انتخابات کے موقع پر عام طور پر یہ سوال زیربحث آجاتا ہے اور بعض حلقوں کی طرف سے اس پر اظہار خیال کا سلسلہ بھی چلتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں عوام کی رائے اور ان کے نمائندوں کے چناؤ کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں اس سلسلہ میں کوئی راہنمائی ملتی ہے؟ آج اس حوالہ سے کچھ گزارش کرنے کا ارادہ ہے۔
یہ بات تو معروف و مسلم ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جن معاملات میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی ان میں لوگوں سے مشورہ کر کے فیصلے کرتے تھے۔ اس کی بہت سی مثالیں سیرت النبیؐ کے واقعات میں موجود ہیں جن میں سے دو کا ذکر کروں گا۔ ایک یہ کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آنحضرتؐ نے فیصلہ اپنے ساتھیوں کے مشورہ کے ساتھ کیا اور دوسرا یہ کہ غزوہ احد میں مدینہ منورہ کے اندر رہ کر دفاعی جنگ لڑنے کی بجائے باہر جا کر کھلے میدان میں لڑنے کا فیصلہ بھی عوامی مشاورت سے کیا گیا اور اس موقع پر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مجلس کی عمومی رائے خود حضورؐ کی ذاتی رائے سے ہم آہنگ نہیں تھی مگر آپؐ نے اپنی رائے ترک کر کے ساتھیوں کی رائے پر فیصلہ کیا۔
غیر منصوص مسائل میں عمومی مشاورت کا یہ حکم قرآن کریم میں موجود ہے۔ ایک جگہ مسلم سوسائٹی کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ ’’و امرھم شورٰی بینہم‘‘ ان کے معاملات باہمی مشاورت کے ساتھ طے ہوتے ہیں۔ اور دوسرے مقام پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’وشاورھم فی الامر‘‘ آپ اپنے ساتھیوں کو مشورہ میں شریک کیا کریں۔ جبکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ نبی کریمؐ کے دور میں ایسی کسی مشاورت میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ ایسے موقع پر کچھ مخصوص لوگوں کو مشورہ کے لیے الگ کیا گیا ہو بلکہ جو لوگ بھی اس موقع پر موجود تھے وہ اس میں شریک ہوئے ہیں۔ مگر دو مواقع ایسے ہیں کہ جن لوگوں سے مشاورت مقصود ہے یا انہیں اعتماد میں لینا ضروری سمجھا گیا ان کی کثرت کی وجہ سے سب کو شریک کرنا مشکل دکھائی دیا تو اس عمومی مشاورت میں نمائندوں کو ذریعہ بنایا گیا۔
ایک موقع تو ہجرت کا ہے کہ جناب رسول اکرمؐ نے انصار مدینہ کے دونوں قبیلوں بنو اوس اور بنو خزرج سے ہجرت اور اس کے بعد کے معاملات کے تعین کے لیے کم و بیش دو سال تک ان سے مذاکرات کیے جو بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کے عنوان سے تاریخ میں مذکور ہیں۔ جبکہ ان قبائل سے عمومی بات چیت کے لیے آنحضرتؐ نے بارہ نقیب مقرر کیے جنہوں نے اپنے قبائل اور حضورؐ کے درمیان نمائندوں کی حیثیت سے کام کیا اور ہجرت سے قبل یثرب کے عمومی ماحول کو آپؐ کی تشریف آوری کے لیے ہموار کیا۔ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس اور خزرج کے سرداروں سے فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ نقیب مقرر کیے تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے اسی طرح میں بھی تم پر بارہ نقیب مقرر کر رہا ہوں۔ چنانچہ ان بارہ نقیبوں نے مسلسل دو سال تک علاقہ میں وہ محنت کی جس کے نتیجے میں جناب نبی اکرمؐ کے آتے ہی ’’ریاست مدینہ‘‘ قائم ہوئی اور آپؐ کو اس کا حاکمِ اعلٰی تسلیم کر لیا گیا۔
دوسرا واقعہ غزوہ حنین کے بعد کا ہے کہ حنین کی جنگ میں بنو ہوازن کو شکست ہوئی اور ان کے بہت سے افراد اور اموال مسلمان فاتحین کے قبضہ میں آئے جنہیں بطور غنیمت تقسیم کرنے سے پہلے آنحضرتؐ نے کافی دن انتظار کیا کہ شاید بنو ہوازن آکر اسلام قبول کر لیں تو ان کے اموال اور قیدی انہیں واپس کر دیے جائیں۔ مگر بہت دنوں تک انتظار کے بعد بھی جب وہ نہیں آئے تو نبی کریمؐ نے اموال اور قیدی دونوں مجاہدین میں تقسیم کر دیے۔ لیکن جب یہ ہو چکا تو بنو ہوازن کا وفد حاضر ہوا اور اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرمائش کی کہ ہمارے اموال اور قیدی ہمیں واپس کر دیے جائیں جس پر آپؐ نے فرمایا کہ میں بہت دنوں تک تمہارا انتظار کرتا رہا ہوں اور اب وہ سب کچھ تقسیم کر چکا ہوں جس کے بعد واپسی کا اختیار میرے پاس نہیں رہا۔ البتہ اگر تم اموال یا قیدیوں میں سے ایک کا انتخاب کر لو تو میں اس کے لیے لشکر کے لوگوں سے بات کر سکتا ہوں۔ بنو ہوازن کے وفد نے کہا کہ اگر یہ صورتحال ہے تو ہم اموال چھوڑ دیتے ہیں مگر ہمارے افراد جو قیدی ہیں وہ واپس کر دیے جائیں۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کو جمع کیا جس کی تعداد اس وقت بارہ ہزار کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ آپؐ نے ان کے سامنے مسئلہ رکھا کہ میں نے قیدی واپس کرنے کا وعدہ کر لیا ہے اس لیے قیدی تو واپس کر دو مگر تمہاری مرضی ہے ویسے ہی چھوڑ دو یا اس کے عوض قیدی لے کر چھوڑو۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگلی کسی جنگ میں جو قیدی بھی آئے ان میں سے پہلے تمہیں ان قیدیوں کے عوض قیدی واپس کروں گا۔ اس پر مجمع میں سے اجتماعی آواز آئی کہ یا رسول اللہ! ہم سب بخوشی یہ قیدی واپس کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اس اجتماعی آواز سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ تم میں سے کون راضی ہے اور کون نہیں اس لیے اپنے اپنے خیموں میں واپس جاؤ ’’حتٰی یرفع الینا عرفاء کم امرکم‘‘ یہاں تک کہ تمہارے نمائندے ہمیں تمہاری رائے سے آگاہ کر دیں۔ چنانچہ اس اجتماعی آواز پر فیصلہ کرنے کی بجائے جناب نبی اکرمؐ نے لشکر کی رائے ان کے نمائندوں کے ذریعے حاصل کی اور پھر قیدیوں کی واپسی کا فیصلہ فرمایا۔
اس حوالہ سے ایک جگہ گفتگو ہوئی تو ایک صاحب نے سوال کیا کہ ہجرت کے موقع پر ’’نقباء‘‘ کا تقرر تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا مگر ان ’’عرفاء‘‘ کا تقرر کون کرے گا؟ میں نے عرض کیا کہ روایت میں تو اس کا ذکر نہیں ہے مگر سادہ سی بات ہے کہ جب کسی نے میری رائے کی نمائندگی کرنی ہے تو اس کا تقرر بھی مجھے ہی کرنا ہوگا۔ اس لیے اجتماعی معاملات میں عوام سے براہ راست رائے لینے یا نمائندوں کے ذریعے انہیں مشاورت میں شریک کرنے کی دونوں صورتیں سیرت طیبہ سے ہمیں ملتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں۔