مولانا سید حامد میاں، شریعت بل اور فقہ حنفی

   
۳ جولائی ۱۹۸۷ء

جامعہ مدنیہ لاہور کے مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاں مدظلہ العالی ہمارے ملک کے بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں اور اس وقت ایم آر ڈی میں شامل ایک جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ کراچی کے ہفت روزہ تکبیر کی ۲۵ جون ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے بعض دیگر مسائل کے علاوہ ’’شریعت بل‘‘ کے بارے میں بھی اظہار خیال فرمایا ہے۔ زیر نظر مضمون میں مولانا موصوف کے ان ارشادات پر کچھ گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔

سینٹ اور شریعت بل

مولانا سید حامد میاں مدظلہ نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں فرمایا ہے کہ

’’انہوں نے (یعنی شریعت بل کے محرکین نے) شریعت بل کے نام سے ایک بل بنایا، بل سینٹ میں پیش کر دیا۔ حکومتی مسلم لیگی ارکان نے ایک پالیسی یہ اختیار کی کہ انہیں چھیڑا اور نہایت بے تکی باتیں کر کے انہیں پریشان کرتے رہے، اور یہ تنگ آ کر واک آؤٹ کر گئے۔ سینٹ کا اصول یہ ہے کہ اگر بل پیش کرنے والے واک آؤٹ کر جائیں تو بل ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح پہلا بل ان کی ناتجربہ کاری اور قانون نہ جاننے کی وجہ سے تکنیکی بنیادوں پر ختم ہو گیا۔ اب یہ بل تیار کر رہے ہیں تو ہم نے ان سے کہا ہے کہ بل کی عبارت کو درست کر لیں۔‘‘

خدا جانے مولانا موصوف کے کانوں میں یہ افسانہ کس ستم ظریف نے پھونکا ہے کہ ان جیسا ثقہ بزرگ بھی اس قسم کی بے سروپا باتوں پر اتر آیا ہے۔ مولانا مدظلہ کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کے یہ ارشادات قطعی خلافِ واقعہ ہیں اور حقیقت حال یہ ہے کہ

  • شریعت بل کو باقاعدہ ووٹنگ کے ذریعہ تین ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ سینٹ میں بحث کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
  • سینٹ کی قائم کردہ سلیکٹ کمیٹی شریعت بل پر شق وار غور کرنے کے بعد اس کی منظوری کی سفارش کر چکی ہے۔
  • سینٹ کے فیصلہ کے مطابق شریعت بل کو رائے عامہ کے لیے باقاعدہ مشتہر کیا گیا۔ اور اس کے نتائج کا اعلان سینٹ کے ایوان میں وزیر قانون نے ان ریمارکس کے ساتھ کیا کہ آج تک پاکستان میں کسی بل کو اس قدر عوامی حمایت حاصل نہیں ہوئی جتنی شریعت بل کو حاصل ہوئی ہے۔
  • سینٹ میں شریعت بل پر پہلی خواندگی مکمل ہو گئی ہے۔ اور پہلی خواندگی کی آخری تقریر شریعت بل کے محرک کی حیثیت سے مولانا سمیع الحق نے کی ہے، جس کی آخری قسط ترجمانِ اسلام کے اسی شمارہ میں شائع کی جا رہی ہے۔
  • سینٹ کے آئندہ اجلاس میں پرائیویٹ ممبروں کے مخصوص دن میں ’’شریعت بل‘‘ کی دوسری خواندگی کا آغاز ہو رہا ہے۔

واقعات کی اس ترتیب کے بعد بھی مولانا سید حامد میاں مدظلہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ شریعت بل اس کے محرکین کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے اور اب یہ نیا بل تیار کر رہے ہیں، تو اس ارشاد گرامی کو سادگی اور بھولپن کے علاوہ اور کیا عنوان دیا جا سکتا ہے؟

شریعت بل اور فقہ حنفی

مولانا سید حامد میاں مدظلہ نے شریعت بل میں فقہ حنفی کی صراحت پر زور دیتے ہوئے مذکورہ انٹرویو میں ارشاد فرمایا ہے کہ

’’میں جہاں تک سمجھا ہوں سینٹ اور اسمبلی میں بل پیش کرنے والوں نے اس بل کی عبارت جماعتِ اسلامی کے ارکان کو سامنے رکھ کر بنائی ہے۔ اور جماعت اسلامی کے ارکان تقریباً غیر مقلد ہی ہیں، وہ فقہ کو نہیں مانتے۔ مولانا معین الدین لکھوی بھی فقہ کو نہیں مانتے، اس لیے بل میں فقہ حنفی کا لفظ شامل نہیں کیا گیا۔‘‘

مولانا موصوف کی خدمت میں ہم بصد احترام عرض کرنا چاہیں گے کہ

  • پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی مساعی سے جو قرارداد مقاصد پیش کی گئی تھی، اس میں فقہ حنفی کا ذکر نہیں ہے۔
  • ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتبِ فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء نے ۲۲ دستوری نکات کا جو خاکہ علامہ سید سلیمان ندویؒ کی صدارت میں طے کیا تھا، اس میں فقہ حنفی کی صراحت نہیں ہے۔
  • جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں اپنے خالص جماعتی پلیٹ فارم سے جو اسلامی منشور پیش کیا تھا اس میں فقہ حنفی مذکور نہیں ہے۔
  • ۱۹۷۳ء کے دستور کی جن اسلامی دفعات کو مولانا سید حامد میاں مدظلہ اور ان کے رفقاء نفاذِ اسلام کے لیے کافی و وافی ضمانت قرار دے رہے ہیں، ان میں فقہ حنفی کا ذکر کسی جگہ نہیں ہے۔
  • ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد نے نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس عنوان سے جو انتخابی منشور دیا تھا، اس میں کہیں فقہ حنفی کی صراحت نہیں ہے۔

اس لیے اگر مولانا سید حامد میاں مدظلہ کی منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے سلسلہ کی یہ تمام اہم دستاویزات جماعت اسلامی کے ارکان کو سامنے رکھ کر ترتیب دی گئی ہیں کیونکہ ان میں فقہ حنفی کا ذکر نہیں ہے۔ اور یہ جماعت اسلامی کے حق میں مولانا سید حامد میاں کے قلم سے جاری ہونے والا اتنا بڑا سرٹیفکیٹ ہے کہ خود جماعت اسلامی کے راہنماؤں کے تصور میں بھی اب تک نہیں آیا ہو گا۔

اس کے بعد ہم مولانا موصوف کی خدمت میں یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جناب والا قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے لیے ’’شریعت بل‘‘ میں جو اصول کسی فقہ کی صراحت کے بغیر اختیار کیا گیا ہے اس کی بنیاد جمعیۃ علماء اسلام کے ۱۹۷۰ء کے انتخابی منشور پر ہے، بلکہ جمعیۃ کے انتخابی منشور کی عبارت کو زیادہ وسعت اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ جمعیۃ کے ۱۹۷۰ء کے انتخابی منشور میں ’’نظامِ حکومت‘‘ کے عنوان کے تحت دفعہ ۵ میں کہا گیا ہے کہ

’’خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حکومت و آثار کو اسلامی نظامِ حکومت کے جزئیات متعین کرنے کے لیے معیار قرار دیا جائے گا۔‘‘

جبکہ شریعت بل کا جو مسودہ متحدہ شریعت محاذ کی طرف سے سینٹ میں زیربحث ہے اس کی دفعہ ۲ شق ج میں کہا گیا ہے کہ

’’(ج) شریعت سے مراد قرآن و سنت ہیں۔

توضیح: قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر درج ذیل مآخذ سے حاصل کی جائے گی: (۱) سنت خلفائے راشدینؓ (۲) تعاملِ صحابہ کرامؓ، اہلِ بیت عظامؓ (۳) اجماعِ امت (۴) مسلّمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء۔‘‘

اب آپ خود اندازہ فرما لیں کہ کیا شریعت بل کی عبارت جمعیۃ علماء اسلام کے ۱۹۷۰ء کے منشور کی عبارت کی وضاحت و تشریح نہیں ہے؟ اور اس وضاحت و تشریح کے بعد بھی مولانا سید حامد میاں اسے جماعتِ اسلامی کو سامنے رکھ کر ترتیب دی جانے والی عبارت قرار دینے پر مصر ہیں تو انہیں اس سے زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

