بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ’’سی پیک معاہدات‘‘ کو قومی اسمبلی میں زیربحث لایا جائے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ قرضے ہیں یا سرمایہ کاری ہے؟ اپنے خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح افغانستان سے مہاجر یہاں آئے تھے اب چینی گوادر میں بہت تعداد میں آئے ہوئے ہیں، بلوچستان کی معدنیات چین لے جا رہا ہے اور ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا کہ کتنا سونا اور دوسری معدنیات نکل رہی ہیں۔
چین ہمارا دوست ملک ہے جس نے ہر دور میں اور ہر نازک مرحلہ پر ہمارا بھرپور ساتھ دیا ہے جبکہ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی ہمیشہ مثالی رہی ہے۔ اور اب سی پیک (China–Pakistan Economic Corridor) کا پروگرام اسی دوستی کی علامت اور اس کا عملی اظہار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا بلکہ پورے علاقے کی صورتحال یکسر بدل سکتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ سی پیک معاہدوں کے حوالہ سے سوالات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے کہ ان کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے جس کی مناسب صورت یہ ہے کہ سردار اختر مینگل کے مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے صورتحال کو واضح کیا جائے اور باہمی مشاورت کے ساتھ ان معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ ویسے بھی قومی اسمبلی کا یہ حق ہے کہ قومی اور بین الاقوامی معاملات و معاہدات میں اسے پوری طرح اعتماد میں لیا جائے۔ اس کا مطلب چین کی دوستی اور خلوص پر کسی شک کا اظہار نہیں ہے بلکہ باہمی معاملات کو زیادہ شفاف اور اعتماد کے ماحول میں تکمیل تک پہنچانا ہے۔
گزشتہ روز ایک محفل میں اس بات کا تذکرہ ہوا تو ایک دوست نے کہا کہ ’’حسابِ دوستاں در دل‘‘ یعنی دوستوں کا حساب دل میں ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ درست بات ہے مگر بسا اوقات یہ صرف ایک حرف کے اضافہ سے ’’دردِ دل‘‘ بھی بن جایا کرتا ہے اور باہمی معاملات میں شکوک و شبہات کا پیدا ہو جانا دوستی کے لیے مشکلات پیدا کر دیا کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں کراچی کے معروف تجارتی جریدہ ہفت روزہ ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘ کے ستمبر ۲۰۱۲ء کے آخری شمارہ کا اداریہ بھی قابل توجہ ہے جسے ہم اس کالم کا حصہ بنا رہے ہیں:
’’کہانی بہت سادہ سی ہے۔ چین دنیا کا معاشی جن ہے۔ اس کے پاس ۳ ہزار ارب ڈالر سے زائد کے ریزرو پڑے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کی ایکسپورٹ ہو رہی ہے اور وہ تیزی سے ڈالر سمیٹ رہا ہے۔ اس نے ۲۰۱۳ء میں پاکستان کو ۴۶ ارب ڈالر سے سی پیک منصوبہ شروع کرنے کی دعوت دی۔ اتنی بڑی دولت بیٹھے بٹھائے پاکستان میں آرہی تھی۔ اتنی دولت پاکستان میں آتی دیکھ کر ہر کسی کی آنکھیں پھیل گئیں۔ حکومتیں ریجھ گئیں، صوبے للچائی نظروں سے دیکھنے لگے۔ وفاق نے ایک کمیٹی بنائی اور بالا ہی بالا سی پیک کی تفصیلات طے کر لیں۔ اتنے میں میڈیا کو اس کی بھنک پڑ گئی۔ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور صوبوں کو باور کروایا کہ تمہارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ صوبوں نے ایک کورس میں اس ظلم و زیادتی کا نوحہ پڑھنا شروع کر دیا۔ حکومت گھبرا گئی۔ صوبوں سے بات کی تو ہر کسی کے مطالبات تھے۔ اسی ادھیڑبن میں چین نے کہا کہ ہم سی پیک کی سرمایہ کاری ۴۶ ارب ڈالر سے بڑھا دیں گے۔ ہمارے پاس ریزروز بہت ہیں۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ پاکستان میں موجود ریزروز صرف ۱۶ ارب ڈالر کے ہیں۔ چین کے پاس اتنے ریزروز ہیں کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک ملا کر بھی اتنے ریزروز کے مالک نہیں ہیں۔ چین نے اشارہ دے دیا کہ ہم سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، آپ تمام صوبوں کو اعتماد میں لیں۔ اس کے بعد حلوائی کی دکان میں ناناجی کی فاتحہ برپا ہوگئی۔ ہر صوبے نے اپنے مطالبات رکھے۔ روٹ یوں نہیں یوں ہوگا۔ فلاں فلاں مرکزی شہروں سے گزرے گا۔ وفاق اور صوبے مطمئن ہوگئے، اپنے اپنے حصے پر خوش ہوگئے۔ مگر اس کی شرائط و ضوابط اور اصول کیا ہوں گے؟ اس سے ہر کسی کی نظریں اوجھل ہوگئیں۔
چین اس ساری گیم کو دیکھتا رہا اور اپنی مرضی کی شرائط دیتا گیا۔ ہماری حکومت اور تمام صوبے اس دوران شرائط سے لاتعلق رہے۔ سی پیک پر کام شروع ہوگیا۔ چین نے ملک میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ اس دوران حکومت بدل گئی اور نئی حکومت نے آتے ہی یوں تعجب کا اظہار کیا گویا اسے آج تک کسی بات کا علم ہی نہ ہو۔ یہ تعجب غلط تھا یا نہیں، اس کا جواب تو تاریخ کے پاس امانت ہے۔ مگر ہمارے خیال میں چین سے ان شرائط پر بہت واضح بات کرنے کی ضرورت ہے۔ چین ہماری دوستی کا دعوٰی بھی کرتا ہے، ہم اس کی خاطر امریکہ سے لڑ جاتے ہیں۔ پاک چین دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، ہمالیہ سے زیادہ بلند اور سمندر سے زیادہ گہری کا نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ مگر چین جب سرمایہ کاری کرتا ہے تو بے تحاشا سود رکھتا ہے۔ شرائط ایسی کہ یقین نہیں آتا۔ خدا کرے یہ شرائط منظر عام پر آئیں تو پتہ چلے کہ اس وطن پر کتنا بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
پھر چین برکس کے نام سے اتحاد بناتا ہے تو اس میں پاکستان کو نہیں بلکہ انڈیا کو شامل کر لیتا ہے۔ پھر اسی فورم سے پاکستان سے دہشت گردی ختم کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سی پیک پاکستان کی نہیں دراصل چین کی مجبوری ہے۔ اگر حکومت بھرپور غور و فکر کے بعد اس منصوبے کو آگے بڑھائے گی تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ پاک چین دوستی سمندر سے زیادہ گہری ضرور ہے مگر چین کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ دوستوں سے مفادات نہیں سمیٹے جاتے۔ ایک اعلٰی عہدیدار کے بقول امریکہ ہمیں سیدھی چھری سے ذبح کرتا تھا اور اب چین الٹی چھری پھیر رہا ہے۔ ان باتوں کے حقائق منظر عام پر آنے چاہئیں کہ اس کی شرح سود ۱۷ سے ۲۲ فیصد کے درمیان کیوں ہے؟ سی پیک منصوبوں سے ملنے والی بجلی پاکستانیوں کے لیے اس قدر کیوں مہنگی ہوگی؟ تھرمل، ہائیڈل اور سولر منصوبے ہمارے لیے اتنے مہنگے کیوں؟ خدانخواستہ چین ہمارے ساتھ وہ تو نہیں کرنے جا رہا جو اس نے زیمبیا اور سری لنکا کے ساتھ کیا؟ جاگتے رہنا بھائیو!‘‘
اس پس منظر میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے مطالبہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ان معاملات کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لانا اہم ترین قومی ضرورت ہے جس کی طرف حکومت کو فوری توجہ کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر کے ارباب دانش، علمی و فکری اداروں اور سیاسی و دینی راہنماؤں سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ ان تمام امور کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر رائے عامہ کی بروقت راہنمائی فرمائیں تاکہ سی پیک منصوبہ کو ملک و قوم کے لیے زیادہ سے زیادہ مؤثر، مفید اور محفوظ بنایا جا سکے۔