مغربی کنارے کی متنازعہ باڑ اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی

   
تاریخ : 
اگست ۲۰۰۴ء

ہیگ کی عالمی عدالت انصاف کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے پر تعمیر کی جانے والی متنازعہ باڑ کے خلاف بھاری اکثریت سے قرار داد منظور کر لی ہے۔ اس سے قبل عالمی عدالت انصاف کے ۱۵ میں سے ۱۴ ججوں نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اسرائیل فلسطینی علاقے میں جو دیوار تعمیر کر رہا ہے وہ غیر قانونی ہے اس لیے اسے گروایا جائے۔ عدالت کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ دیوار کی تعمیر کو فوراً روک دیا جائے اور تعمیر شدہ باڑ کو مسمار کر دیا جائے، دنیا کے تمام ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس غیر قانونی تعمیر کو تسلیم نہ کریں اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ ججوں نے پینل کے سربراہ چین کے شی ژوانگ نے فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے کہ اسرائیل کے خود حفاظتی کے حق سے فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا، اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا اسرائیلی حکومت کا فرض ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے بین الاقوامی قوانین کی بھی پاسداری کرنی چاہیے، اسرائیل کے اس اقدام سے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اس سے مقبوضہ علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کے حقوق پر زد پڑتی ہے، اس لیے مغربی کنارے سے بجلی کی باڑ اور خاردار تاریں ہٹا دینی چاہئیں۔ عالمی عدالت نے اپنے فیصلے میں اسرائیل سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہرجانہ ادا کرے جنہیں متنازعہ باڑ کی تعمیر کی وجہ سے مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، نیز اقوام متحدہ اس غیر قانونی صورتحال کو روکنے کے لیے کاروائی کرے۔

عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ قرارداد منظور کی ہے جس میں اسرائیلی دیوار کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین و حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس دیوار کو گرا دے۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے عالمی عدالت انصاف اور جنرل اسمبلی کے ان فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دیوار کی تعمیر جاری رہے گی اور اس کے خلاف کوئی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا، جبکہ اسرائیل کو اس بارے میں حسب سابق امریکہ کی مکمل پشت پناہی اور حمایت حاصل ہے۔

اسرائیل کی طرف سے عالمی برادری کے فیصلے کو مسترد کرنے اور ہٹ دھرمی کے مظاہرہ کی یہ بات نئی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے قیام کے بعد سے اب تک مسلسل اس ہٹ دھرمی اور ضد کا مظاہرہ کر رہا ہے، اور امریکہ کی طرف سے اس کی حمایت اور پشت پناہی بھی غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کے ناجائز وجود اور اس کے یکطرفہ اور معاندانہ اقدامات کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ اس لیے اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری امریکہ کے اس طرز عمل کا نوٹس لے اور اسے اسرائیل کی ناجائز حمایت سے باز رکھنے کی کوئی صورت نکالے کیونکہ اصل مسئلہ اسرائیل کا نہیں امریکہ کا ہے، اور جس روز امریکہ نے اسرائیل کی ناروا حمایت کے طرز عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی اسرائیل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ اور عالمی برادری کے مطالبات کے سامنے سپر انداز ہونے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔

ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت اسرائیل کو اپنا دشمن قرار دیتی ہے لیکن اس کے پشت پناہ اور عملی سرپرست امریکہ کو اپنا دوست تصور کرتی ہے بلکہ اس کی خاطر خود اپنے ممالک میں دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرنے اور دوستوں کو دشمن قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ مسلم ممالک اگر اسرائیل کو لگام دینا چاہتے ہیں اور فلسطینیوں کے حقوق کے حوالہ سے مخلص ہیں تو انہیں اپنے اس دورخی طرز عمل اور متضاد رویہ پر نظر ثانی کرنا ہوگا اور امریکہ کے ساتھ اس مسئلہ پر دو ٹوک بات کرنا ہوگی کیونکہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کی چابی تل ابیب کے پاس نہیں بلکہ واشنگٹن کے پاس ہے اور عالمی برادری کے خلاف اسرائیل کی یہ ساری اچھل کود صرف اور صرف واشنگٹن کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter