حدود آرڈیننس: تاثرات و خیالات

   
۱۲ نومبر ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس کے بارے میں آزاد کشمیر کی عدلیہ اور رفقاء سے تعلق رکھنے والے تین حضرات کے تاثرات اور تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالے سے ان کے خیالات گزشتہ کالم میں پیش کر چکا ہوں۔ اب پنجاب کے ایک ضلع میں عدالتی خدمات سرانجام دینے والے حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے تاثرات انہی کے قلم سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان سیشن جج صاحب کا نام اور ضلع مصلحتاً درج نہیں کر رہا۔ ان کی تحریر کا مطالعہ کیجئے اور یہ دیکھیے کہ حدود آرڈیننس اور عورتوں کے حقوق و مسائل کے بارے میں موجودہ کشمکش اور بحث و مباحثے کو عدلیہ کے ذمہ دار لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ تحریر مجھے گزشتہ دنوں دوبئی آتے ہوئے موصول ہوئی ہے اور میں نے اس کا مطالعہ دوبئی میں کیا ہے۔ میں چھ نومبر کو شام دوبئی پہنچا ہوں اور تیرہ نومبر کو واپسی کا ارادہ ہے، اس دوران قارئین کو اپنے مشاہدات اور تاثرات سے آگاہ کرتا رہوں گا، ان شاء اللہ

جرم کی تعریف اور اس کی نوعیت مختلف ادیان میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے، جبکہ ہر معاشرے نے اپنی اقدار کے اعتبار سے اس کی تعریف میں ہمیشہ ترمیم و تبدیلی کی ہے اور سزاؤں کے اطلاق میں مختلف آرا موجود ہیں۔ جو آفاقی ادیان آج روئے زمین پر باقی ہیں، ان کے پیروکاروں میں سزاؤں کا اطلاق اپنی مرضی سے ہے اور وہ اس کو تسلیم بھی کرتے ہیں، جبکہ مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ حد اور تعزیر دو اقسام کی سزائیں ہیں اور حد جو کہ اللہ کی طرف سے متعین کردہ ہے، اس میں کوئی تبدیلی و تغیر ممکن نہیں ہے، کیونکہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہماری اخلاقیات اور قوانین تمام کی تمام مذہب کے تابع ہیں۔

مگر کچھ عرصے سے ایک طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ قانون ایسا ہو جو کہ لوگوں کی مرضی اور طبائع کے مطابق ہو، بلکہ ایک طبقے کی خواہشات کا آئینہ دار ہو اور اس میں حتیٰ کہ ”حدود“ کی ضمن میں تبدیلی کا اختیار کسی ادارہ، پارلیمنٹ یا طبقے کو حاصل ہو۔ خصوصی طور پر ”حد“ کی خاص شکل جو ”نسواں“ کے جرائم سے متعلقہ ہے، اس کو ایک خاص طریقے سے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور اسلامی حدود اور سزاؤں کو متنازعہ بنا کر پیش کرنے میں اس کا خاص عمل دخل ہے۔ مذہب نے حفظِ ماتقدم کے طور پر ان تمام عوامل کو بھی جرائم کی فہرست میں شامل کیا ہے جو کہ بڑے جرم، جن پر حد نافذ ہوتی ہے، کے ہونے کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اس لیے معاشرت اور معاشرتی نظام کو مذہب نے بڑی اہمیت دی ہے اور اسے بے لگام نہیں چھوڑا، بلکہ عبادات سے زیادہ احکامات معاشرت اور معاشرتی نظام پر ہیں، جن میں لین دین، رشتہ داری، تعلقات، سماجی مسائل، شادی، طلاق کے مسائل اور دیگر امور شامل ہیں۔

زنا کا خصوصی حوالہ ہمارے خطے کے اعتبار سے، خطے کی ثقافت کے اعتبار سے اور ہماری مذہبی اقدار و روایات کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ زنا کی عمومی صورتیں یہ ہیں: زنا کا ہونا، زنا کرنا، زنا بالجبر، زنا بالرضا۔

ہمارے ملکی قانون میں زنا بالجبر اور بالرضا کی الگ الگ تعریف موجود ہے اور اس کی سزائیں بھی الگ الگ وضاحت کے تحت ہوتی ہیں اور اس پر کافی قانونی شکل موجود ہے، مگر دونوں کا اطلاق ”حدود“ کے زمرے میں آتا ہے، مگر مختلف قانونی دفعات کی شکل میں ہے، جبکہ شریعت میں زنا ایک ہی لفظ اور ایک ہی مفہوم کے ساتھ آیا ہے، اس کی سزا کا بھی ”حد“ میں تعین کیا گیا ہے۔ یہ بحث بہت ہو چکی کہ حد کب لگتی ہے، اس کے کیا اجزا اور عوامل ہیں، مگر یہ طے ہے کہ ”حد“ جب لگے گی، جب کوئی واقعہ قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔ یہ مروجہ اصول ہے کہ جب کسی شے کی اہمیت ختم کرنا مقصود ہو تو اسے متنازعہ بنا کر اس پر بحث شروع کر دی جائے۔

اب تک جو بحث عوام و خواص، حتیٰ کہ علمائے کرام میں جاری رہی، یہی ہے کہ حد کیا ہے؟ کیا زنا بالجبر اور زنا بالرضا دونوں حد کی زد میں آتے ہیں اور دونوں پر حد جاری ہو سکتی ہے یا نہیں، بالخصوص زنا بالجبر؟

یہ نکتہ قانونی طور پر بہت اہم ہے کہ اس کی ذمہ داری پولیس پر ہے کہ دیکھے کہ زنا بالجبر ہے یا زنا بالرضا، تاہم اس کے مطابق کارروائی ہو۔ اس کا نتیجہ موجودہ قانون کی روشنی میں ہو گا اور ہو رہا ہے کہ زنا بالجبر ہی کے تمام معاملات لائے جائیں گے اور زنا بالرضا کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔

عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورت جس فریق کے قبضے میں چلی جاتی ہے، اس کے حق میں ہی بیان دیتی ہے واقعات اور حقائق چاہے کچھ بھی ہوں۔ اس مرض کا کیا علاج ہے؟ قانون صرف ان الفاظ پر حرکت میں آئے گا جو شہادتیں، بیانات، حقائق پولیس اکٹھی کرے گی اور ضلع کا ایس پی درجے کا افسر اس پر قانون کا اطلاق کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرے کو برائی کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ مرد عورت کے آزادانہ اختلاط کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا کہ جب تک چار افراد زنا بالرضا کے گواہ نہ ہوں گے تو نہ پرچہ درج ہو گا، نہ ہی اس پر کوئی دوسرا جرم لگے گا۔ مقامی پولیس کو تو اس پر گرفت اور چیک کا اختیار ہی نہیں۔ مقدمہ درج ہوتے ہوتے کتنے تکلیف دہ مراحل متاثرین برداشت کریں گے، اس کا تصور ہی نہیں کیا گیا۔

مقدمہ درج کرانے کا اس قدر مشکل طریقہ بنا دیا گیا کہ ہر آدمی کی استطاعت سے باہر ہے۔ یہ تو صرف وسائل اور قوت والے لوگوں کے لیے رعایت ہے کہ ان کے پاس افراد اور مال دونوں موجود ہیں اور وہ اپنی مرضی سے اس کا اطلاق کرا سکیں گے۔ جب وقوعہ کی رپٹ بھی درج نہیں ہوئی تو غریب آدمی کہاں ایس پی درجے کے افسر کے پاس چار افراد کو لے جا کر اپنی بات سنائے گا۔ توہین رسالتؐ کی دفعات کو جب قانون میں شامل کیا گیا تو اس کے اطلاق کے لیے بھی ایسے ہی عوامل درپیش تھے، تاہم اس ضمن میں کئی مقدمات درج ہوئے۔ مگر زنا بالرضا کا معاملہ بہت حساس، پورے معاشرے کی معاشرتی اقدار کو بے دردی سے تبدیل کرنے کی منفی خواہش ہے، نوجوان نسل کو تباہ کرنے کی سازش ہے، بلکہ مذہب سے دور کرنے کی اصل سازش ہے اور یہ قانون اس کی بنیاد ہے۔

عورت کے ذہن سے معاشرے کی طرف سے قدغن کا خوف ختم ہو گیا تو سارا معاملہ اور ماحول بگڑ جائے گا۔ قانون بنانا اتنا مسئلہ نہیں ہے، جتنا اس پر عمل کروانا، یا اس کا اجرا کرنا مسئلہ ہوتا ہے۔

اب تک جو بحث علمائے کرام کے مابین رہی، وہ بھی یہی تھی کہ قانون شرعی ہے یا غیر اسلامی۔ بات سزاؤں پر تھی، اس کے اطلاق پر تھی۔ اصل نکتہ نہ تو علماء کو بحث کے لیے پیش کیا گیا، نہ ہی ان سے اس کے متعلق رائے مانگی گئی۔ غلط واقعات پر جیسے لوگ مرضی کا فتویٰ حاصل کر لیتے ہیں، گورنمنٹ نے بھی یہی کیا اور اب تشہیر شروع کر دی کہ علماء کمیٹی نے اس کو شرعی قرار دیا ہے۔ علمائے کرام کے سامنے سوال جرم کے شرعی ہونے اور اس کے شرعی اطلاق اور سزا سے متعلق تھا۔ نہ تو انہیں بتایا گیا کہ اس کا اطلاق قانونی طور پر کیسے ہو گا، مقدمہ درج کرانے کی شرائط، مقدمہ کے بارے میں قانونی نکات کہ ضابطے کو کون کون لوگ ہینڈل کریں گے، اس بارے میں کوئی بات نہ بتائی گئی، نہ پوچھی گئی۔ اب قانون کی زبان میں اصلاحات اور ان کی تعریف میں کوئی کمی یا زیادتی نکالے گا۔ انہوں نے سوال کے مطابق صحیح جواب دے دیا، مگر حکمرانوں کی نیت چونکہ شروع سے خراب تھی، اس لیے اللہ نے عوام میں ایسا طبقہ سامنے رکھا، جس نے مسلسل اس کی مخالفت کی۔

قانون کو اتنا مشکل بنا کر پیش کیا جائے کہ لوگ خود اس سے احتراز کریں۔ ایک ہے لفظوں کے معنی، اور ایک ہے ان کی حقیقت۔ اسی اعتبار سے قانون میں حد سے زیادہ گنجائش رکھ دی گئی کہ جرم جرم ہی نہ رہے اور لوگ اس کو جرم جاننا اور سمجھنا بند کر دیں۔ اسی سازش کے تحت اس کے اطلاق کے قانون کو بنایا گیا۔ دفعہ ۱۵۶بی ضابطہ فوجداری میں یہ بات طے کی گئی کہ جس حدود کیس میں عورت ملزم کی حیثیت سے ہو تو اس کو ایس پی (Investigation) سے کم کا افسر تفتیش نہ کرے اور ملزمان کو بھی عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار نہ کیا جائے۔

ان دو شقوں کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ کیا پولیس کی Powers کو کم کرنے کی کوشش کی گئی یا ان کی قوت و اختیارات پر Check (چیک) لگایا گیا ہے یا پھر اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ پولیس ایسی کسی معاشرتی برائی کو کسی بھی اطلاع پر نہ چیک کر سکتے ہیں، نہ ہی اس میں مداخلت کا اختیار رکھتے ہیں، کیا یہ شق کسی اور جرم کے لیے بھی لگائی گئی ہے؟ عورتوں کو صرف حدود کے کیس میں ہی یہ رعایت کیوں؟ ملزم خواہ عورت ہو یا مرد، کہاں لکھا ہے کہ اس میں تفریق کی جائے؟ یہ شق جو کہ قانون کے اطلاق کے سلسلے میں ہے، خود بتاتی ہے کہ بنانے والوں کی نیت کیا ہے۔

  1. عورتوں سے یہ خوف ختم کر دیا جائے کہ اگر وہ کوئی ایسا جرم کریں گی تو کوئی مزاحمت کرے گا، نہ روکے گا۔
  2. معاشرے میں بے راہ روی کو عام کرنے کا ایک طریقہ، بلکہ ترغیب ہے۔

اگر معاشرے میں چیک کا سسٹم ختم کر دیا جائے تو سارا معاشرہ جنگل ہو جائے گا۔ پھر اسلامی معاشرے میں ایسی شقوں کا اطلاق تو لوگوں کے مذہب سے بیگانہ کرنے کی سازش ہے، حالانکہ طے شدہ بات ہے کہ عمومی اختلاط مرد و زن کئی جرائم کو جنم دیتا ہے۔ آپ اس کی اجازت دیتے ہیں، بلکہ اس کی ترغیب دیتے ہیں، بلکہ قانون بناتے ہیں کہ جو اس سے روکے گا وہ قانونی طور پر مجرم ہو گا۔ پھر کم از کم حدود کے اطلاق کو تو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ سارے معاملات منفی ہو جائیں۔ تفتیش ایک بات کے تہہ تک پہنچنے کا ذریعہ اور طریقہ ہے، اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے، مگر جب اندراج وقوعہ ہی اتنا مشکل ہو گا، جب اس کے اطلاق میں ہی اتنی رکاوٹیں ہوں گی تو پھر کون جرأت کرے گا اس کو اٹھانے کی اور کس کے پاس اتنا وقت ہو گا کہ ان کے لیے جدوجہد کرے۔

۲۹۵سی کی تفتیش ایس پی کو دینے کے کئی مقاصد تھے۔ مثلاً یہ کہ ہر کوئی ہر کسی پر جھوٹا الزام نہ لگا دے اور پھر اس میں الفاظ کے استعمال، ان کی تعبیر و تشریح اور ان کے اطلاق اہمیت رکھتے تھے۔ مگر زنا تو ایک عمل ہے جو ہر شخص دیکھ سکتا ہے اور اس کے بارے میں رائے دے سکتا ہے اور معاشرے کے طبقات اس کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ۲۹۵سی میں ایسا نہیں ہے، معاشرے میں اس کے لیے ملزم کو بطور عبرت ہی گردانا جاتا ہے، جبکہ حدود کی ان شقوں کے اطلاق سے ملزم کی حیثیت VIP اور ہیرو کی سی ہو گئی ہے۔

۲۹۵سی میں تفتیش ایس پی کے حوالے کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کسی کو اس میں غلط طور پر نہ پھنسا دیا جائے، جبکہ حدود کیس ایس پی کے حوالے کرنے کا مقصد کوئی مقدمہ ہی درج نہ ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ۲۹۵سی کے تحت آج تک جب سے قانون بنا ہے، کتنے مقدمات درج ہوئے ہیں؟ حدود کے شاید روز اس سے زیادہ مقدمات بنتے ہیں اور واقعات ہوتے ہیں۔

اب انتظامی طور پر بھی دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ ایس پی رینک کے کتنے پولیس افسران ضلع میں ہوتے ہیں۔ پوچھ کچھ کیسے ہو گی، تفتیش کیسے کرے گا، اب تک اگر اس نے موقع ملاحظہ کرنا ہو گا تو کیسے ہو گا، شہادتیں کیسے اکٹھی کرے گا؟ پھر تو یہ ہو گا کہ ایس پی دفتر میں بیٹھا رہے گا اور سارا دن لوگ خود ہی جھوٹی سچی گواہیاں لا کر اس کے سامنے پیش کر دیں گے، جن کو فوری طور پر جانچنے کا اس کے پاس کوئی پیمانہ نہ ہو گا۔ یوں غلط مقدمات کی بھرمار ہو جائے گی، طاقت ور، وسائل والے لوگ مرضی سے مقدمات درج کرواتے رہیں گے۔ کئی اضلاع میں ہیڈ کوارٹر سے فاصلے چار پانچ گھنٹے سے زائد کے ہیں۔ کچے کے علاقے میں یہ فاصلے اور بھی زیادہ ہیں، کون اتنے گواہان کو لے کر روز ایس پی کے پاس جائے گا اور اپنی تفتیش کروائے گا اور پھر مقدمہ درج ہو گا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ اب مقامی پولیس بھی یہی کہتی ہے کہ زنا بالجبر کا پرچہ کروا لو۔

(نوٹ: مضمون کی صرف پہلی قسط ابھی تک دستیاب ہوئی ہے)

   
2016ء سے
Flag Counter