر میں ڈال دیا جائے، بلکہ دینی مدارس کے وفاقوں کو اعتماد میں لے کر باہمی مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعہ مبینہ کمزوریوں، خامیوں اور خلا کو پر کرنے کا طریق کار ہی موجودہ حالات میں قابلِ عمل ہو سکتا ہے۔
- اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح فیصلوں کے باوجود ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کا وہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا جا سکا جس کا دستور پاکستان میں وعدہ کیا گیا ہے اور اپیل در اپیل کے مختلف مراحل میں سالہا سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے خلاف کیس کی ازسرنو سماعت شروع ہوتے ہی اس کے پھر سے غیر معینہ التواء نے اس سلسلہ میں قوم کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے، جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور متعدد عالمی مالیاتی ادارے غیر سودی بینکاری کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خود اس کی طرف پیشرفت کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی حلقوں میں غیر سودی بینکاری کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
اس لیے ہم وفاقی شرعی عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کیس کی سماعت کو جلد از جلد مکمل کر کے قوم کو سودی نظام کی نحوست سے نجات دلائے اور ارکان پارلیمنٹ سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس سلسلہ میں کردار ادا کریں، تاکہ قرآن و سنت کے صریح احکام پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی اس خواہش کی تکمیل کا بھی اہتمام ہو سکے، جس کا اظہار انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کیا تھا کہ ”میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے معاشی و مالیاتی نظام کو مغرب کے معاشی اصولوں کی بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق تشکیل دیا جائے۔“
- وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف خان کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ حکومت نے میٹرک تک عربی زبان کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس مستحسن فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے اور اس سلسلہ میں دینی مدارس کے وفاقوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔“