سیاست میں تشدد کا رجحان

   
۵ اکتوبر ۱۹۷۳ء
  • قلات سے آمدہ ایک رپورٹ کے مطابق مستونگ میں جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کے امیر اور صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر حضرت مولانا شمس الدین صاحب پر غنڈوں نے قاتلانہ حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ان کے کچھ ساتھی زخمی ہو گئے، مگر الحمد للہ کہ مولانا شمس الدین کو کوئی گزند نہیں پہنچا۔
  • ملک کے نامور راہنما محب وطن سیاستدان اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد خان عبد الولی خاں صاحب کی جیپ پر شیر گڑھ (مردان) کے قریب غنڈوں نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں خان موصوف کے ایک رفیقِ سفر نصیر خاں موقع پر شہید ہو گئے اور دوسرے ساتھی زخمی ہو گئے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ یہاں بھی غنڈوں کا نشانہ خطا گیا اور جناب عبد الولی خاں مامون و مصئون رہے۔
  • مریدکے ضلع شیخوپورہ میں متحدہ جمہوری محاذ کے جلوس پر غنڈوں نے فائرنگ اور پتھراؤ کیا۔ جس سے ضلعی جمعیۃ کے قائم مقام امیر اور محاذ کے سیکرٹری ڈاکٹر عبد الحق تارڑ اور ان کے ساتھی زخمی ہو گئے۔ اسی طرح کمالیہ ضلع لائلپور میں بھی متحدہ جمہوری کے جلوس میں غنڈہ گردی کا مظاہرہ ہوا۔

ملک کے مختلف حصوں میں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے رونما ہونے والے یہ واقعات جس صورت حال کی غمازی کر رہے ہیں اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔ خصوصاً جبکہ غنڈہ گردی کے ان افسوسناک واقعات میں نشانہ اپوزیشن اور خصوصاً متحدہ جمہوری محاذ کے راہنما اور کارکن بنے ہیں۔

ہم نے سیاسیات میں تشدد اور غنڈہ گردی کے رجحان کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست کا کاروبار اگر تشدد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو پھر سیاست ’’ہٹلر ازم‘‘ اور ’’چنگیزیت‘‘ سے مختلف چیز نہیں رہتی۔ اور ہماری بدقسمتی ہے کہ کوتاہ اندیش حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث رفتہ رفتہ ہم اسی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس کڑوے پھل کا تلخ ذائقہ چکھ لینے کے بعد بھی ہمارے مہربانوں کی رغبت ہے کہ دن بدن بڑھی چلی جاتی ہے۔

ایک مسلمہ اصول ہے کہ سیاسی مسائل کو تشدد کے ذریعہ دبانے کا نتیجہ منافرت و افتراق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ تاریخ اس قسم کے بے شمار شواہد سے بھری پڑی ہے۔ اور اس امر سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ آئینی و قانونی تحریکات کو جبر و تشدد کے ذریعہ دبانے سے وہ انڈرگراؤنڈ چلی جاتی ہیں اور بسا اوقات مجبور و لاچار ہو کر قانون کا دامن تھامے رکھنا بھی ان کے بس میں نہیں رہتا۔

حقوق و مفادات کی جس آواز کا گلا پارکوں اور بازاروں میں لاٹھی اور گولی کے ذریعہ گھونٹنے کی کوشش کی گئی، اس آواز نے ہمیشہ مٹنے کی بجائے چور دروازوں سے حکومت کے ایوانوں میں گھس کر حکمرانوں کا چین و آرام حرام کیا ہے۔ یہ باتیں سیاسی زندگی کے مسلمات میں سے ہیں۔ کوئی ذی فہم ان سے اعراض نہیں کر سکتا۔ اور ان مسلمات سے آنکھ بند کر لینے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے بڑے حصے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہمارے لیے تعجب کا مقام یہ نہیں کہ پاکستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیونکہ ہماری ربع صدی کی قومی زندگی اسی قسم کی سیاست سے عبارت ہے۔ محض اختلافِ رائے پر غداری کے فتوے، سیاسی مخالفین پر ملکی سالمیت کے تحفظ کے قانون کے تحت جھوٹے مقدمات، اور سیاسی حریفوں کو گولی کے ذریعہ راستے سے ہٹانے کے واقعات اس ملک میں اتنی کثرت سے ہوئے ہیں کہ اب غداری اور ملکی سالمیت کے الفاظ اپنے معانی سے محروم ہو چکے ہیں، اور سیاسی قتل کوئی غیر معمولی بات نہیں رہی۔

ہمیں تو حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ حکمران پارٹی کے سربراہ اور ملک کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو اچھے بھلے زیرک اور دانا سیاستداں ہیں، بین الاقوامی قانون کے معلم رہے ہیں، قوموں کے عروج و زوال، حکمرانوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور سیاست کے نشیب و فراز پر ان کی نگاہ ہے۔ مگر اس کے باوجود حقائق کو نظرانداز کرنا ان کے لیے معمولی بات ہے۔ آخر پاکستان کے اقتدار کی کرسی میں کون سا طلسم چھپا ہوا ہے کہ اس پر جو بیٹھتا ہے وہ اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔

بہرحال ہم غنڈہ گردی کے ان افسوسناک واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے حکمرانوں سے یہ عرض کریں گے کہ خدا کے لیے نوشتۂ دیوار پڑھیں اور تشدد اور غنڈہ گردی کا راستہ ترک کر کے امن و سلامتی کی راہ اپناتے ہوئے عوام کے جمہوری و سیاسی مطالبات تسلیم کریں۔

نیز ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مولانا شمس الدین اور خان عبد الولی خاں پر حملوں کی عدالتی تحقیقات کرا کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter