ملک غلام مصطفیٰ کھر کے بارے میں ہماری جچی تلی رائے ابتدا ہی سے یہ رہی ہے کہ ان صاحب نے جس انداز سے بھٹو صاحب کے سائے میں حکمرانی کی ہے، اور ایک صوبہ کی حکمرانی سے جس طرح ہاتھ رنگے، اس کے پیش نظر اپوزیشن کا ساتھ دینا ان کے بس کی بات نہیں، اور اگر وہ اپوزیشن میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو خود کو بھی اور قوم کو بھی فریب دیتے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں انہوں نے جس انداز سے عین وقت پر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے ’’قومی اتحاد‘‘ کے ٹکٹ کو ٹھکرا کر عزم لندن کیا تھا، اس کے بعد ان کے عزائم کے بارے میں کسی خوش فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ لیکن کسی نہ کسی طرح وہ لندن سے واپس آ کر بھی مسلم لیگ کی سینئر نائب صدارت سے چمٹے رہے۔ اور اب وہ ریفرنڈم کے سوال پر مسٹر بھٹو کی حمایت کر کے بالکل بے نقاب ہو گئے ۔۔۔
مسٹر کھر کی اس دوغلی پالیسی سے سوائے ان کے اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا، لیکن مفاد پرست عناصر کے لیے دروازے کھلے رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے بہرحال یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اور ہم یہ گزارش ضرور کریں گے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے دروازے اتنے کھلے بھی نہیں رکھنے چاہئیں کہ جس کا جی چاہے دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی سینئر نائب صدر کی گدی پر جا بیٹھے، اور جب جی چاہے پلک جھپکتے ہی مین گیٹ سے باہر چھلانگ لگا دے۔ اس سے اور کچھ نہیں تو سیاسی جماعتوں کے ذمہ دارانہ مناصب کی ضرور توہین ہوتی ہے۔