بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہماری یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسی نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ ان موضوعات پر مختصر بات ہو جائے جو ہمارے لیے ضروری تو ہیں لیکن عام طور پر ہماری تعلیم اور مطالعے میں سامنے نہیں آتے۔ مختلف موضوعات پر ہماری نشستیں چلتی رہی ہیں، ان میں سے بہت سی قلم بند بھی ہوئی ہیں۔ اس سال کے لیے ہماری ترتیب یہ بنی ہے کہ پاکستان کی دینی تحریکات پر ہم چند نشستوں میں تعارفی انداز میں گفتگو کریں گے کہ پاکستان میں مختلف مواقع پر جو دینی تحریکات اٹھی ہیں جنہوں نے کام کیا ہے اور بہت سی تحریکات نے نتائج حاصل کیے ہیں، ان سے تعارف کروایا جائے، اور یہ ذکر کیا جائے کہ ان تحریکات کی بنیاد کیا تھی اور مقاصد کیا تھے۔ مثلاً تحریکِ ختمِ نبوت، تحریکِ نظامِ مصطفٰیؐ، تحریکِ نفاذِ شریعت وغیرہ۔
آج افتتاحی اور تمہیدی گفتگو اس پہلو پر ہو گی کہ خود پاکستان کا قیام بھی ایک تحریک کا نتیجہ تھا، بلکہ مختلف تحریکات کا نتیجہ تھا۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کا کوئی ملک نہیں تھا۔ متحدہ ہندوستان میں بنگلہ دیش، پاکستان، بھارت اور برما تھے، یہ پورا خطہ ہند کہلاتا تھا۔ ہندوستان پر ایک طویل عرصہ مغلوں کی حکومت رہی ہے۔ پھر انگریزوں نے قبضہ کر لیا تو ان کے خلاف ان کے دور میں دو بڑی تحریکیں چلیں: ایک تحریکِ آزادی کے نام سے اور دوسری تحریکِ پاکستان کے نام سے۔ ان تحریکات کے نتیجے میں یہ خطہ تقسیم ہوا اور پاکستان کے نام سے ایک الگ آزاد ملک وجود میں آیا۔ چونکہ پاکستان کا قیام خود تحریکات کا نتیجہ ہے تو اس لیے میں پس منظر کے طور پر یہ چاہوں گا کہ ان تحریکات کا ہلکا سا تذکرہ کر دیا جائے خود پاکستان جن کے نتیجے میں وجود میں آیا۔
انگریزوں کے قبضے سے پہلے جنوبی ایشیا میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، شمس الدین التمش، ظہیر الدین بابر اور احمد شاہ ابدالی رحمہم اللہ تعالیٰ حکمران رہے۔ غزنوی ، تغلق اور مغلوں کے دور میں مسلمانوں کی حکومت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں، پھر دہلی کے ذریعے پورے ہندوستان پر تقریباً ایک ہزار سال قائم رہی۔ مسلمان یہاں حاکم رہے اور شرعی قوانین ایک ہزار سال تک نافذ رہے۔
انگریز یہاں سب سے پہلے سترہویں صدی کے آغاز میں ایک تجارتی کمپنی ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ کے ٹائٹل سے آئے تھے اور تجارتی مراعات حاصل کی تھیں۔ یہاں اس وقت مغلوں کی حکومت تھی۔ انگریز نے یہاں تجارتی مراکز قائم کیے اور ان کے لیے ہر علاقے میں حفاظتی گارڈ اور فورسز بنائیں۔ یہ قصہ چلتا رہا۔ ۱۷۵۷ء میں بنگال کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا بنگال کے نواب سراج الدولہؒ کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا اور لڑائی ہوئی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب سراج الدولہؒ کو شکست دے کر بنگال کے علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ یہ ہمارا پہلا معرکہ ہے جس کو جنگِ پلاسی کہا جاتا ہے۔ یوں ۱۷۵۷ء میں ہندوستان کا پہلا حصہ انگریزوں کے قبضہ میں گیا، لیکن براہ راست برطانیہ کی حکومت میں نہیں، بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں گیا اور وہاں سے انگریزوں کے دورِ اقتدار کا آغاز ہوا۔
اس کے بعد یہ کشمکش چلتی رہی، انیسویں صدی کے آغاز میں سلطان ٹیپوؒ کی جنگ ہوئی جو بڑی معروف جنگ ہے۔ جنوبی ہندوستان میں ریاستِ خداداد میسور مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست تھی، سلطان حیدر علی اور ان کے بعد سلطان ٹیپو اس کے حکمران تھے۔ ٹیپو بڑا غیور مسلمان تھا، اس کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جنگ ہوئی جس میں سلطان ٹیپوؒ کو شکست ہوئی اور وہ شہید ہو گئے۔ یہ ایک فیصلہ کن معرکہ تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریاستِ خداداد میسور پر بھی قبضہ کر لیا۔
وہ جنگی لڑائیوں کا دور تھا۔ اس کے بعد پھر جب انگریز آگے بڑھے تو ۱۸۲۲ء کے لگ بھگ تیسری جنگ لکھنؤ کے علاقے میں ہوئی ہے۔ اس وقت ہندوستان کا مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی تھا جس نے بے بس ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی سے پورے ہندوستان کی حکومت کا سمجھوتہ کر لیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی پر قابض ہو گئی جو دارالحکومت تھا، اور دہلی پر قبضے کا مطلب پورے ہندوستان پر حکومت ہوا کرتی تھی۔ شاہ عالم ثانی کے دور میں یہ معاہدہ ہوا کہ نام تو بادشاہ کا ہی رہے گا لیکن حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کرے گی، بڑا دلچسپ عنوان تھا کہ
”زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا“ ۔
یہ تین جملے تھے، اس کا اعلان ہوا کہ زمین تو خدا کی ہے، اور ملک بادشاہ سلامت کا ہے جو اس وقت شاہ عالم ثانی تھا، لیکن حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کرے گی۔ یہ باقاعدہ معاہدہ ہوا اور حکومت میں قانون، محصولات کی وصولی، خرچ وغیرہ سارے انتظامی، قانونی اور مالی معاملات ایسٹ انڈیا کمپنی نے سنبھال لیے تھے اور ان کا نمائندہ آ کر بیٹھ گیا تھا۔ جبکہ شاہ عالم ثانی کا دائرہ اختیار دہلی سے پالم تک رہ گیا تھا۔ پالم دہلی سے باہر تھا۔ اب وہاں دہلی کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے۔ شاہ عالم ثانی کے اپنے اختیار میں کچھ وظیفہ تھا جو سرکاری طور پر اسے ملتا تھا اور دہلی سے پالم تک اس کا دائرہ اختیار تھا جس پر یہ مقولہ مشہور ہوا تھا کہ ”حکومتِ شاہِ عالم از دہلی تا پالم“۔ نام شاہِ عالم تھا اور حکومت دہلی سے پالم تک تھی۔ باقی سارے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی۔
جب دہلی پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکومت قائم کی اور اس کی فوجیں قابض ہو گئیں تو شاہ عالم ثانی بے بس ہو کر تخت پر بیٹھ گیا اور محصور ہو گیا، اس کا کوئی اختیار اور اقتدار نہیں تھا۔ اس دوران دہلی میں ہمارے بزرگ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ علمی حلقوں کے حکمران اور بادشاہ تھے، آپؒ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے بیٹے تھے اور بلند پایہ علمی شخصیت تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اور حضرت مولانا قاضی ثنا اللہ پانی پتیؒ جن کی تفسیرِ مظہری اور مالا بد منہ معروف ہیں، یہ دونوں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے شاگرد ہیں۔ ان حالات میں ان دونوں بزرگوں نے باقاعدہ فتویٰ دیا کہ چونکہ انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی ہے، مسلمانوں کا اقتدار اور قوانین ختم ہو گئے ہیں، اس لیے ہندوستان دارالاسلام نہیں رہا بلکہ دارالحرب ہو گیا ہے، لہٰذا انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا اور ملک کو آزاد کرانا فرض ہو گیا ہے۔
فتاویٰ عزیزی میں شاہ عبد العزیز صاحبؒ کا یہ فتویٰ موجود ہے جس کو دارالحرب کا فتویٰ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہو گیا ہے اور انگریزوں کو یہاں سے نکالنے کے لیے اور اپنا اقتدار بحال کرنے کے لیے جہاد فرض ہو گیا ہے۔ اس پر یہاں جہادی تحریکات منظم ہوئیں اور جہادِ آزادی کی بنیاد پڑی۔
چنانچہ جہادِ آزادی میں سب سے پہلا معرکہ جو لڑا گیا وہ شاہ عبدالعزیزؒ کے بھتیجے اور شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے لڑا۔ ان کے ساتھ سید احمد شہیدؒ تھے، انہوں نے ایک جماعت منظم کی، بڑا حلقہ بنایا۔ پہلے اصلاح، تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے نام پر کام کا آغاز کیا، پھر ان کو آہستہ آہستہ منظم کیا اور جہاد کا آغاز کیا۔ لمبے سفر کر کے راجپوتانہ، راجستھان، اور سندھ میں پیر جوگوٹھ، پیر پگارا صاحب کے ہاں سے ہوتے ہوئے انہوں نے جہاد کے لیے سرحد (خیبرپختونخوا) ، قبائل اور افغانستان کا علاقہ منتخب کیا اور مسلسل جہاد کر کے ۱۸۳۰ء کے آخر میں پشاور پر قبضہ کر لیا۔ پشاور اس وقت پنجاب کا حصہ تھا اور پنجاب پر رنجیت سنگھ کی، سکھوں کی حکومت تھی۔ پشاور پر انہوں نے قبضہ کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کی لیکن ان کے خلاف بغاوت ہو گئی اور ان کی حکومت چھ مہینے سے زیادہ نہیں چل سکی۔ چھ مئی ۱۸۳۱ کو ان کا سکھوں کے ساتھ بالاکوٹ میں معرکہ ہوا اور یہ قافلہ شہید ہو گیا۔ یہ جہادِ آزادی کا ایک بڑا معرکہ تھا۔
اس کے بعد مختلف علاقوں میں جہادی تحریکات علاقائی طور پر چلتی رہیں۔ بنگال میں فرائضی تحریک تھی، پنجاب میں ساہیوال کے علاقہ میں ایک بڑے سردار تھے سردار احمد خان کھرلؒ، انہوں نے بھی آزادی کی جنگ لڑی، ایک طویل عرصہ قیادت کرتے رہے اور انگریزوں سے لڑتے ہوئے بالآخر یہ بھی شہید ہو گئے۔ یہ پنجاب میں جنگِ آزادی کا ایک بڑا محاذ تھا۔
لطیفہ اس میں یہ ہے کہ ایک دفعہ ہم لندن میں شام کو سیر کے لیے گئے تو میرے ساتھ ہمارے بزرگ مولانا حافظ عبد الرشید ارشد تھے، ان کا بھی تاریخ کا بڑا اچھا ذوق تھا۔ ہم دریائے ٹیمز کے کنارے گھوم رہے تھے کہ وہاں ایک انگریز جرنیل کا مجسمہ دیکھا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ میں کوشش کیا کرتا ہوں کہ پتہ کروں کہ یہ کون ہے؟ اس مجسمہ کے نیچے کیپشن لکھا ہوا تھا تو میں نے ایک دوست سے کہا کہ پڑھو یہ کیا لکھا ہوا ہے، یہ کون صاحب ہیں جن کا بڑا مجسمہ کھڑا ہے؟ وہاں اس جرنیل کے نام کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ انہوں نے ۱۸۵۷ء میں لاہور کے جنوبی اضلاع میں بغاوت کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ تو میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ احمد خان کھرل شہیدؒ کا قاتل یہ کھڑا ہے۔
خیر، ۱۸۵۷ء میں پورے ملک میں بغاوت ہوئی۔ کلکتہ سے لے کر پشاور تک کے علاقے میں تقریباً بارہ تیرہ جگہوں پر بغاوت کے شعلے بھڑکے تھے، بغاوتیں ہوئی تھیں اور لڑائیاں ہوئی تھیں، لیکن کامیابی مقدر میں نہیں تھی تو تحریکات ناکام ہو گئیں اور برطانیہ نے براہ راست حکومت سنبھال لی۔ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے سو سال یہاں حکومت کی، ۱۸۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہو گئی اور تاجِ برطانیہ نے اقتدار سنبھال لیا، اس کے بعد نوے سال برطانیہ نے براہ راست حکومت کی۔
برطانوی دور میں بھی مختلف مقامات پر بغاوتیں اٹھتی رہیں۔ ملک کے بیسیوں مقامات پر بغاوتیں اور جہادی تحریکات ہوتی رہیں۔ اس سلسلے میں آخری تحریک شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی ”تحریکِ ریشمی رومال“ تھی، جو کہ اب سے سو سال پہلے ۱۹۱۶ء سے ۱۹۲۰ء کے دوران منظم ہوئی تھی، پورے ملک میں اس کے بیسیوں مرکز قائم ہوئے تھے۔ گوجرانوالہ میں بھی تحریک شیخ الہندؒ کا ایک مرکز رہا ہے۔ قاضی کوٹ سنٹر تھا جہاں تربیتی مراکز تھے اور اسلحہ وغیرہ بہت کچھ تھا۔ وہاں کارکن پکڑے گئے، گرفتار ہوئے اور جیلوں میں گئے۔ قاضی کوٹ بغاوت کیس کے نام سے ہائی کورٹ میں کیس چلتا رہا ہے جو ہمارے گوجرانوالہ کے جسٹس دین محمد نے لڑا تھا، وہ سندھ کے گورنر بھی رہے ہیں۔
تحریک ریشمی رومال بڑی منظم تحریک تھی لیکن بالآخر وہ بھی ناکام ہو گئی۔ یہ جہادی تحریک تھی۔ اس کے اسباب اس زمانے کے پنجاب کے گورنر مائیکل اوڈوائر نے لکھے ہیں۔ اس نے یادداشتوں میں لکھا ہے کہ میں نے تحریک کو کیسے ناکام بنایا تھا۔
شیخ الہندؒ گرفتار ہو کر مالٹا کے جزیرے میں نظر بند ہو گئے۔ جب رہا ہو کر واپس آئے اور انہوں نے یہاں زیرو پوائنٹ سے کام کا آغاز کیا تو انہوں نے تین بنیادی باتیں کہیں: ایک یہ کہ اب ہم کسی جدوجہد کے لیے ہتھیار نہیں اٹھائیں گے بلکہ سیاسی جدوجہد کریں گے، عدم تشدد کی بنیاد پر جلسے، جلوس اور تحریکیں چلائیں گے۔ یوں انہوں نے تحریکوں کا رخ موڑ دیا۔ دوسرا انہوں نے فرمایا کہ قرآن پاک کی تعلیم کو عام کیا جائے، دروس کے ذریعے، ترجمہ قرآن کے ذریعے جتنا زیادہ ہو سکے لوگوں کو قرآن پاک سے متعارف کروایا جائے۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ آپس کے اختلافات، تنازعات اور جھگڑوں کو کم کرنے کی کوشش کرو۔ اسی نکتہ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جدید تعلیم اور قدیم تعلیم کا اختلاف ختم کرو۔
اب بھی دینی مدارس کی تعلیم الگ ہے اور کالجوں کی الگ ہے۔ اس کی تحریک سب سے پہلے حضرت شیخ الہندؒ نے کی کہ دونوں تعلیمیں اکٹھی کی جائیں۔ حضرت شیخ الہندؒ بڑھاپے کے باوجود خود علی گڑھ گئے اور وہاں کے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، مولوی تمیز الدینؒ، مولوی فرید احمدؒ اور مولوی فضل حقؒ وغیرہ اسی کا نتیجہ ہے۔ میں ایک بات لطیفے کے طور پر کہا کرتا ہوں کہ یہ حضرات ہمارے بڑے ہیں اور سب مولانا کہلاتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی مولانا نہیں ہے یعنی کسی مدرسے کے فارغ نہیں ہیں، سب یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے لیکن ہم انہیں مولانا کہتے ہیں، یہ حضرت شیخ الہندؒ کی کرامت ہے کہ انہوں نے ان کو مولانا بنا دیا۔
دونوں تعلیموں کو اکٹھا کرو اور اکٹھے ہو جاؤ، حضرت شیخ الہندؒ کی یہ تحریک اسی تیسرے نکتے کا حصہ ہے کہ آپس کے اختلافات ختم کرو، لیکن اسے الگ نکتے کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ شیخ الہندؒ نے چوتھی بات یہ کی کہ اب ہم قدیم اور جدید تعلیم کو اکٹھا کریں گے۔
چنانچہ یہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا فارمولا کہلاتا ہے کہ انہوں نے عدمِ تشدد پر مبنی سیاسی تحریک، قرآن پاک کی تعلیم، اور باہمی وحدت کے فروغ کا نیا رخ دیا۔ اور اس کے بعد اب تک ہم اسی پر کاربند ہیں کہ ہم نے ہتھیار کے ذریعے نہیں بلکہ سیاسی جدوجہد کرنی ہے۔ قرآن پاک کی تعلیم کے لیے دینی مدارس جتنے زیادہ قائم ہو سکیں۔ اور مختلف مکاتب فکر کے درمیان وحدت کو فروغ دینا ہے کہ ہم مشترکہ مسائل اکٹھے ہو کر حل کریں۔ ایک سو سال سے ہماری تحریکوں کا یہی عنوان چل رہا ہے، اسی دائرے میں ہم کام کر رہے ہیں اور انہی نکات پر چل رہے ہیں، الحمد للہ۔
یہ تحریکِ آزادی تھی، اس میں جمعیت علماء ہند، مجلس احرار اسلام، کانگریس، مسلم لیگ اور تحریکِ خلافت مختلف تحریکات قائم ہوئیں اور چلتی رہیں۔ سب کا موقف ایک ہی تھا اور ۱۹۲۶ء سے انگریزوں سے یہ مطالبہ چلا آ رہا تھا کہ ہمیں آزادی چاہیے۔
اس دوران ایک اور مسئلہ لوگوں کے سامنے آیا کہ ہم مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر طاقت کے زور سے حکومت کی تھی، مجموعی طور پر ہماری اکثریت کبھی بھی نہیں رہی، اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ پہلے یہ سلسلہ تھا کہ جس کے پاس طاقت ہو گی وہ حکومت کرے گا، لیکن انگریزوں نے آ کر ٹرینڈ بدل دیا کہ حکومت طاقت کے زور پر نہیں بلکہ ووٹ کی بنیاد پر ہو گی، جس کی اکثریت ہوگی وہ حکمران ہو گا۔ انگریزوں کے دو سو سالہ دور میں یہی تبدیلی آئی کہ اب حکومت کرنے کے لیے اکثریت چاہیے۔
اس پر مسلمان قائدین کو خیال آیا کہ اگر آئندہ ووٹ کی بنیاد پر حکومت ہوگی تو پھر ہندوؤں کی ہی ہوگی کہ ان کے ووٹ ہم سے بہت زیادہ ہیں۔ ہندو حکومت کریں گے اور ہمارا حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا اور ہم مستقل غلام ہو جائیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ ہندو جب ووٹ کی بنیاد پر حکومت کریں گے گا تو ہزار سال کا بدلہ بھی لیں گے۔ یہ قوموں کی نفسیات ہوتی ہے کہ انہیں پچھلے ہزار سال یاد آئیں گے۔ اس لیے خیال ہوا کہ ہمیں اپنا ملک الگ کر لینا چاہیے، یہ ہے تحریکِ پاکستان کی بنیاد۔
مسلمان لیڈروں نے فیصلہ کیا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ہمیں اپنا علیحدہ ملک بنا لینا چاہیے۔ یہ بات ایک زمانے میں مسلم لیڈر چودھری رحمت علیؒ نے کی، اس کو باضابطہ فکر اور تحریک کی شکل علامہ محمد اقبالؒ نے دی ہے۔ فکری طور پر علامہ اقبالؒ نے اور سیاسی طور پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے۔ مسلمانوں کی اکثریت ایک تو اس علاقے میں تھی جو شمالی ہند کہلاتا ہے جس میں پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ ہیں۔ دوسری طرف مشرقی بنگال میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ تو یہ بات منظم ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچی کہ شمالی ہند اور مشرقی بنگال میں ہم ہندوؤں سے الگ ملک بنانا چاہتے ہیں کیونکہ واضح طور پر یہ مسلم اکثریت کے علاقے تھے۔ چنانچہ انگریزوں سے مطالبہ کیا گیا۔
انگریزوں سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں آزادی دو۔ اور دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ یہ خطہ تقسیم کر کے ہمیں پاکستان کے نام سے الگ ملک دو۔ اس کے لیے ۱۹۴۰ء میں قراردادِ پاکستان ہوئی، لاہور میں مینارِ پاکستان اسی کی یاد میں ہے کہ اسی میدان میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔ پھر ایک سیاسی تحریک منظم ہوئی جس کی حمایت بھی ہوئی اور مخالفت بھی ہوئی۔ لیکن تحریکِ پاکستان کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ پاکستان کے نام سے ہمیں ہندوؤں سے الگ ملک چاہیے تاکہ ہم بطور مسلمان کے اپنی آزاد حکومت قائم کر سکیں۔ یعنی تقسیم کی بنیاد مسلمان ہونا ہے کہ ہم اپنی الگ تہذیب رکھتے ہیں، ہندوؤں کے ساتھ نہیں چل سکتے، اس لیے ہمارا ملک الگ ہونا چاہیے۔
جب ۱۹۴۰ء میں تحریکِ پاکستان چلی تب اس کے مفکر علامہ محمد اقبالؒ فوت ہو گئے تھے، تو اس کے سیاسی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور ان کے ساتھ قائدین کا پورا گروپ مولانا ظفر علی خانؒ، مولانا شوکت علیؒ اور دیگر حضرات تھے۔ اس تحریک میں ہمارے اکابر میں سے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ تھے۔ یہ پوری قوت قائد اعظمؒ کے ساتھ تھی چنانچہ یہ اعلان ہوا کہ ہم پاکستان کے نام سے الگ ملک لیں گے۔ اس کے لیے پورے ہندوستان کے طول و عرض میں سیاسی تحریک، جلوس، جلسے اور نعرے بازی ہوتی رہی ’’ لے کے رہیں گے پاکستان ، بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔
قیامِ پاکستان کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ ہم پاکستان میں اسلام کا نظام نافذ کریں گے اور یہاں قرآن و سنت کی حکمرانی ہو گی۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نیا ملک بنا رہے ہیں تو آپ کا دستور کیا ہوگا؟ تو انہوں نے کہا کہ قرآن ہمارا دستور ہوگا۔ پوچھا گیا کہ آپ وہاں کیا کر یں گے؟ تو فرمایا کہ اسلام کے قوانین اور اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت قائم کریں گے، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی الگ شناخت کا تحفظ کریں گے۔
اس پس منظر میں بے شمار لوگوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا، قربانیاں دیں، شہادتیں ہوئیں، بہت کچھ ہوا۔ اس کے پیچھے تحریکِ آزادی تھی اور یہ تحریکِ پاکستان تھی۔ جس کے نتیجے میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے۔
انگریزوں نے مطالبہ منظور کر لیا اور ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا: ایک حصہ ہندوؤں کا اور ایک مسلمانوں کا۔ ہمیں پاکستان کے نام سے یہ خطہ ملا جس میں مغربی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہے۔ اور دوسرا خطہ جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے، اس وقت مشرقی بنگال کہلاتا تھا، وہ مسلمانوں کے حصے میں آیا۔ مشرقی پنجاب میں سکھوں کی اکثریت تھی اور مغربی پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی تو پنجاب بھی دو حصوں میں تقسیم ہوا۔
جبکہ کشمیر اب تک متنازعہ ہے اور اس کو متنازعہ ہی رکھنے کا پروگرام ہے کہ بعض جھگڑے قائم رکھے جاتے ہیں تاکہ اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں۔ کشمیر کا مسئلہ تھوڑا سا ذکر کر دیتا ہوں۔ اس وقت جب ہندوستان تقسیم ہوا تو یہاں بہت سی ریاستیں تھیں۔ بہت سے علاقوں پر براہ راست برطانیہ کی حکومت تھی، لیکن بہت سی ریاستیں ایسی تھیں جن کے اوپر اقتدار تو برطانیہ کا تھا، مگر اندرونی طور پر وہ خود مختار تھیں اور وہاں کے نواب اپنے داخلی نظام میں آزاد تھے۔
تقسیم کے وقت یہ طے ہوا کہ وہ ریاستیں انڈیا اور پاکستان دونوں میں سے جس کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں ان کی مرضی ہے۔ لہٰذا ان ریاستوں میں سے قلات، خیرپور، بہاولپور، سوات، دیر اور امب کی ریاستیں پاکستان کے ساتھ مل گئیں۔ کشمیر بھی ایک ریاست تھی جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اب بھی یہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔ وہاں کا نواب مہاراجہ ہندو تھا، اس نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ جسے کشمیری عوام نے مسترد کر دیا کہ ہم نہیں مانتے۔ یہ جھگڑے کی بنیاد بنی اور اس پر جنگ ہوئی، کشمیر کا کچھ حصہ الگ ہوا۔ گلگت کا علاقہ بھی کشمیر کا حصہ تھا، یہ الگ ہوا۔ چنانچہ کشمیر کا مسئلہ اس وقت سے اب تک متنازعہ چلا آ رہا ہے، زیادہ علاقہ انڈیا کے پاس ہے، کچھ ہمارے پاس ہے۔
یہ میں نے پاکستان کے قیام کا پس منظر عرض کیا ہے۔ چنانچہ تحریکِ پاکستان کے نتیجے میں الگ ملک قائم ہوا اور اس صورتحال میں پاکستان نے اپنی قومی زندگی کا آغاز کیا۔ بعد میں ۱۹۷۱ء میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا: بنگال جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا الگ ہوا اور بنگلہ دیش کے نام سے الگ ملک بن گیا۔
ہمارا اس سال کی نشستوں کا موضوع ہے ”پاکستان کی دینی تحریکات“۔ آج تحریکِ پاکستان کا کچھ تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے اندر مختلف اوقات میں جو دینی تحریکات چلائی گئی ہیں، ایک ایک کر کے ہم ان کے تعارف پر بات کریں گے، ان شاء اللہ العزیز، اور اگلی نشست سے اس کا باضابطہ آغاز ہوگا۔ اللہ کرے کہ ہم اپنی بات کو آٹھ دس نشستوں میں مکمل کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