شیخ الہندؒ ایجوکیشنل چیریٹی ٹرسٹ دیوبند کی دعوت پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے وفد کے ہمراہ دیوبند دہلی اور بھارت کے بعض دیگر شہروں میں حاضری اور متعدد بزرگوں سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے شیخ الہند ؒ کی تحریک ریشمی رومال کو ایک صدی مکمل ہونے پر صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا اور اسی کے تحت ۱۳ و ۱۴ دسمبر ۲۰۱۳ء کو دیوبند میں اور ۱۵ دسمبر کو دہلی میں ’’شیخ الہند امن عالم کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ جس میں بھارت کے طول و عرض سے آنے والے ہزاروں افراد اور سرکردہ علماء کرام کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش، برما، سری لنکا، نیپال اور برطانیہ سے بھی علماء کرام کے وفود شریک ہوئے۔ پاکستان سے جمعیۃ علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں تیس کے لگ بھگ علماء کرام کا بھرپور وفد کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچا جس میں مولانا عبد الغفور حیدری، مولانا محمد خان شیرانی، مولانا اللہ وسایا، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر خالد محمود سومرو، مولانا محمد امجد خان، مولانا سید محمود میاں، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا مفتی عبد الستار، مولانا قمر الدین، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا محمد شریف ہزاروی، مولانا حافظ عبد القیوم نعمانی، مولانا گل نصیب خان اور نور احمد کاکڑ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ہم ۱۱ دسمبر کو’’ لاہور امرتسر دوستی بس‘‘ کے ذریعے واہگہ بارڈر کراس کر کے ظہر کے وقت امرتسر پہنچے اور مسجد خیر دین میں نماز ظہر ادا کی۔ یہ مسجد امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور تحریک آزادی کے دیگر سر کردہ راہنماؤں کی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۱۹ء میں جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے سلسلہ میں تاسیسی اجلاس اسی مسجد میں ہوا تھا۔
یہاں سے روانہ ہو کر ہم عشاء تک لدھیانہ مرکزی جامع مسجد میں پہنچ گئے جہاں مجلس احرار اسلام ہند کے صدر مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ثانی نے، جو رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے پوتے ہیں، وفد کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ عشاء کی نماز اور کھانے سے فارغ ہو کر قافلہ چندی گڑھ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں رات ایک ہوٹل میں گزاری۔ جمعیۃ علماء ہند اس سفر میں ہماری میزبان تھی، مرکزی جمعیۃ کی طرف سے مولانا سید مودود مدنی، مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا طاہر مظاہری اور مولانا محمد اسرائیل سہارنپوری نے امرتسر میں قافلہ کا استقبال کیا اور دیوبند پہنچنے تک ہمارے ساتھ رہے۔ چندی گڑھ میں ایک پر فضا مقام پر واقع ہوٹل میں قافلہ کا قیام انہی کی میزبانی میں تھا۔
جمعرات کو صبح چندی گڑھ سے ہمارا پروگرام سر ہند شریف میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کی خانقاہ میں جانے کا تھا، ظہر تک وہاں حاضر ہوئے اور خاندان مجددی کے قبرستان میں فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل کی۔ دوپہر کا کھانا خانقاہ کے منتظمین کی طرف سے تھا، ظہر اور عصر کی نمازیں ہم نے وہیں ادا کیں اور پھر سہارنپور کی طرف چل پڑے جہاں جامعہ مظاہر العلوم میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کے فرزند و جانشین حضرت مولانا محمد طلحہ دامت برکاتہم کے ہاں وفد کا عشائیہ تھا۔ حضرت مدظلہ کی زیارت و دعا سے شادکام ہوئے، کھانا تناول کیا، عشاء کی نماز جامعہ مظاہر العلوم کی جدید مسجد میں ادا کی اور پھر دیوبند کا قصد کیا۔ اس علمی و روحانی مرکز میں ہم رات ایک بجے کے لگ بھگ پہنچے، دارالعلوم کے طلبہ اور اساتذہ سراپا انتظار تھے اور پرجوش نعروں کے ساتھ اپنے مہمانوں کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ دار العلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابو القاسم نعمانی دامت برکاتہم بھی سینئر اساتذہ کے ہمراہ دارالعلوم کے مہمان خانہ میں منتظر تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا قاری محمد عثمان اور سیکرٹری جنرل مولانا سید محمود اسعد مدنی نے اپنے رفقاء کے ہمراہ مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور دار العلوم کے وسیع مہمان خانے کے کمرے مہمانوں کے لیے کھول دیے گئے۔
صبح نماز فجر کے بعد وفد کے لیے دیوبند میں شام تک کی تفصیلات طے تھیں مگر راقم الحروف اور مولانا اللہ وسایا وہاں سے آنکھ بچا کر نکلے اور مجلس تحفظ ختم نبوت ہند کے راہنما مولانا شاہ عالم گورکھ پوری کے ہمراہ کاندھلہ، تھانہ بھون، شاملی، گنگوہ اور نانوتہ کا رُخ کر لیا۔ حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کے خلیفہ حضرت مولانا سید افتخار الحسن مدظلہ کی کاندھلہ میں زیارت کی اور ان کے فرزند مولانا سید نور الحسن راشد کے ہاں بعض نادر مخطوطات کی زیارت کی۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خانقاہ میں حاضر ہوئے، قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خانقاہ اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی قبر پر حاضری دی اور ان بزرگوں کے مراکز کی زیارت سے شادکام ہو کر عشاء تک دیوبند واپس پہنچ گئے۔
جمعہ اور ہفتہ کو دیوبند کے ایک ہال میں ’’شیخ الہند امن عالم کانفرنس‘‘ کی تین نشستیں ہوئیں جبکہ عیدگاہ کے میدان میں ہفتہ کے روز ظہر سے قبل کانفرنس کی کھلی نشست ہوئی۔ راقم الحروف نے ہال کی ایک نشست کے علاوہ کھلے جلسہ میں بھی کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ہفتہ کی شام تک ہم سب دہلی پہنچ گئے، مہمانوں میں سے کچھ کا قیام جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر میں اور باقی حضرات کا قیام ترکمان گیٹ کے ساتھ دو ہوٹلوں میں ہوا۔ جبکہ دو روز تک ہم دفتر جمعیۃ میں مولانا سید محمود اسعد مدنی کی دعوتوں کا لطف اٹھاتے رہے۔
۱۵ دسمبر کو صبح ساڑھے نو بجے سے اڑھائی بجے تک رام لیلا کے وسیع میدان میں ’’شیخ الہند امن عالم کانفرنس‘‘ کی آخری نشست بہت بڑے جلسہ عام کی صورت میں منعقد ہوئی جس میں شرکت کے لیے بھارت کے طول و عرض سے سینکڑوں قافلے رات ہی پہنچ چکے تھے اور کم و بیش پانچ گھنٹے تک عوام پورے اطمینان کے ساتھ راہنماؤں کے خطابات سنتے رہے۔
۱۶ دسمبر کو جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے مہمانوں کو دہلی کے اہم مقامات میں لے جانے کا پروگرام بنایا گیا تھا جس کے تحت ہم نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ، حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ، حضرت شاہ غلام علیؒ، اور دوسرے بزرگوں کی زیارات کے ساتھ ساتھ شاہی جامع مسجد اور شاہی قلعہ بھی دیکھا اور قطب مینار دیکھنے کے لیے گئے۔ بستی نظام الدین میں تبلیغی مرکز میں سب نے ظہر کی نماز ادا کی، قریب ہی مرزا غالب مرحوم کی قبر تھی وہاں فاتحہ پڑھی اور حضرت شاہ غلام علیؒ کی خانقاہ کے مسند نشین مولانا محمد انس مدظلہ سے ملاقات کی، وہ بہت خوش ہوئے اور دعاؤں سے نوازا۔
اس روز ہماری آخری حاضری حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے مدرسہ رحیمیہ میں تھی، اس عظیم خاندان کی قبروں پر فاتحہ خوانی کا شرف حاصل کیا اور مدرسہ رحیمیہ کی نئی تعمیر ہونے والی عمارت دیکھی۔ یہ مدرسہ ایک عرصہ ویران رہنے کے بعد اب دوبارہ آباد ہونا شروع ہوا، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا محل دیکھا جو اَب کھنڈر کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کے پڑوس میں حضرت مفتی کفایت اللہ دہلویؒ اور حضرت مولانا احمد سعید دہلوی کی قبروں پر فاتحہ اور دعا کا موقع حاصل کیا۔
منگل کو وفد کے اٹھارہ افراد نے واپس آنا تھا جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا، میزبانوں نے صبح نو بجے جیٹ ایئرویز کے ذریعے دہلی سے امرتسر تک ہوائی جہاز سے ہماری سیٹیں بک کرا رکھی تھیں مگر سارے مراحل سے گزر کر پتہ چلا کہ شدید دھند کی وجہ سے فلائیٹ کینسل ہو گئی ہے دوبارہ ساڑھے بارہ بجے کی فلائیٹ سے سیٹیں حاصل کیں مگر وہ بھی عین وقت پر کینسل ہو گئی۔ سارا دن ہمارا دہلی ائیرپورٹ پر گزر گیا جبکہ شام کو میزبانوں نے ہمارے لیے سلیپر بس کا انتظام کیا جس میں چوبیس کیبن بالکل بیڈ کے سائز کے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم اپنے بیڈ پر ہی سفر کر رہے ہیں۔ دہلی سے اٹاری بارڈر تک کا سفر دھند کی وجہ سے پندرہ گھنٹے میں طے ہوا، بارڈر بند ہونے سے صرف پندرہ منٹ پہلے ہم گیٹ تک پہنچ پائے اور اس طرح بدھ کو عصر کے وقت ہم پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئے۔