مولانا سید حامد میاں اور فقہ جعفریہ

پاکستان میں اہلِ تشیع کی جانب سے فقہ جعفریہ کے متوازی نفاذ کا جو مطالبہ پورے شد و مد کے ساتھ کیا جا رہا ہے، اسے اہلِ سنت کے علمی و دینی حلقوں کی طرف سے مسلسل مسترد کیا جا رہا ہے۔ اور یہ مطالبہ بھی قطعی غیر اصولی ہے کیونکہ مسلّمہ اصولوں کے مطابق جس طرح ایران میں شیعہ اکثریت کی بنیاد پر پبلک لاء میں فقہ جعفریہ نافذ ہے اور اہلِ سنت کو پرسنل لاء میں تحفظات و حقوق الگ حاصل ہیں، اس طرح پاکستان میں بھی پبلک لاء اہلِ سنت کی اکثریتی فقہ کے مطابق ہونی چاہیے اور اہلِ تشیع کو پرسنل لاء میں تحفظات حاصل ہونے چاہئیں۔

چنانچہ شریعت بل میں بھی تمام مکاتبِ فکر کے ۳۱ علماء کے ۲۲ متفقہ نکات میں طے کردہ اصول کے مطابق یہی طریق کار اختیار کیا گیا ہے۔ مگر مولانا سید حامد میاں مدظلہ کا موقف اس سلسلہ میں اہلسنت سے مختلف نظر آ رہا ہے۔ شریعت بل کے بارے میں مولانا موصوف کا ایک گرامی نامہ ہم نے ترجمانِ اسلام کے شریعت بل نمبر میں شائع کیا تھا، جس میں انہوں نے فقہ حنفی کو نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ

’’رہا شیعہ آبادی کا مسئلہ تو انہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ اپنے معاملات میں اپنی کسی فقہ کی رو سے کسی مجتہد قاضی سے لے سکیں۔‘‘

اس عبارت کا عموم اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ مولانا موصوف اہلِ تشیع کے الگ فقہی فیصلوں کو پرسنل لاء تک محدود رکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔ مگر ہفت روزہ تکبیر کے مذکورہ انٹرویو میں حضرت مولانا مدظلہ نے یہ کہہ کر بات کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے:

’’ان کے لیے یہ ہے کہ جہاں مدعی اور مدعا علیہ شیعہ یا اہلحدیث ہیں انہیں ان کا ایک مجتہد دے دیا جائے جس سے وہ فیصلہ کرا لیا کریں۔ اسے پرسنل لاء نہیں پرائیویٹ لاء کہا جا سکتا ہے۔ پورے ملک میں صرف تین طبقے ہیں: حنفی، شیعہ اور اہلحدیث۔ اس تجویز سے تمام لوگ احاطے میں آجاتے ہیں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مولانا حامد میاں مدظلہ پرسنل لاء کی نفی کے ساتھ اہلِ تشیع کو تمام معاملات میں اپنے قاضی سے اپنی فقہ کے مطابق فیصلے کرانے کا حق دے رہے ہیں، اور پرسنل لاء کی قید لگائے بغیر ملک میں حنفی، شیعہ اور اہلحدیث کے عنوان سے تین متوازی پبلک لاء نافذ کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔

اہلِ تشیع کا تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے پلیٹ فارم سے یہی مطالبہ ہے، جس کے لیے وہ مسلسل محنت کر رہے ہیں۔ اور مولانا سید حامد میاں مدظلہ کی یہ واضح حمایت ان کے لیے یقیناً نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو گی۔

بہرحال فقہ جعفریہ کے حوالہ سے حضرت مولانا موصوف کا یہ موقف ملک کے جمہور اہلسنت کے موقف اور مسلّمہ اصولوں سے یکسر مختلف ہے، جس کی کوئی قابلِ قبول وضاحت سامنے نہ آئی تو یہ بات اہلِ تشیع کے غیر اصولی مطالبہ اور دوہرے بلکہ تہرے پبلک لاء کے نفاذ کی دوٹوک حمایت قرار پائے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter