حکیم محمد سعید شہید رحمہ اللہ کی بات میرے ذہن سے اتر چکی تھی، مگر مولانا عبد المجید لدھیانوی نے پھر یاد دلا دی۔ بیسویں صدی عیسوی کے اختتام پر ہم نے اس حوالے سے کچھ پروگرام بنانا چاہے اور اس عنوان سے کچھ فکری اور نظریاتی پروگراموں کی ترتیب کرنا چاہی تو اس سلسلے میں مشاورت اور رہنمائی کے لیے مختلف ارباب دانش کو خطوط لکھے، جن میں حکیم محمد سعید شہید رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔ حکیم صاحب ”الشریعہ“ کے مستقل قاری تھے اور مشوروں سے بھی حسب موقع نوازا کرتے۔ ہمارے اس خط کے جواب میں انہوں نے تعجب کا اظہار کیا اور فرمایا کہ
”ہم تو صدی کے حوالے سے تقریبات اور دیگر پروگرام ہجری صدی کے اختتام پر کر چکے ہیں اور ہماری صدی وہی ہے۔ آپ حضرات کو یہ نئے پروگرام کیسے سوجھ گئے ہیں؟“
ان کے اس ارشاد پر ہمیں بھی تنبہ ہوا اور ہم نے ہاتھ ڈھیلا کر دیا۔ حکیم صاحب رحمہ اللہ کا یہ ارشاد سو فیصد درست ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مارکیٹ میں رائج الوقت سکہ ہی چلتا ہے، اس لیے ہمارے ذہنوں اور معمولات میں شمسی تقویم کی حکمرانی چلی آ رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم کی خدمت میں جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا میں حاضری کا اتفاق ہوا اور انہوں نے بڑی شفقت اور دعاؤں سے نوازا، جبکہ اس سے قبل دارالعلوم مدنیہ، ماڈل ٹاؤن، بہاولپور میں ختم بخاری شریف کی تقریب کے موقع پر ان کے ارشادات سننے کا موقع ملا۔ انہوں نے ہجری سن اور تقویم کے بارے میں بطور خاص بات کی اور کہا کہ
”ہمارے دینی مدارس کے امتیازات اور خدمات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہجری تقویم کو زندہ رکھا ہوا ہے، اس طرح کہ دینی مدارس کے تعلیمی سال کا دورانیہ، امتحانات، تعطیلات اور دیگر متعلقہ امور ہجری سن کے اعتبار سے طے پاتے ہیں، ورنہ ہماری عام زندگی میں ہجری سن، تاریخ اور تقویم کا کوئی حوالہ باقی نہیں رہ گیا۔ حالانکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ بہت سے شرعی احکام و فرائض کی ادائیگی قمری ماہ و سال سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے چاند کی رؤیت اور ہجری مہینوں اور سالوں کا حساب رکھنا امت کے لیے فرض کفایہ کا درجہ رکھتا ہے اور اس وقت یہ فرض کفایہ پوری امت کی طرف سے صرف دینی مدارس ادا کر رہے ہیں۔“
مجھے اس موقع پر یاد آیا کہ سعودی عرب بھی اس فرض کفایہ کی ادائیگی میں ہمارے ساتھ شریک ہے اور سعودی عرب کے سرکاری اور دفتری امور ہجری سن و ماہ کے لحاظ سے انجام پاتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس سلسلے میں دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ ایک موقع پر میں نے لندن سے واپسی پر سعودی عرب میں کچھ وقت گزارنے کا پروگرام بنایا اور سعودی سفارت خانے سے وزٹ ویزا حاصل کر لیا، جو ایک ماہ کے لیے تھا۔ میں نے عمرہ کے ویزے کی درخواست دی تھی، مگر ان دنوں عمرہ کا ویزہ نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے مجھے ایک دوست کی سفارش پر سعودیہ کے سفیر محترم نے خصوصی حکم کے ذریعے وزٹ ویزا جاری کرا دیا، میں نے اسے غنیمت سمجھا اور ریاض، جدہ، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، بدر اور دیگر مقامات کی خوب سیر کی اور عمرہ کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوا۔
سعودی ویزے پر عیسوی تقویم کے ساتھ ساتھ ہجری تقویم کے اعتبار سے بھی تاریخ درج ہوتی ہے اور سرکاری طور پر اسی کا اعتبار ہوتا ہے۔ میں نے یہ پورا ماہ سعودیہ میں گزارا اور جب واپسی کے لیے جدہ ایئر پورٹ پہنچا تو صورتحال یہ تھی کہ ہجری ماہ کے حوالے سے سعودی عرب میں میرا قیام ویزے سے ایک دن زیادہ بنتا تھا، مگر شمسی حساب سے مہینہ پورا تھا۔ مجھے کاؤنٹر پر روک لیا گیا کہ آپ نے ویزے کی مدت کی خلاف ورزی کی ہے اور ایک دن زیادہ گزارا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے ویزے کی مدت کی خلاف ورزی نہیں کی اور زیادہ وقت نہیں گزارا۔ اس پر کاؤنٹر پر کھڑے افسر اور میرے درمیان خاصی تکرار ہوئی۔ وہ ویزے میں درج قمری تاریخ پر انگلی رکھتا اور کہتا کہ تمہارا قیام ایک دن زائد بنتا ہے اور میں شمسی تاریخ پر انگلی رکھ کر اصرار کرتا کہ میرا قیام ایک ماہ پورا رہا ہے۔ جب ہماری تکرار زیادہ بڑھ گئی تو وہ مجھے اپنے افسر کے پاس لے گیا۔ اس نے ہماری بات سنی، میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور اس افسر سے کہا کہ چھوڑو، جانے دو۔ یوں میری جان چھوٹ گئی، ورنہ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو، اس تکرار میں میری فلائٹ نکل سکتی ہے۔
مولانا عبد المجید لدھیانوی مدظلہ نے اس گفتگو میں فرمایا کہ
”ہم قیامِ پاکستان اور آزادی کا دن ۱۴ اگست کو مناتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمیں برطانوی استعمار سے آزادی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ملی تھی اور پاکستان بھی ایک نئے ملک کے طور پر اسی روز دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جس رات پاکستان کے قیام کا باضابطہ اعلان ہوا وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی اور برکتوں اور رحمتوں والی رات تھی۔ اس لیے اگر ہم اپنی آزادی اور یوم آزادی کی نسبت ۱۴ اگست کی بجائے ۲۷ رمضان المبارک سے قائم رکھتے اور اس سلسلے کی تقریبات کا ۲۷ رمضان المبارک کو اہتمام کرتے تو ہمیں رمضان المبارک کی برکات کا حصہ بھی ملتا اور رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کی نسبت سے دینی ماحول اور آزادی کے ساتھ دین کا تعلق بھی ذہنوں میں فروغ پاتا، مگر مغرب ہمارے ذہنوں پر اس قدر مسلط ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور ماہ و سال کے حساب کا شرعی معیار بھی بھولتے جا رہے ہیں۔ عام لوگ تو رہے ایک طرف، علماء کرام کی اکثریت کا حال بھی یہ ہے کہ نہ قمری تاریخ یاد ہوتی ہے اور نہ مہینہ ذہن میں ہوتا ہے۔“
بہرحال یہ ہماری اجتماعی کوتاہیوں میں سے ہے، جس کی طرف توجہ کرنے اور توجہ دلانے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں ایک اور بات بھی ذہن میں آ رہی ہے، جو میرے والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ
”تاجر حضرات اور زکوٰۃ ادا کرنے والے دیگر لوگوں کے لیے بھی ہجری تقویم کا حساب رکھنا شرعاً ضروری ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور اس میں رقم پر سال گزرنے کی شرط میں ہجری اور قمری سن کا اعتبار ہے، جو شمسی سال سے دس دن چھوٹا ہوتا ہے اور دونوں کے حساب میں تینتیس سال میں ایک سال کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی صاحب شمسی حساب سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو تینتیس سال میں ان کی ایک سال کی زکوٰۃ رہ جائے گی جو انہوں نے ادا نہیں کی ہو گی۔“
بہرحال اس سال میں نے ۱۴ اگست کا دن کراچی میں گزارا۔ اس روز جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ، کراچی میں ختم بخاری شریف کی تقریب تھی، جامعہ کے مہتمم مولانا فداء الرحمٰن درخواستی مدظلہ کے ارشاد پر میری حاضری ضروری تھی، مگر ۱۳ اگست کو رات جامعہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خان پور کے سالانہ اجتماع کی آخری نشست میں حاضری کے بعد کراچی کے سفر کا عزم کیا تو اگرچہ تیزگام پر میری سیٹ بک تھی، مگر گاڑیاں مسلسل دس دس بارہ بارہ گھنٹے لیٹ ہو رہی تھیں، اس لیے اسے ترک کرنا پڑا اور کوچ پر بیٹھ گیا، جس نے گیارہ گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد صبح ساڑھے دس بجے کراچی پہنچا دیا۔
منگھو پیر روڈ پر جامعہ عثمانیہ کی تقریب میں بھی شرکت کا وعدہ تھا۔ دیوبند سے مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری مدظلہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کی زیارت کی اور جامعہ عثمانیہ کے پروگرام میں حاضری کے بعد جامعہ انوار القرآن پہنچا، جہاں ایک پروقار تقریب میں مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے شیخ الحدیث مولانا سیف الرحمٰن المہند نے دورہ حدیث کے طلبہ کو آخری سبق پڑھایا۔ ان کے علاوہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر ڈاکٹر قاری فیوض الرحمٰن، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا فداء الرحمٰن درخواستی اور راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔
راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں دورۂ حدیث کے طلبہ اور علماء کرام کو اس طرف توجہ دلائی کہ بخاری شریف پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے اس بات کو ضرور پیش نظر رکھیں کہ پہلی حدیث ”انما الاعمال بالنیات“ اور آخری حدیث ”کلمتان حبیبتان“ کے درمیان انہوں نے سال بھر میں جو کچھ پڑھا ہے یا پڑھ رہے ہیں، اس میں انسان کی انفرادی، خاندانی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کے مسائل اور ضروریات کا کوئی پہلو تشنہ تو نہیں ہے۔ یہ اسلام کا اعجاز، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز اور بخاری شریف کی جامعیت ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کا حوالہ ملے گا۔
آج کے دور میں جو کہ اجتماعیت کا دور ہے، سولائزیشن کا دور ہے اور معاشرت کے تیزی کے ساتھ ارتقا کا دور ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی اس جامعیت کو زیادہ اہمیت کے ساتھ نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حدیث نبویؐ کی تعلیمات کا تذکرہ کرتے ہوئے آج کے حالات اور عالمی تناظر کو ضرور سامنے رکھ لیا کریں۔ اس سے بہت رہنمائی ملے گی اور وہ زیادہ اعتماد اور حوصلے کے ساتھ نبویؐ تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں گے۔
۱۵ اگست کو مجھے علی الصبح واپس آنا تھا، اس لیے کراچی کے یوم آزادی کا مشاہدہ نہ کر سکا، البتہ جامعہ عثمانیہ سے جامعہ انوار القرآن آتے ہوئے راستے میں دو نوجوانوں کو دیکھا کہ وہ موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر سڑک پر گھوم رہے تھے اور موٹر سائیکل کے شور کی طرف پورے علاقے کو توجہ دلا کر اپنے ”ذوقِ آزادی“ کا اظہار کر رہے تھے، جبکہ ۱۵ اگست کو صبح ایئر پورٹ کی طرف جا رہا تھا کہ ہماری گاڑی کے ڈرائیور نے یکے بعد دیگرے تین اشارے پار کر دیے۔ وہ ہمارے ہی ایک عزیز ساتھی تھے، میں نے انہیں یاد دلایا کہ بھائی! آج بھارت کا یوم آزادی ہے، ہمارا یوم آزادی کل گزر چکا ہے، اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے رفتار کم کر دی۔