تحریک لبیک پاکستان کا مطالبہ اور سرکاری رویہ

   
سوشل میڈیا
۲۰ اپریل ۲۰۲۱ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں پر پرسوں لاہور میں ہونے والے تشدد پر ملک بھر میں جو اجتماعی ردعمل کا اظہار ہوا ہے وہ اطمینان بخش ہے، اور اس بات کی علامت ہے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ اور دینی شعائر کا تحفظ ملک بھر کے تمام مکاتب فکر اور تمام طبقات کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ سب نے اس درد کو محسوس کیا ہے اور سب نے اس پر اپنے جذبات، ردعمل اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے حوالے سے، ختم نبوت کے حوالے سے بات ہو یا ناموس رسالت کے حوالے سے بات ہو، ہمیشہ امت نے اور پاکستانی قوم نے یکجہتی کا اظہار کیا ہے، اس یکجہتی کا ایک بار پھر ریکارڈ پر آنا اطمینان کی علامت ہے۔

میں اس موقع پر تمام دینی مکاتب فکر ، سیاسی جماعتوں ، وکلاء ، تاجروں ، جنہوں نے اس ہم آہنگی میں کسی بھی درجے میں حصہ لیا ہے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کو مبارکباد بھی دیتا ہوں کہ ہم نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ کی عزت و حرمت کے ساتھ بحیثیت قوم اپنے تعلق کا ایک بار پھر اظہار کیا ہے، الحمد للہ رب العالمین۔ اس موقع پر میں دو تین گزارشات عرض کرنا چاہوں گا:

  1. ایک گزارش یہ کہ جو یہ کہا جا رہا ہے کہ فرانس کے وکیل کو نکالنا جائز مطالبہ نہیں تھا، اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے نقصان ہو گا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ پہلی بات یہ کہ کسی ملک کے سفیر کو نکالنا مسلّمہ سفارتی روایات میں سے ہے کہ کسی ملک کے ریاستی رویے کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے اس ملک کے سفیر کو طلب کیا جاتا ہے، وارننگ دی جاتی ہے، اور آخری مرحلہ میں سفیر کو ملک سے نکالا جاتا ہے، اپنے ملک کے سفیر کو وہاں سے بلایا جاتا ہے، یہ مسلّمہ سفارتی روایات کا حصہ ہے، اسے غلط کہنا درست نہیں ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے جو یہ مطالبہ کیا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو نکالا جائے، یہ اسی تناظر میں تھا کہ پاکستان بحیثیت ملک فرانسیسی وزیراعظم کے رویے کے خلاف ریاستی احتجاج ریکارڈ کروائے، اور اس کا ایک معروف طریقہ یہ ہے کہ سفارتی راستہ اختیار کرتے ہوئے فرانسیسی سفیر کو نکالا جائے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، سفیر طلب بھی کیے جاتے ہیں، انہیں وارننگ بھی دی جاتی ہے، سفیر نکالے بھی جاتے ہیں، بلائے بھی جاتے ہیں، یہ سب سفارتی روایات کا حصہ ہیں۔
  2. دوسرا یہ کہ بات نقصان کی نہیں بلکہ عزت و غیرت اور عقیدہ و نظریہ کی ہے۔ اگر ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کیلئے نقصان برداشت نہیں کر سکتے تو ہمیں حضورؐ کے ساتھ اپنی نسبت اور محبت کے دعوے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ نقصانات تو ہوتے رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے ’’دیرینہ دوست‘‘ امریکہ کی خاطر کتنے نقصانات اٹھائے ہیں۔ ہم نے دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کی خاطر کتنے نقصانات برداشت کیے ہیں۔ نقصان کا عنوان دے کر کہنا کہ ہم یہ نہیں کر سکتے، غلط بات ہے۔ ہمارے فوائد و نقصانات دین کے ساتھ، دینی شعائر کے ساتھ، جناب نبی کریمؐ کی عزت و ناموس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ حضورؐ کی عزت ہے تو ہمارے دنیاوی نقصانات بھی فوائد ہیں، اور اگر حضورؐ کی ناموس کا تحفظ نہیں ہے تو ہمارے فوائد بھی نقصانات ہیں، ہمیں اس نکتہ پر غور کرنا چاہیے۔
  3. جبکہ تیسرے نمبر پر میں اصل بات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ ہمارے حکمران طبقات اور انتظامیہ کے مختلف ادارے دین اور دینی شعائر کو ریاستی معاملہ سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں، وہ اسے صرف عوامی جذبات کے تناظر میں لے رہے ہیں کہ یہ پاکستانی قوم کے جذبات ہیں۔ نہیں، بلکہ یہ ریاستی مسئلہ ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے دستور کو سامنے رکھا جائے تو اس کے مطابق یہ ریاست و حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی شعائر کے تحفظ کیلئے، دین کے نفاذ کیلئے، اور عقیدہ ختم نبوت اور جناب نبی کریمؐ کے ناموس و حرمت کے تحفظ کیلئے بحیثیت ریاست کردار ادا کرے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ابھی تک یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ مذہب اور مذہبی شعائر، دین اور دینی روایات ریاست کا مسئلہ ہیں۔

    میرے خیال میں تمام مکاتب فکر کے علماء اور دینی و سیاسی جماعتوں کو اس نکتے پر اب جنگ لڑنا ہو گی کہ دین اور دینی شعائر یہ صرف عوام کے جذبات کا مسئلہ نہیں ہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری کا معاملہ ہیں، اور اس نکتے کو ہمیں اپنی جدوجہد کا مرکز بنانا ہو گا۔ میں قوم کے تمام طبقات کا، تمام مکاتب فکر اور جماعتوں کے راہنماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اس اصل نکتے کی طرف آنا ہو گا اور حکومتی طبقات و ریاستی اداروں کو یہ بارآور کرانے کیلئے مشترکہ کرنا ہو گی کہ نظریۂ پاکستان، دین اسلام، دینی شعائر، ختم نبوت، ناموس رسالت، نفاذ احکام شریعت یہ صرف عوام کے جذبات کا مسئلہ نہیں دستور کے تقاضوں اور ریاست کی ذمہ داری کا مسئلہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ بات آہستہ آہستہ اس نکتہ پر آ رہی ہے اور امید ہے کہ جس ہم آہنگی اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے یہ اگر جاری رہی تو ہم اسٹیبلشمنٹ سے دین اور دینی معاملات کو ریاست کا مسئلہ منوانے میں بھی ان شاء اللہ العزیز کامیاب ہو جائیں گے۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۲۱ اپریل ۲۰۲۱ء)
2016ء سے
Flag Counter