دارالعلوم وقف دیوبند کے نام مکتوب

   
۷ اگست ۲۰۱۸ء

نحمدہ تبارک و تعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔

دارالعلوم وقف دیوبند کے زیر اہتمام ۱۲ و ۱۳ اگست ۲۰۱۸ء کو خطیب الاسلام حضرت مولانا قاری محمد سالم قاسمیؒ کی یاد میں سیمینار کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں امت مسلمہ کے اس عظیم سپوت کی علمی و دینی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا جائے گا اور نئی نسل کو ان کی دینی و قومی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیا جائے گا۔ اپنے بزرگوں کو یاد رکھنا اور ان کی محنت و کاوش کے آثار کو تازہ کرتے رہنا ان کا بھی حق ہے مگر اس سے زیادہ یہ نئی نسل کا حق ہوتا ہے کہ اسے ان بزرگوں سے واقف اور وابستہ رکھا جائے جنہوں نے اس کے لیے مسلسل محنت کی۔ کیونکہ یہ ایسے ہی بزرگوں کی قربانیوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے جو نئی نسل کے ایک بڑے حصے کی دین و علم سے وابستگی اور قومی شعور و ادراک کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ کا تعلق اس عظیم خاندان سے ہے جسے دارالعلوم دیوبند کے بانی خاندان کے طور پر تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے اور اس خاندان کے عظیم سرخیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی طرف نسبت کو دنیا بھر میں دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کی مسلسل خدمات اور برصغیر میں اہل حق کی راہنمائی اور ترجمانی میں خاندانِ قاسمی کی چار پشتیں قیادت کی صف میں شامل چلی آرہی ہیں اور اب پانچویں پشت بھی اسی شاہراہ پر گامزن ہے جو خاندانی خدمات و روایات کا پرچم تھامے آگے بڑھ رہی ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد تاج برطانیہ کی حکمرانی کا آغاز ہوتے ہی جنوبی ایشیا کے مسلمان زیرو پوائنٹ پر واپس آگئے تھے اور سیاسی، معاشی، تعلیمی، تہذیبی، انتظامی، عدالتی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے بے دخل ہو کر قومی و ملی زندگی کے ازسرنو آغاز کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔ اس وقت جن خدا ترس اور باشعور اصحاب خیر نے تعلیمی و تہذیبی دائروں میں امت مسلمہ کی راہنمائی، خدمات اور ناخدائی کو اپنا شعار بنا لیا ان میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی شخصیت سرفہرست تھی اور پھر ان کے بعد حضرت مولانا حافظ محمد احمدؒ، حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اور حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے اس تسلسل کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کی شاندار روایات میں اضافہ کیا اور اہل حق کو حوصلہ و شعور سے بہرہ ور کرتے رہے جس کے ثمرات پورے جنوبی ایشیا کے ساتھ دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ امت مسلمہ کے علمی طبقات میں محدثین، فقہاء، صوفیاء، قراء، حفاظ اور دیگر ارباب علم و دانش کے ساتھ متکلمین رحمہم اللہ تعالیٰ کا ایک مستقل شعبہ ہے جس میں نامور اور جلیل القدر متکلمین نے ہر دور میں اسلامی عقائد و احکام کی حکیمانہ تعبیر و تشریحات کے ذریعے اس دور کے فکری و نفسیاتی تقاضوں کے مطابق اسلامی عقائد و احکام کو پیش کیا اور ہر دور کے اشکالات و اعتراضات کا منطقی و علمی جواب دے کر اسلام کی حقانیت و افادیت کے پرچم کو سربلند رکھا۔

میری طالب علمانہ رائے میں ۱۸۵۷ء کے بعد کی علمی، فکری اور تہذیبی تقسیم کار میں حضرت نانوتویؒ کو امام المتکلمین کا مقام حاصل ہے اور میں عام طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ اجتماعی دینی قیادت اور تقسیم کار کے اس دور میں جو اب تک جاری ہے، علم کلام میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، فقہ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حدیث میں علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ، تصوف و سلوک میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حریت قومی کے جہاد مسلسل میں حضرت شیخ الہندؒ مولانا محمود حسنؒ اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، جبکہ دعوت و تبلیغ میں حضرت مولانا محمد الیاس دہلویؒ کا امتیازی مقام مسلّم ہے۔ اور اگرچہ ان سب بزرگوں کی دین کے ہر شعبہ میں محنت و کاوش موجود ہے لیکن ہر ایک کا امتیازی مقام میری طالب علمانہ رائے میں وہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس بات کا تذکرہ بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت نانوتویؒ کی متکلمانہ شان ان کی چوتھی پشت تک تو اپنے پورے امتیاز کے ساتھ نمایاں دکھائی دے رہی ہے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ سے امید ہے کہ اگلی پشتیں بھی ’’أخذ بحظ وافر‘‘ کا مصداق ثابت ہوں گی۔

مجھے حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اور حضرت مولانا قاری محمد سالم قاسمیؒ کی مجالس میں بیٹھنے، ان کے ارشادات سے مستفید ہونے اور مختلف امور پر گفتگو کا شرف حاصل رہا ہے۔ میں نے دونوں بزرگوں سے استفادہ کیا ہے اور مجھے ان کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ یہ کہ مشکل سے مشکل مسئلہ کو عام فہم انداز میں مخاطبین کی ذہنی سطح کے مطابق اس انداز سے بیان کرتے تھے کہ کوئی ابہام باقی نہیں رہتا تھا۔ اور شاید ’’بلاغ مبین‘‘ اسی ذوق و صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔

مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اس سیمینار کے موقع پر ان بزرگوں کے حوالہ سے مجھے جو خدمت کرنا چاہیے تھی وہ مصروفیت کے بے پناہ ہجوم کے باعث نہیں کر سکا مگر ’’لا یترک کلہ‘‘ سے بچنا بہرحال ضروری سمجھتے ہوئے چند سطور کے ذریعے حاضری لگوانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ خدا کرے کہ ان بزرگوں کے ساتھ یہ نسبت و محبت دنیا و آخرت میں ہر جگہ ہمارے لیے سہارا بنی رہے اور انہیں جنت الفردوس میں اللہ تعالیٰ اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

ابو عمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد، گوجرانوالہ، پاکستان
۷ / اگست ۲۰۱۸ء


   
2016ء سے
Flag Counter