حسبہ ایکٹ اسلامی تاریخ کے تناظر میں

   
۱۴ جولائی ۲۰۰۵ء

صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت نے بالآخر ”حسبہ ایکٹ“ صوبائی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے اور جس انداز سے اپوزیشن پارٹیوں نے ہنگامہ آرائی کے ساتھ اس بل پر احتجاج کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بل نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سیاست میں بھی خاصی ہلچل کا باعث بنے گا۔ حسبہ بل اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے ہی کافی عرصہ سے قومی حلقوں میں زیرِ بحث ہے اور جب سے اس کی تجویز سامنے آئی ہے اس کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔

سرحد اسمبلی میں اپوزیشن کے تند و تیز رویہ کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کا رد عمل بھی توجہ طلب ہے، جو صوبائی سیاست میں ایم ایم اے کے نمایاں حریفوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہا ہے کہ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت حسبہ بل کے ذریعے اپنی راہ میں کانٹے بچھا رہی ہے، بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق حسبہ بل پیش ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر اپنا دورۂ ایران بھی ملتوی کر دیا ہے اور شاید ان کانٹوں کی آبیاری کے لیے ملک میں موجود رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر صوبائی گورنر کمانڈر خلیل الرحمٰن نے یہ کہہ کر اس رد عمل کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے کہ حسبہ بل سے کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہو گا اور چونکہ ایم ایم اے کی حکومت نے یہ بل اسمبلی میں پیش کیا ہے، اس لیے اس پر اسمبلی میں ہی بحث ہو گی۔

ویسے بھی اصولی بات یہی ہے کہ اس بل پر بحث اور فیصلہ کا صحیح فورم صوبائی اسمبلی ہے اور جب ایم ایم اے نے اسے ایک جمہوری اور صحیح فورم پر بحث کے لیے پیش کیا ہے تو اپوزیشن کو بھی مخالفت میں ضرورت سے زیادہ تیزی دکھانے کی بجائے اسمبلی کے فلور پر ہی اس بل کے بارے میں اپنا موقف پیش کرنا چاہیے اور اس منتخب جمہوری ایوان کو، جس کا خود یہ اپوزیشن بھی حصہ ہے، اس کے بارے میں فیصلے کا موقع دینا چاہیے۔ مگر سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ بل کو غیر جمہوری ہونے کا طعنہ دینے والی اپوزیشن خود جمہوری روایات کی پاسداری کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی اور اس کا پروگرام یہ نظر آ رہا ہے کہ شور مچا کر اور احتجاجی سیاست کا بازار گرم کر کے بالائی دباؤ کے ذریعے اس بل کو ناک آؤٹ کر دیا جائے۔ بہرحال یہ ایک دلچسپ سیاسی کھیل ہے کہ جس بل کو جمہوریت کی نفی کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے، اسے پیش کرنے والے اس کی منظوری کے لیے جمہوری راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، جبکہ جمہوریت کے تحفظ کے دعویدار عناصر جمہوری راستے اور روایات سے انحراف میں عافیت محسوس کر رہے ہیں اور منتخب ایوان سے فیصلہ لینے کی بجائے بیرونی دباؤ کو اس بل میں رکاوٹ کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

جہاں تک اس بل کا تعلق ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ سوسائٹی میں معروفات کے قیام اور منکرات کی روک تھام کے لیے ایک الگ نظام قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حکومت کی نگرانی میں کام کرے گا اور حسبہ بل کے مندرجات کے مطابق محتسب کی قیادت میں قائم کیا جانے والا یہ نظام جن مقاصد کے لیے مصروف کار ہو گا، ان کا ایک ہلکا سا خاکہ درج ذیل ہے۔

  • پبلک مقامات میں اسلامی اقدار کی پابندی،
  • شادی وغیرہ اور دیگر تقریبات میں اسراف اور فضول خرچی کی حوصلہ شکنی،
  • گداگری کا سدباب،
  • اسلامی شعائر کے احترام کی نگرانی،
  • کم عمر بچوں سے ملازمت کرانے کی حوصلہ شکنی،
  • غیر متنازع حقوق کی ادائیگی میں تاخیر کو روکنا،
  • جانوروں پر ظلم کی روک تھام،
  • مساجد کی دیکھ بھال کی نگرانی،
  • لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال اور فرقہ واریت کی روک تھام،
  • اقلیتوں کے حقوق اور ان کی عبادت گاہوں کے تقدس کی دیکھ بھال،
  • ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کے رجحان کی حوصلہ شکنی،
  • قابل مصالحت مقدمات میں فریقین کے درمیان مصالحت کی کوشش،
  • خواتین کو وراثت کا حصہ اور دیگر حقوق دلانے کی کوشش اور
  • سرکاری املاک کی حفاظت وغیرہ۔

ہم نہیں سمجھتے کہ کسی مسلمان یا محب وطن پاکستانی کو ان مقاصد سے اختلاف ہو سکتا ہے، کیونکہ ان میں سے بیشتر مقاصد وہ ہیں جن کے لیے قومی اور دینی حلقوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً آواز بلند کی جاتی ہے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مسلسل کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ البتہ اس بات پر غور و فکر کی گنجائش موجود ہے کہ ان مقاصد کے لیے مروجہ نظام کے موجود شعبوں سے ہٹ کر کسی الگ شعبے کی ضرورت ہے یا نہیں، اس کے لیے ہم اپنے قارئین کو ماضی کے ایک دور کی طرف لے جانا چاہیں گے، جس کا تذکرہ پنجاب یونیورسٹی کے ”دائرہ معارف اسلامیہ“ میں ”حسبہ“ کے تحت تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی سلطنت کے ابتدائی دور میں بازار کے معاملات کی نگرانی کے لیے ”صاحب السوق“ کے نام سے نگران کا منصب موجود تھا، جس پر فائز شخص بازار کے بھاؤ چیک کرتا تھا، ملاوٹ اور ناپ تول کے معاملات کا جائزہ لیتا تھا اور موقع پر سرزنش یا سزا کا حکم صادر کیا کرتا تھا۔ مگر مامون الرشید کے دور میں اسے باقاعدہ ”محتسب“ کا نام دے کر اس کے دائرہ کار میں وسعت پیدا کی گئی اور بازار کے معاملات کی نگرانی کے ساتھ ساتھ مذہبی احکام کی بجا آوری کی نگرانی، اقلیتوں کے حقوق و مفادات کی پاسداری اور پبلک مقامات پر غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکات کی روک تھام بھی اس کے فرائض میں شامل ہو گئی۔ مختلف مقامات پر اس قسم کے محتسبوں کا تقرر حکومت کی طرف سے کیا جاتا تھا اور انہیں باقاعدہ اختیارات اور ضروری وسائل حاصل ہوتے تھے۔

”دائرہ معارف اسلامیہ“ کے مندرجات کے مطابق اس دور میں تین شعبے پبلک معاملات کو درست رکھنے کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے: (1) قاضی (2) شرطہ (پولیس) (3) محتسب۔ قاضی ان معاملات کو نمٹاتا تھا جن کے بارے میں اس کے پاس باقاعدہ شکایات کی جاتی تھیں، پولیس ان معاملات میں ہاتھ ڈالتی تھی جو قابل دست اندازی پولیس ہوتے تھے اور ان کے علاوہ باقی امور میں محتسب اپنا کردار ادا کرتا تھا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی طور پر عدلیہ اور پولیس کے علاوہ بھی ایک ایسے شعبے کی ضرورت موجود ہے، جو سوسائٹی میں برائی کی روک تھام کے لیے عملی کردار ادا کرے، کیونکہ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ عدلیہ زیادہ تر انہی معاملات کو نمٹاتی ہے جن کے بارے میں ان سے باقاعدہ درخواست کی جاتی ہے اور پولیس انہی امور میں ہاتھ ڈالنے کی مجاز ہے جو قابل دست اندازی پولیس ہیں۔ جبکہ ان دونوں دائروں سے ہٹ کر معاشرتی برائیوں، خرابیوں اور جرائم کا ایک وسیع دائرہ موجود ہے، جن کے بارے میں نہ عدلیہ سے درخواست کا تکلف کیا جاتا ہے اور نہ ہی پولیس ان میں مداخلت کا جواز رکھتی ہے۔ اس لیے اگر معاشرے کو ہر قسم کی برائیوں اور خرابیوں سے پاک کرنا مقصود ہے اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ضروری ہے، تو عدلیہ اور پولیس کے ساتھ ساتھ ایک شعبہ احتساب کی موجودگی بھی ناگزیر معاشرتی ضرورت ہے، جسے ماضی میں بھی پورا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور اب بھی اگر صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت نے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ہے تو اس پر ناک بھوں چڑھانے کی بجائے اس کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے اور اس ملی ضرورت کی تکمیل میں اس کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔

یہ ہماری ماضی کی روایات کا حصہ بھی ہے، جیسا کہ پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ عباسی خلافت کے دور میں ”محتسب“ کا باقاعدہ منصب موجود تھا، جس کے فرائض میں مذکورہ بالا امور کے علاوہ یہ بھی تھا کہ وہ عطاروں اور طبیبوں کو بھی چیک کرتا تھا، ان کے طریقہ کار کی نگرانی کے ساتھ ساتھ دوائیوں کے خالص ہونے کا اطمینان حاصل کرتا تھا اور مذہبی مدارس کا احتساب بھی اس کی ذمہ داری میں شامل تھا، جہاں وہ سخت گیر اور سخت مزاج واعظوں اور مدرسین کی سرزنش کر کے انہیں اعتدال کے دائرے میں رہنے پر آمادہ کیا کرتا تھا۔

”دائرہ معارف اسلامیہ“ نے اپنے تفصیلی مقالہ میں عباسی دورِ خلافت کے بعد خلافت عثمانیہ اور جنوبی ایشیا میں مغل حکمرانوں کے نظامِ احتساب کی بھی تفصیلات بیان کی ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ سرحد اسمبلی کے ارکان کو ”دائرہ معارف اسلامیہ“ کا حسبہ کے موضوع پر تفصیلی مقالہ بھی مطالعہ کے لیے فراہم کیا جانا چاہیے، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اس سلسلے میں ہم مسلمانوں کی ماضی کی روایات کیا ہیں اور ہم آج کے دور میں ان روایات کا تسلسل کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟ اس مقالے میں بتایا گیا ہے کہ متحدہ ہندوستان کے حکمرانوں میں علاء الدین خلجی کے نظام احتساب کی سب سے زیادہ تعریف کی جاتی ہے اور ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اس نظامِ احتساب میں اشیاءِ ضرورت کی رسد کی نگرانی، شراب نوشی، جوئے بازی اور اخلاقی برائیوں کے سد باب، دینی روایات کی پاسداری اور غیر شرعی رسوم کی حوصلہ شکنی کا اہتمام ہوتا ہے اور مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ اس دور میں محتسب کے خوف سے دینی درسگاہوں میں مدرسین اور مقبول عام واعظین کو بھی اپنی تقریروں میں محتاط رہنا پڑتا تھا۔

”حسبہ بل“ میں اگر آئینی اور قانونی حوالے سے کوئی اشکال فی الواقع موجود ہے تو اس پر بحث ہو سکتی ہے اور اس کی نشاندہی کر کے دلیل کے ساتھ اس میں ضروری ترامیم کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے، لیکن سرے سے ”نظامِ احتساب“ کی ضرورت سے انکار، اس سمت کسی عملی پیش رفت کی ضرورت اور طنز و استہزاء کے لہجے میں اسے یکسر مسترد کرنے کا طرز عمل کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں ایم ایم اے کی مخالفت سے کہیں زیادہ ان معاشرتی خرابیوں کو جواز کی سند فراہم کرنے کا رجحان جھلکتا ہے، جو سوسائٹی کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں اور جن کے سد باب کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔

   
2016ء سے
Flag Counter