پاکستان سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطالبات

   
اگست ۱۹۹۷ء

ایمنسٹی انٹرنیشنل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرتا ہے، اور دنیا بھر میں انسانی حقوق پر عملدرآمد کی صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے جہاں اس کے نقطۂ نظر سے انسانی حقوق کے احترام اور ان پر عملدرآمد کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہوتی، اس کی نشاندہی کر کے اپنی سفارشات پیش کرتا ہے۔ یہ ادارہ مختلف ممالک کے بارے میں سالانہ رپورٹیں جاری کرتا ہے، جنہیں عالمی رائے عامہ، بین الاقوامی تعلقات اور ذرائع ابلاغ کا رخ متعین کرنے میں خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے، اور بیشتر حکومتیں اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کے تعین میں ان سے راہنمائی حاصل کرتی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے پاکستان کے بارے میں بھی ہر سال ایک رپورٹ شائع کی جاتی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور عدمِ احترام کے واقعات، اور ان کی تلافی کے لیے ایمنسٹی کی سفارشات پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے اس رپورٹ میں قادیانیوں، مسیحی اقلیت، اور عورتوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کا تذکرہ تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے اور ان کے حوالے سے پاکستان میں نافذ شدہ بعض اسلامی قوانین کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں ایمنسٹی کی ۱۹۹۷ء کی سالانہ رپورٹ کا اردو خلاصہ ہمارے سامنے ہے جو لندن سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ ’’آواز انٹرنیشنل‘‘ نے ۴ جولائی ۱۹۹۷ء کی اشاعت میں شائع کیا ہے۔ رپورٹ میں

  • قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اسلام کے نام پر اپنے مذہب کے پرچار سے روکنے کے قانون،
  • توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون،
  • اور زنا کی شرعی سزا کے قانون

کا بطور خاص اہتمام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اور ان قوانین کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں درج متعدد مقدمات کا حوالہ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان قوانین کے ذریعے قادیانیوں، عیسائیوں اور عورتوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں اور انہیں انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

چنانچہ اسی بنیاد پر ایمنسٹی کی طرف سے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار تمام افراد کو رہا کیا جائے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی شخص کو ان قوانین کے تحت سزا نہیں دی جائے گی۔ اور اس کے ساتھ ہی ایمنسٹی نے اس رپورٹ میں حدود آرڈیننس کے تحت زنا کی شرعی سزا کے قانون کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ یہ اس کے بقول عورتوں کے بارے میں امتیازی قانون ہے اور انسانی حقوق کے عالمی معیار سے ٹکراتا ہے۔

پاکستان میں نافذ شدہ چند اسلامی قوانین کے بارے میں یہ ریمارکس صرف ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نہیں ہیں بلکہ گزشتہ سال پاکستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سرکاری رپورٹ اور امریکی وزارتِ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں بھی یہی کچھ کہا گیا ہے۔ جس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کسی مسلمان ملک میں چند اسلامی قوانین کا برائے نام نفاذ بھی مغربی حکومتوں اور عالمی اداروں کو گوارا نہیں ہے، اور وہ انہیں ختم کرانے یا غیر مؤثر بنانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالتے رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

یہ صورتحال ملک کی ان جماعتوں کے لیے یقیناً لمحۂ فکریہ ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کی علمبردار کہلاتی ہیں، اور انہیں اسلام اور اسلامی قوانین کے بارے میں اس بین الاقوامی رجحان اور دباؤ سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ جلد ہی کوئی واضح حکمتِ عملی اختیار کرنا ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter