پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے سیکرٹری جنرل سید اقبال حیدر نے بائیس جون کو معاصر قومی اخبار ”ایکسپریس“ کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ”مذہب کو چھوڑ کر پاکستان میں سیکولر ازم نافذ کیا جائے۔“ انہوں نے اس گفتگو میں یہ بھی کہا ہے کہ ”مسلمانوں کا سب سے بڑا مجرم مُلا ہے۔“ اور یہ بات بھی ان کی اسی گفتگو کا حصہ ہے کہ ”حدود آرڈیننس ایک جبری قانون ہے، جو گن پوائنٹ پر ضیاء الحق نے نافذ کیا تھا، اس لیے اسے ختم ہو جانا چاہیے۔“
اقبال حیدر خیر سے سید کہلاتے ہیں اور پاکستان میں ہیومین رائٹس کے عنوان سے کام کرنے والی ایک معروف تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ وہ وفاقی وزیر کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ انٹرویو میں ان کے نام کے ساتھ سابق وفاقی وزیر کا لاحقہ دیکھ کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ آخر انہوں نے وفاقی وزیر کے منصب کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کوئی حلف بھی تو اٹھایا ہو گا۔ اس حلف میں انہوں نے کیا کہا ہو گا؟ اس لیے کہ وفاقی وزیر کے منصب کا حلف اٹھاتے ہوئے دستور کی پاسداری اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے فرائض سرانجام دینے کا عہد بھی اس میں شامل ہوتا ہے اور پاکستان کے دستور کی بنیاد ہی اسلام پر ہے، جو ظاہر ہے کہ آج کی معروف اصطلاحات میں مذہب ہی کہلاتا ہے۔ میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ مذہب کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کرنے والے سید اقبال حیدر کی مذہب کی بنیاد پر تشکیل پانے والے دستور کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہوئے ذہنی کیفیت کیا ہو گی؟
مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ جب پہلی بار ۱۹۶۲ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے تو انہیں ۱۹۶۲ء کے دستور کے تحت قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانا تھا، جو ان کے نزدیک اسلام کی دستوری ضروریات و ترجیحات کو پورا نہیں کرتا تھا، اس لیے انہوں نے اپنے حلف میں چند جملوں کا اضافہ کیا تھا، جن کا مفہوم یہ ہے کہ ”میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے دائرہ میں رہتے ہوئے دستور کی پاسداری کروں گا اور اس دستور کو اسلامی بنانے کی کوشش کروں گا۔“ الفاظ اس سے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن مولانا مفتی محمودؒ نے اس حلف میں اپنی طرف سے جو اضافہ کیا تھا، اس کا مفہوم کم و بیش یہی تھا۔
نظریاتی لوگوں کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے نظریہ اور عقیدہ کے خلاف حلف اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے ظاہر سی بات ہے کہ سید اقبال حیدر نے بھی وفاقی وزیر کے منصب کا حلف اٹھاتے ہوئے اسلام کی بات کرنے والے دستور کی وفاداری کا حلف اٹھاتے وقت اس قسم کا کوئی اضافہ ضرور کیا ہو گا کہ وہ اس دستور سے (معاذ اللہ) اسلام کو نکالنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور اسے سیکولر دستور بنانے کے لیے کام کریں گے اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کہا تھا اور اس وقت وزارت کے شوق میں انہیں اپنا نظریہ اور عقیدہ یاد نہیں رہا تھا، بلکہ انہوں نے دستور کی تمام تر اسلامی دفعات کے سائے میں وزارت کے مزے لوٹے تھے تو غالباً اسے ہی دنیا منافقت اور مفاد پرستی کے نام سے یاد کرتی ہے۔
مولانا مفتی محمودؒ تو اپنے نظریے اور عہد پر پکے اور مسلسل کوشش کے ساتھ گیارہ سال کے بعد ۱۹۷۳ء میں دستور کو اسلامی بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس طرح کہ جب وہ ۱۹۶۲ء میں دستور کو اسلامی بنانے کی کوشش کا اعلان کر رہے تھے تو وہ قومی اسمبلی کے صرف ممبر تھے، لیکن جب اس کے ٹھیک گیارہ سال بعد ۱۹۷۳ء میں دستور ساز اسمبلی ملک کے مستقل دستور کی بنیادوں میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے کے ساتھ ساتھ ملک میں مکمل اسلامی قوانین و احکام کے عملی نفاذ اور قرآن و سنت کے منافی قوانین کو بتدریج ختم کرنے کی ضمانت کو شامل کر رہی تھی تو یہی مولانا مفتی محمودؒ دستور ساز اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت کر رہے تھے اور دستور کی منظوری میں ”بار گیننگ پاور“ ان کے ہاتھ میں تھی۔ یہ ایک نظریاتی راہنما کا عہد تھا، جو اپنے وعدے پر پکا رہا اور بالآخر اسے پورا کر دکھایا۔ مگر جب اس پس منظر میں سید اقبال حیدر کے ”مذہب کو چھوڑ دینے اور ملک کو سیکولر بنانے“ کے عقیدہ اور نظریہ کی طرف دھیان جاتا ہے تو ملک کے نام نہاد ترقی پسندوں اور سیکولر سٹوں کی پوری تاریخ دماغ کی اسکرین پر گھوم جاتی ہے کہ ان بے چاروں کو کہاں کہاں اور کیا کیا قلابازیاں کھانی پڑیں اور منافقت اور مفاد پرستی کی کون کون سی ”غلام گردشوں“ کے چکر کاٹنے پڑے۔
ایک دور وہ تھا جب مذہب سے انحراف کی بنیاد پر سیکولر سیاسی فلسفہ کے علمبرداروں کا قبلہ ماسکو اور اس کے بعد ماسکو نواز کابل ہوا کرتا تھا۔ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے ادھر کا رخ کرتے تھے اور وہیں سے رہنمائی اور بھتہ وصول کیا کرتے تھے۔ لیکن آج کل ان کا قبلہ واشنگٹن ہے اور وہ سال میں ایک دو بار وہاں کی وزارت خارجہ کے جنوبی ایشیا ڈیسک کے گرد چکر لگانے کو اپنی سیاسی زندگی اور صحت کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں۔ انہیں پاکستان میں اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لیے یہ شرط قبول رہی ہے (ظاہر ہے کہ آئندہ بھی رہے گی)۔ وہ اسلام کے ساتھ وفاداری کا کئی بار اعلان کر چکے ہیں، لیکن جونہی موقع ملا اسلام سے بیزاری کے اظہار میں بھی انہوں نے دیر نہیں کی۔ سید اقبال حیدر کا مذکورہ انٹرویو پاکستان کے سیکولر حلقوں کی گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کی تاریخ اور کردار کی صدائے باز گشت ہے، جس سے صحیح طور پر وہی شخص لطف اندوز ہو سکتا ہے جو جنوبی ایشیا میں گزشتہ ساٹھ سالوں کے دوران ان کی نظریاتی کشمکش اور اس کے مختلف کرداروں سے شناسائی رکھتا ہے۔
اقبال حیدر نے اپنے اس انٹرویو میں مُلا پر بھی کرم فرمائی کی ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ ملا گزشتہ ڈیڑھ صدی سے اس کرم فرمائی کا ہدف چلا آ رہا ہے۔ اس دوران بڑے بڑے ”سید اقبال حیدر“ آئے اور مُلا پر چاند ماری کی مشق کرتے ہوئے ”عروسِ انجام“ سے ہمکنار ہو گئے۔ آج بھی بہت سے لوگ اس شوق میں اپنے بازوؤں کو تھکانے میں مصروف ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا، لیکن مُلا بھی بڑی ڈھیٹ مٹی سے بنا ہے، اس پر ان باتوں کا اثر نہ کبھی ماضی میں ہوا ہے اور نہ ہی آج کے تابڑ توڑ حملوں میں اسے اپنے پاؤں کی جگہ بدلنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
سابق صدر جنرل محمد ایوب خان نے اپنی خود نوشت ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے حیرت بھرے انداز میں لکھا ہے کہ ”۱۹۴۷ء میں سیاسی شکست کے بعد یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اب یہ مُلا بھی سیاسی میدان میں سر اٹھائے گا، لیکن خدا جانے یہ کس سخت جان مٹی سے بنا ہے کہ اس کے صرف چھ سال بعد وہی مُلا تحریکِ ختمِ نبوت کے عنوان سے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا تھا۔“
سید اقبال حیدر نے یقیناً فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی یہ خود نوشت پڑھی ہو گی۔ خدا جانے یہ پڑھتے ہوئے ان کے احساسات و تاثرات کیا ہوں گے، لیکن میں تو کبھی کبھی مزہ لینے کے لیے اسے پھر سے پڑھتا ہوں اور بہت انجوائے کرتا ہوں۔
مجھے سید اقبال حیدر کے اس ارشاد سے اختلاف نہیں ہے کہ ”مُلا سب سے بڑا مجرم ہے۔“ البتہ اس حوالے سے تحفظ رکھتا ہوں کہ مُلا مجرم کس کا ہے؟ مُلا مسلمانوں کا مجرم نہیں ہے، اس لیے کہ جو لوگ آج کسی درجہ میں مسلمان ہیں، وہ مُلا ہی کی وجہ سے ہیں اور انہیں اس حقیقت کا پوری طرح احساس ہے کہ ان کی مسلمانی اور اسلام دونوں عالمِ اسباب میں اس وقت صرف مُلا کے دم قدم سے ہیں۔ ہاں مُلا ان لوگوں کا ضرور مجرم ہے جو مذہب کو چھوڑنا چاہ رہے ہیں، لیکن مُلا کی وجہ سے اپنے اندر اس کا حوصلہ نہیں پاتے اور جو سیکولر ازم کی منزل کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں اسلام کے ساتھ وفاداری کا حلف بھی اٹھانا پڑ جاتا ہے۔ آج مُلا سب سے بڑا مجرم ہے لیکن مغرب کا، جس کے ایجنڈے کی تکمیل میں مُلا سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جس کے فکر و فلسفہ کی مسلسل پیش قدمی ملا کے دروازے پر آ کر ایسی رکی ہے کہ اب اس کو واپسی کے لیے بھی راستہ نہیں مل رہا۔
سید اقبال حیدر نے حدود آرڈیننس پر بھی سخت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس بات پر تلملا رہے ہیں کہ یہ قانون مغرب کے مسلسل دباؤ اور مغرب نواز حلقوں کی چیخ و پکار کے باوجود ابھی تک کیوں ختم نہیں ہوا۔ ان کے ساتھ اس غصہ اور تلملاہٹ میں اور بھی بہت سے لوگ شریک ہیں، جن کی تلملاہٹ اب دھیرے دھیرے جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ وہ اسے ایک جنرل کا نافذ کردہ آرڈیننس کہہ کر اپنے دل کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ یہ بات سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس آرڈیننس کے پیچھے اصل قوت ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ کی عوامی طاقت تھی، جس میں بعض رپورٹوں کے مطابق ایک ہزار کے لگ بھگ افراد نے جام شہادت نوش کیا اور ایک لاکھ کے قریب کارکن جیلوں میں گئے، جبکہ کراچی سے پشاور تک پوری قوم کئی ماہ تک سڑکوں پر رہی۔ اس ہمہ گیر عوامی تحریک کے نتیجے میں صدر ضیاء الحق کو دستوری اور قانونی حوالے سے وہ چند اسلامی اقدامات کرنا پڑے، جن میں سے ایک یہ حدود آرڈیننس بھی ہے۔
سید اقبال حیدر کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ حدود آرڈیننس صرف ایک شو پیس ہے، جو صرف دکھانے کے لیے ہے، اس کے گرد مروجہ عدالتی نظام کی پیچیدگیوں کا ایسا جال تن دیا گیا ہے کہ اس کی کسی شق پر صحیح طریقہ سے عملدرآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ربع صدی گزرنے کے باوجود ابھی تک اس کی کسی دفعہ پر عمل ہوا۔ البتہ مجھے پریشانی اس بات کی ہے کہ حدود آرڈیننس کے صرف شوپیس پر، جس کے عملی دائرہ میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے، سید اقبال حیدر اور ان کے ہمنواؤں کی تلملاہٹ کا یہ حال ہے تو اگر کسی دن حدود آرڈیننس اصل حالت میں ملک میں نافذ ہو گیا تو ان بے چاروں کا حشر کیا ہو گا؟