تشدد ناکام ہو گا / بلوچستان میں ایرانی فوج؟

   
۷ ستمبر ۱۹۷۳ء

تشدد ناکام ہو گا

موجودہ حکومت نے سیاسی انتقام اور مخالفین پر تشدد کی جو نئی روایات قائم کی ہیں ان کی مثال سیاسی دنیا میں نہیں ملتی۔ اکثریت کو اقتدار سے محروم کر دینا، بنیادی حقوق سے عوام کی محرومی، سیاسی راہنماؤں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ، اپوزیشن کے جلسوں میں مسلح غنڈہ گردی، سیاسی مخالفین کو راشن کی فراہمی میں رکاوٹ، بار بار مذاکرات اور وعدوں کے بعد مسلسل وعدہ خلافی، اور اخلاقی جرائم کی دفعات کے تحت سیاسی قائدین پر مقدمات اور گرفتاریاں اس حکومت کے ’’نمایاں کارنامے‘‘ ہیں۔

انہی ’’کارناموں‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہو کر متحدہ جمہوری محاذ نے حکومت کے خلاف پُرامن تحریک کا آغاز کیا۔ اور دفعہ ۱۴۴ کی غیر آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتاریاں پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تا دمِ تحریر یہ سلسلہ جاری ہے اور اس تحریک کے ضمن میں متحدہ جمہویر محاذ میں شامل جماعتوں اور دیگر جماعتوں کے سینکڑوں کارکن گرفتار ہو چکے ہیں۔

حکمران پارٹی نے اس پُرامن تحریک کو تشدد کی راہ پر ڈالنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن محاذ کے محبِ وطن راہنماؤں اور کارکنوں نے تشدد کا ہر وار خندہ پیشانی سے سہہ کر حکمران پارٹی کی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ اور حکمران پارٹی کے غنڈے محاذ کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے موقع پر بار بار غنڈہ گردی کرنے کے باوجود تحریک کو سبوتاژ نہ کر سکے۔

خود حکومت نے ’’پُرامن سیاسی تحریک‘‘ کے قیدیوں پر ظلم و تشدد کر کے محاذ کے کارکنوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کی۔ مسلم لیگ کے جناب محمد قاسم کو زدوکوب کیا گیا، اور ان کے جسم پر زخموں کی میڈیکل رپورٹ میں بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما قاری نور الحق قریشی اور خواجہ عبد الرؤف کو برف پر مسلسل لٹایا گیا اور ننگا کر کے پیٹا گیا۔ جمعیۃ ہی کے ایک اور کارکن مولانا شیر محمد کی فاحشہ عورتوں کے ساتھ تصویریں کھینچی گئیں، اور ان کے علاوہ دوسرے راہنماؤں پر بھی بے پناہ ستم ڈھایا گیا۔

ظلم و تشدد کا یہ شرمناک ڈرامہ اس لیے سٹیج کیا گیا کہ محاذ کے کارکنوں کو خوفزدہ کر کے تحریک کو روکا جا سکے۔ مگر یہ حربہ بھی ناکام ثابت ہو چکا ہے اور تشدد کے ہر وار پر کارکنوں کے قدم پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے بڑھے ہیں۔ اور اب یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ تشدد کے ذریعہ متحدہ جمہوری محاذ کی تحریک کو روکا نہیں جا سکتا۔ اس لیے ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ محاذ کے ۱۱ نکات کو تسلیم کر کے ملک کے عوام اور اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے، تاکہ سب مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی کی طرف قدم بڑھا سکیں۔

بلوچستان میں ایرانی فوج

جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کے امیر مولانا شمس الدین نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں ایرانی فوج موجود ہے، اور انہیں فورٹ سنڈیمن سے گرفتار کر کے جس ہیلی کاپٹر میں سفر کرایا گیا وہ ہیلی کاپٹر اور اس کا پائلٹ ایرانی تھا۔

نیپ کے سربراہ جناب عبد الولی خان نے بھی بلوچستان میں ایرانی فوج کی موجودگی کی بات کی ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ جناب بھٹو نے ان سے خود کہا تھا کہ شاہِ ایران یہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان میں نیپ جمعیۃ حکومت قائم رہے۔

ایران ہمارا دوست اور اتحادی ہے جس نے ہر آڑے وقت ہماری امداد کی، ہم اس کی دوستی اور امداد کی پوری قدر کرتے ہیں، اور دوستی اور اخوت کی حد تک اس تعلق کو تا زیست برقرار رکھنے کے حق میں ہیں، اور کسی طور پر یہ نہیں چاہتے کہ ایران جیسے پڑوسی ملک کے ساتھ ہماری دوستی متاثر ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ملک کی سرحدوں اور ملکی سالمیت کے تحفظ کو بھی مقدم سمجھتے ہیں۔ اور خدانخواستہ اگر کسی بھی مقام پر ملکی سالمیت اور بیرونی دوستی آپس میں متضاد ہوئیں تو ہمارا فیصلہ بلا تامل ملکی سالمیت کے حق میں ہو گا، اور ہم کسی بھی دوستی پر ملک کی سلامتی کو قربان نہیں ہونے دیں گے۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت میں شاہِ ایران کی مبینہ دلچسپی اور بلوچستان میں ایرانی فوج کی موجودگی کی خبر دینے والے دونوں راہنما ذمہ دار اور محبِ وطن ہیں۔ ان کے ارشادات کو نظرانداز کر دینا کسی طرح بھی قرینِ قیاس نہیں۔ مزید برآں حکومت کی اس بارہ میں مسلسل خاموشی بھی اس خبر کی بالواسطہ مؤید ہے۔ اس لیے ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے، اور حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ اس بارے میں ملک کے عوام کو صحیح صورتحال سے آگاہ کر کے انہیں اعتماد میں لیا جائے اور ملکی سالمیت کے تحفظ کے لیے مثبت اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter